بارہا یہ حقیقت پڑھی اور سنی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا ہے۔ کوئی اچھا کام یا بُرا عمل برسرِ عام کیا جائے یا تحت الثریٰ میں چھپ کر وہ ظاہر ہو جاتا ہے۔ اچھے عمل کی خوشبو چہار دانگ میں پھیل جاتی ہے۔ اور بُرے عمل کی بدبو چھپائی نہیں جا سکتی۔ اس کے باوجود دنیا میں دونوں طرح کے عمل جاری رہتے ہیں۔ انسان کو اللہ نے عقل رسا عطا کی.... تو ساتھ میں اسے کمزور، وسوسوں میں گھرا ہوا۔ حریص اور فسادی بھی بنایا۔ کہ خالق خود اپنی مخلوق کی فطرت سے آشنا ہوتا ہے۔
ہمارے ملک میں آجکل راز افشا کرنے کا دور آیا ہوا ہے....؟
ہر پرانی گتھی کسی نئی گانٹھ سے جڑی نظر آتی ہے....
جب لوگ شاطرانہ چالیں چل رہے ہوتے ہیں۔ تو وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کے ساری حفاظتی اور مدافعاتی تدابیر سامنے رکھ لیتے ہیں۔ بچاﺅ کے سارے طریقے اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ معاملات سے نمٹنے کا امرت دھارا خرید چھوڑتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس قوتِ خرید ہوتی ہے.... مگر وہ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ آسمانوں پر خدا ہے۔ جو نیتوں کا حال بھی جان لیتا ہے۔ اس کا حال بے آواز ہوتا ہے۔ اور اسکی گواہی سورج کی طرح طلوع ہوتی ہے۔
لیکن افسوس! انسان ایک ایس چیز ہے۔ جب کسی مسند پہ ہوتا ہے۔ تو سب سے پہلے اپنی خدائی (نعوذ باللہ) کا اعلان کر دیتا ہے۔
بال برابر نیکی اور ذرہ برابر بدی بھی ظاہر ہو کے رہتی ہے۔ کیونکہ یہ نظام اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ دوسری بات جو ہم نے اکثر ان صفحات پر لکھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان اللہ کی رضا اور تائید سے بنا ہے۔ کوئی ملکی یا غیر ملکی جب اس کا برا چاہے گا اسے برا پیش آئے گا۔
بات میمو گیٹ سے شروع ہوئی تھی۔ اور کہاں آ پہنچی ہے۔ ابھی اس کے اندر اور بہت سے کردار اور حقائق ہیں جنہیں ہر صورت میں سامنے آنا ہے۔ سچ پورے کا پورا اس وقت بھی نہیں بولا جا رہا۔ اس معاملے کے اندر الجھے ہوئے اور پھنسائے گئے کرداروں مں سے سرخرو صرف وہ ہو گا۔ جو خوفِ خدا میں مبتلا ہو کر اعتراف کرے گا.... مگر کون.... مگر کب....؟
اس کا وقت عنقریب آنے والا ہے۔ معاف کرنے والا بھی اللہ ہے۔ اور چھڑوانے والا بھی وہی.... جس وقت ملک میں بے شمار پرائیویٹ چینل کھل گئے تھے۔ لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ یہ کارنامہ بھی مشرف حکومت ہی کا تھا۔ پھر جب بعض پرائیویٹ چینل بے مہار ہوئے تو پیمرا کو تشکیل دئیے جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پیمرا کے لئے اسلام آباد میں ایک عالیشان بلڈنگ تعمیر کی گئی.... کثیر تعداد میں عملہ ہے۔ اور عملے کے پاس وہ ساری سہولیات ہیں۔ جو پاکستان کے اندر بیورو کریسی کو دی جاتی ہیں۔ یہ عملہ بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے رہتا ہے....
اس عملے کا کام ہے کہ ٹیلی ویژن کے سارے پروگراموں، مذاکروں اور اشتہاروں پر نظر رکھے.... اور بھی مختلف چینلز پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے عملے کو انفارمیشن کی سٹینڈنگ کمیٹی میں بلا کر اکثر سرزنش کی گئی۔ مگر یہ عملہ اپنی ہر مراعت پر نظر رکھتا ہے۔ سوائے ٹی وی کے پروگراموں کے.... دن رات انڈین تہذیب میں لت پت پروگرام، ملبوسات، انٹرویو، گفتگو، فیشن شوز، رقص کے پروگرام، جگت بازیاں چلتی رہتی ہیں۔ حتٰی کہ بعض اشتہاروں کی زبان ہماری ثقافت سے میل نہیں کھاتی کمیٹی کے ارکان ان کی توجہ اس طرف مبذول کرواتے ہیں۔ مگر وہ معصوم شکل بنا کر چھوٹ جاتے ہیں۔ اس لئے جب چیف جسٹس نے پیمرا کے سربراہ سے ایک فلم کے بارے میں سوال کیا۔ تو وہ جواب دہی نہ دے سکے۔ یہی حال ان کا کمیٹی کے اندر ہوتا ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ نوٹس بھجوا دیا تھا۔ جرمانہ لگا دیا تھا.... مگر نہ نوٹس کا اثر ہوا۔ نہ جرمانہ ادا کرنے کی سبیل کی گئی۔
