وزیراعظم کے کابینہ کو بائی پاس کرنے کا اختیار کالعدم قرار دے دیا ہے سپریم کورٹ
اسلام آباد ( نو ا ئے و قت ر پو ر ٹ/ ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے ٹیکسٹائل مصنوعات اور موبائل فون پر لگائے گئے لیوی ٹیکس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیراعظم کابینہ کے مشاورت کے بغیر مالیاتی امور پر فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ سینئر جج جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ان درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آئین میں وفاقی حکومت کی جو تشریح کی گئی ہے اس سے مراد وزیراعظم اور وفاقی کابینہ ہے۔ اس فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مالیاتی امور سے متعلق وزیراعظم وفاقی کابینہ کی پیشگی منظوری اور اس پر غور و خوض کے بعد بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے مجاز ہیں۔ اس کے سوا اگر کوئی آرڈیننس بھی جاری کرنا ہے تو اس کو بھی وفاقی کابینہ کی پیشگی منظوری سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم اگر کسی مالیاتی امر پر اکیلے کوئی فیصلہ کرتے ہیں تو وہ کالعدم ہی تصور ہو گا۔ اس فیصلے میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ ملکی آئین میں دیئے گئے رولز آف بزنس کی پاسداری کی جائے جس کے مطابق وزیراعظم یا اکیلے وفاقی وزیر وفاقی حکومت کا درجہ نہیں رکھتے۔ ڈپٹی سیکرٹری کی طرف سے ان مصنوعات پر لیوی ٹیکس عائد کرنے سے متعلق جو نوٹیفکیشن جاری کیا گیا اس کی وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ سے پیشگی منظوری نہیں لی گئی تھی۔ واضح رہے کہ لیوی ٹیکس کے خلاف مختلف کمپنیز نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی تھیں جنہیں مسترد کردیا گیا تھا جس کے بعد ان کمپنیز نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ ان درخواستوں کی سماعت میں عدالتی معاون اور سپریم کورٹ بار کے صدر علی ظفر نے بی بی سی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد وفاقی حکومت کے رولز آف بزنس اور اختیارات سے متعلق ایک طریقہ کار وضع کر دیا گیا ہے جس کے بعد اب کوئی بھی بیوورکریٹ اپنے طور پر یا متعقلہ وفاقی وزیر کے حکم پر کوئی نوٹیفکیشن جاری نہیں کر سکے گا۔ اس کے لیے مالیاتی امور پر غورو خوض کے علاوہ وفاقی کابینہ کی پیشگی اجازت ضروری ہے۔ عدالت نے وزیراعظم کے کابینہ کو بائی پاس کرنے کا اختیار کالعدم قرار دے دیا ہے۔ فل بنچ نے وزیراعظم کی جانب سے کابینہ کو بائی پاس کرنے کا اختیار رولز 16 کی شق 2 کو کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ٹیکس میں اضافہ یا کمی کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے جو وزیراعظم اور وزراء پر مشتمل ہوتی ہے، صرف وزیراعظم کی منظوری سے اس طرح کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکتا۔ وفاقی حکومت کے رولز میں ضابطہ 16 کی شق 2 کے تحت کا اختیار غیر قانونی ہے، کابینہ کی منظوری کے بغیر کسی بھی آرڈیننس کا اجرا غیر قانونی ہے، کوئی بھی قانون یا بل کابینہ کی منظوری کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ فنانس بل سمیت تمام قوانین پر غور کیلئے کابینہ کو مناسب وقت ملنا چاہئے۔ وزیراعظم، وزیر یا سیکرٹری وفاقی حکومت کا اختیار استعمال نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم کابینہ کے فیصلے کے پابند ہیں اور وزیراعظم کابینہ کے فیصلے کو بائی پاس نہیں کر سکتے، وفاقی حکومت کا اختیار صرف وفاقی کابینہ استعمال کر سکتی ہے۔ وزیراعظم کو مالی معاملات، بجٹ اختیارات، صوابدیدی اختیارات کابینہ کی منظوری سے استعمال کرنا ہوں گے۔ آئندہ کوئی بل یا آرڈیننس کابینہ سے منظوری کے بغیر جاری نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی قانون یا بل وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ 1973کے رولز آف بزنس کی پابندی حکومت پر لازم ہے۔ مالی معاملات، بجٹ اخراجات حکومت کے صوابدیدی اخراجات وفاقی حکومت استعمال کرتی ہے۔ وزیراعظم تنہا یہ اختیار استعمال نہیں کر سکتے، لیوی ٹیکس کا نوٹیفکیشن غیر قانونی ہے، کابینہ کی منظوری کے بغیر جاری کیا گیا کوئی بھی آرڈیننس غیر قانونی ہوگا۔ بل، آرڈیننس یا قانون کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کے لیے کابینہ کی منظوری لازم ہے۔ وزیراعظم اپنے طور پر ایسا کوئی قانون منظورکریگا تو وہ کالعدم ہوگا۔
سپریم کورٹ