جب سے پانامہ لیکس سامنے آئی ہیں، سیاسی، میڈیائی اور عوامی حلقوں میں ایک نہ ختم ہونے والا باتونی ہنگامہ بپا ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی نئی کہانی لیک ہورہی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پورا پاکستانی معاشرہ لیکولیک ہوچکا ہے تو غلط نہ ہوگا۔ پانامہ لیکس بتاتی ہیں کہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری (یا سیاہ زرکاری) کرنیوالے لوگوں میں وزیراعظم میاں نواز شریف کی دختر شریفہ اور پسران شریفہ کے علاوہ مسلم لیگ (ق) کے منہ بولے پاک دامن چودھری پرویزالٰہی کے فرزند ارجمند چودھری مونس الٰہی، جمعیت علمائے اسلام کے سیاسی کرشمہ باز مولانا فضل الرحمان کے برادر گرامی اور اسی جماعت کے سینیٹر طلحہ محمود، پیپلز پارٹی کی ’’بے نظیر‘‘ رہنما بے نظیر بھٹو، ایم کیو ایم کے ساتھ خارجہ تعلقات کے ماہر سابق وزیر داخلہ رحمان ملک، سیف اللہ کا صوبہ پختون خواہی خاندان شامل ہے۔ تحریک انصاف کے برزعم خود علیم اور خبیر عبدالعلیم خان معہ اپنی شریک حیات، مالیاتی کرتا دھرتا جہانگیر ترین کے جگر گوشے، سینیٹر لیاقت علی خان تراکئی معہ فرزند ارجمند شاہرام خان تراکئی اور ذوالفقار بخاری بھی پانامہ لیکس کے پاجامہ بردار پائے گئے ہیں۔ انکے علاوہ اور بہت سی کاروباری شخصیات بھی آف شور کمپنیوں کے دھنک رنگوں میں رنگی ہوئی منکشف ہوئی ہیں۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں، قومی اسمبلی، سینٹ ممبران کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں نے ذرائع ابلاغ اور عوامی جلسوں میں پانامہ پانامہ کا شور مچا رکھا ہے حالانکہ خود انکے سیاسی حلیف اور رہنما بھی حقیقت میں ’’پانامائے‘‘ ہوئے ہیں۔ بیچارے عوام اس شور شرابے میں اصل حقائق کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ یہ شور شرابہ دیکھ کر کالم لکھتے ہوئے ہمارے وجدان پر ایک شعر نے بھنگڑا ڈالنا شروع کردیا۔ یہ شعر کچھ یوں ہے …؎
کون کیا کہتا ہے، کیا سمجھے کوئی
اتنا واویلا مچا ہے ہر طرف
اس واویلے میں عمران خان کی آواز سب سے بلند دکھائی دیتی رہی۔ انہوں نے بڑے بڑے بھرپور جلسوں میں اپنے ساتھیوں اور دیگر سیاست دانوں کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف ’’میاں جی‘‘ کو للکارنے پر اکتفا کیا۔ ابھی عمران خان کی للکار جاری تھی کہ خود انکے سر پر پانامہ لیکس جیسی تلوار چمکنے لگی۔ عمران خان نے انتخابی مرحلے پر الیکشن کمیشن میں جو دستاویزات معہ قسمیہ بیان حلفی داخل کی تھیں، ان میں حلفاً بیان کیا گیا تھا کہ عمران خان، انکے بیٹوں یا انکے زیر کفالت کسی فرد کی ملکیتی کوئی کمپنی نہیں ہے۔ یہ مصدقہ بیان حلفی مارچ 2013 میں ریٹرننگ آفیسر راولپنڈی کے دفتر میں جمع کروایا گیا تھا۔ پھر اچانک ایک دھماکہ خیز انکشاف ہوا۔ جرسی فنانشل سروسز کمیشن کی دستاویزات کی اشاعت پر یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی کہ عمران خان مئی 1983 سے نیازی سروسز لمیٹڈ نامی ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں۔ اس کمپنی کی آخری سالانہ ریٹرن 20 فروری 2014 کو متعلقہ محکمے میں جمع کروائی گئی تھی۔ عمران خان نے مارچ 2013 میں اپنے کاغذات نامزدگی میں نہ تو اس کمپنی کا ذکر کیا ہے اور نہ ہی اس میں سرمایہ کاری یا کمپنی کے ملکیتی سرمائے کے حوالے سے کوئی اندراج موجود ہے۔ 1983 میں عمران خان نے لندن میں ایک فلیٹ خریدا۔ برطانیہ کے لینڈ رجسٹری محکمہ میں 3 مئی 1984 کو اس فلیٹ کی خریداری کا اندراج ہوا جوکہ مذکورہ کمپنی کی ملکیت ظاہر کیا گیا۔ یکم جنوری 1990ء کو عمران خان نے اپنی کمپنی کے ڈائریکٹر تبدیل کئے۔ 2003 میں عمران خان نے بے نامی آف شور کمپنی کے نام پر خریدا ہوا فلیٹ فروخت کردیا۔ عمران خان کی آف شور کمپنی اسکے بعد بھی مکمل طور پر فعال رہی اور عمران خان متعلقہ محکمہ جات میں سالانہ ریٹرن جمع کرواتے رہے۔ دستاویزی ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جون 2015 میں رجسٹرار آفس کی طرف سے سالانہ ریٹرن جمع کروانے کا آخری نوٹس دیا گیا۔ عدم تعمیل پر یکم اکتوبر 2015 کو نیازی سروسز لمیٹڈ کو تحلیل کردیا گیا۔ اسی دوران اپریل 1987 میں عمران خان نے پاکستان میں رہائشی پلاٹ کے حصول کیلئے وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک درخواست بھیجی جس میں انہوں نے لکھا کہ انکے پاس نہ تو کوئی گھر ہے اور نہ کہیں پلاٹ ہے۔ اس درخواست کے نتیجے میں عمران خان کو پلاٹ الاٹ کردیا گیا۔ ایک اور انکشاف بتاتا ہے کہ عمران خان نے 2009 میں ضلع جھنگ شہر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر 243 کنال 11 مرلہ اراضی ریکارڈ کے مطابق 18 لاکھ روپے میں خریدی جبکہ خریداری کے وقت اس اراضی کی کم سے کم بازاری قیمت چار لاکھ روپے فی ایکڑ تھی۔ اس حساب سے مذکورہ اراضی کی کل قیمت کم از کم بارہ ملین روپے سے زائد بنتی ہے۔ محکمہ مال کے افسران کا کہنا ہے کہ ٹیکس چوری کیلئے ایسے سودوں کا عام رواج ہے۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ مذکورہ بالا خبریں لیک ہونے کے بعد عمران خان نے خود تسلیم کرلیا کہ انہوں نے ٹیکس بچانے کیلئے آف شور کمپنی بنائی تھی اور یہ کمپنی قانون کے مطابق بنائی گئی تھی۔ آف شور کمپنی بنانے یا اراضی کی قیمت کم دکھانے کے معاملات تو قانونی نوعیت کے ہیں، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے پاس جو قسم بردار بیان حلفی داخل کیا، اس میں ان تمام مالیاتی حقائق کو کیوں چھپایا گیا اور اپنی آف شور کمپنی کے بارے میں پراسرار خاموشی کیوں اختیار کی گئی۔ عمران خان کے ترجمان اس سوالات پر گول مول جوابات دے رہے ہیں۔ …؎
مخالف جب بھی ان پر جھوٹ کا الزام دھرتے ہیں
کبھی آئیں، کبھی بائیں، کبھی شائیں وہ کرتے ہیں
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024