دہشت گردی کی نئی لہر
ملک میں دہشت گردی کی پھر سے وارداتیں شروع ہو گئی ہیں جن میں ابتک متعدد افراد جاں بحق اور بیسیوں زخمی ہو چکے ہیں۔ سوموار کے روز کراچی کی ایم اے جناح روڈ پر بولٹن مارکیٹ کے قریب بم دھماکہ ہوا جس میں ایک خاتون جاں بحق اور دس افراد زخمی ہو گئے۔ جس کے بعد آگ لگ گئی۔ دھماکے میں پولیس وین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ دھماکے سے موٹر سائیکلوں، گاڑیوں اور دکانوں کو بھی نقصان پہنچا۔ بلوچستان کے ضلع تربت میں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے مبینہ خودکش بمبار خاتون کو گرفتار کر لیا۔ خاتون کا تعلق کالعدم تنظیم سے بتایا جاتا ہے۔ کراچی میں اس سے پہلے بھی دہشت گردی کی دو وارداتیں ہو چکی ہیں۔ ابھی دو روز قبل میران شاہ اور پشاور میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے۔جن کے نتیجے میں تین سکیورٹی اہلکار اور تین معصوم بچوں کے علاوہ 2 سکھ بھی مارے گئے۔ اگرچہ ہماری مسلح افواج دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر انہیں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اس کے باوجود دہشت گردی کی وارداتوں پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا جس کی وجہ سے یہ دہشت گرد ہمہ وقت تاک میں رہتے ہیں اورجہاں جہاں کمزوری دکھائی دیتی ہے وہاں وہاں یہ اپنی کارروائیاں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں بسا اوقات وہ کامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔ ان دہشت گردی کی وارداتوں میں افغانستان میں پناہ گزیں تحریک طالبان پاکستان اور پاکستان کے اندر موجود علیحدگی پسند گروہوں کے لوگ شامل ہیں جنہیں بھارت کی خفیہ تنظیم ’’ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ‘‘ (را) کی سرپرستی حاصل ہے۔ ان دہشت گرد تنظیموں کا ہدف زیادہ تر سکیورٹی اہلکار اورسرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ پاکستان میں مقیم غیر مسلم کمیونٹی کے ہیں تاکہ پاکستان کی حکومت کے خلاف غیر ملکی اور غیر مسلم لوگوں کے دلوں میں نفرت کی فضا پیدا ہو اور پاکستان کے اپنے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات میں خرابی پیدا ہو سکے۔ان حالات میں پاکستان کے دفاعی اداروں اور سکیورٹی کے ذمہ دار اداروں کو سکیورٹی کے انتظامات کو مزید مضبوط اور مؤثر بنانا ہو گا۔