انکشافات کا دور شروع ہو چکا ہے۔ اس نے کہیں بھی رکنا نہیں۔ بات میں سے بات نکلتی آئے گی۔ ٹی وی کے بہت سے اینکرز کے بارے میں بھی انکشافات ہو رہے ہیں.... کیا کرپشن صرف سیاستدان کے لئے معیوب ہے۔ باقی شعبہ جات کے لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہیں۔ بلکہ بہتی گنگا میں وضو کر کے اپنی نماز ادا کرتے رہیں۔
اگر آئین کی شق 62/61 سیاست دانوں پر لاگو ہوتی ہے۔ تو اینکرز پر بھی لاگو ہونی چاہئے.... سیاست دانوں کے گریبانوں کو ادھیڑنے والوں کے اپنے ہاتھ بھی صاف ہونے چاہئیں۔ وہ سیاسی شخصیت ہو، صحافتی شخصیت ہو یا میڈیا کی کوئی شخصیت جب لکشمی دیوی ان کے پاﺅں چومنے لگتی ہے۔ تو ان کی گفتگو تکبرانہ اور انداز اخلاق سے عاری ہو جاتی ہے۔ ہ دوسروں کو ذلیل و رسوا کرنے کا فنکارانہ انداز اپنا لیتے ہیں۔ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو محض کیڑا مکوڑا سمجھتے ہیں۔ یہ ظرف صرف سیاست دانوں میں ہے کہ اپنے بارے میں گالی بھی سن لیتے ہیں۔ ہتک آمیز گفتگو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ اور الزام تراشی پر سیخ پا بھی نہیں ہوتے۔ ایسی باتیں آپ کسی اور شعبے کے آدمی سے کہہ کے دیکھیں۔ وہ اپنی ساری برادری کو آپ کے خلاف صف آرا کر لے گا۔ اور آپ اس کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکیں گے۔
وہ لوگ جو سارا دن ٹیلی ویژن کے ذریعے دولت مندوں کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ سیاست دانوں کی کمزوریاں اور کوتاہیاں نشر کرتے نہیں تھکتے۔ اور ملک میں ہر طرف انہیں برائی ہی برائی نظر آتی ہے.... ان کا اپنا مطمع نظر دولت کیوں ہے۔ انہوں نے دولت کو میزان کیوں بنا رکھا ہے۔ وہ خود بھی ایک شاہانہ زندگی بسر کرنے کے رسیا کیوں ہو چکے ہیں۔
جس طرح الیکشن کمشن ایم این ایز اور ایم پی ایز کے اثاثے طلب کرتا اور نشر کرتا ہے۔ اسی طرح لو انکم ٹیکس کا محکمہ بیورو کریٹس، جرنلسٹ، جنرل، ججز اور اینکرز کے اثاثے طلب کرے اور انہیں نشر کرے.... اخلاقیات صرف سیاست دانوں پرکیوں لاگو ہوتی ہے.... اخلاقیات تو پاکستان کے ہر فرد و بشر پر لاگو ہونی چاہئے۔ جس طرح قانون سب کے لئے ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس کی ادائیگی اور اثاثوں کی فراہمی سب کے لئے لازمی ہو۔ جن سیاسی لوگوں کے پاس دوہری شہریت تھی۔ ان کو ڈی سیٹ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین اور اینکرز کی بھی جانچ پڑتال کی جائے۔ دوہری شہریت رکھنے والا کوئی شخص بھی پاکستان کے اندر کسی اعلیٰ منصب کا حقدار نہیں ہوتا۔ ہزاروں باتیں ہیں.... جن پر توجہ دینے کا وقت آ گیا ہے....
ملک ریاض تو محض ایک مہرہ ہے۔ اس بساط پر اسپ، فیل، بادشاہ، ملکہ، جوکر اور بہت سے پیادے بھی ہیں۔ کھیل اب شروع ہوا ہے
اس دورِ جوہری میں ہے کھٹکا مجھے لگا ہوا
اسرارِ کائنات سے پردہ کوئی اٹھا نہ دے؟
ہمارے ملک میں آجکل راز افشا کرنے کا دور آیا ہوا ہے....؟
ہر پرانی گتھی کسی نئی گانٹھ سے جڑی نظر آتی ہے....
جب لوگ شاطرانہ چالیں چل رہے ہوتے ہیں۔ تو وہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھ کے ساری حفاظتی اور مدافعاتی تدابیر سامنے رکھ لیتے ہیں۔ بچاﺅ کے سارے طریقے اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں۔ معاملات سے نمٹنے کا امرت دھارا خرید چھوڑتے ہیں۔ کیونکہ ان کے پاس قوتِ خرید ہوتی ہے.... مگر وہ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ آسمانوں پر خدا ہے۔ جو نیتوں کا حال بھی جان لیتا ہے۔ اس کا حال بے آواز ہوتا ہے۔ اور اسکی گواہی سورج کی طرح طلوع ہوتی ہے۔
لیکن افسوس! انسان ایک ایس چیز ہے۔ جب کسی مسند پہ ہوتا ہے۔ تو سب سے پہلے اپنی خدائی (نعوذ باللہ) کا اعلان کر دیتا ہے۔
بال برابر نیکی اور ذرہ برابر بدی بھی ظاہر ہو کے رہتی ہے۔ کیونکہ یہ نظام اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ دوسری بات جو ہم نے اکثر ان صفحات پر لکھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان اللہ کی رضا اور تائید سے بنا ہے۔ کوئی ملکی یا غیر ملکی جب اس کا برا چاہے گا اسے برا پیش آئے گا۔
بات میمو گیٹ سے شروع ہوئی تھی۔ اور کہاں آ پہنچی ہے۔ ابھی اس کے اندر اور بہت سے کردار اور حقائق ہیں جنہیں ہر صورت میں سامنے آنا ہے۔ سچ پورے کا پورا اس وقت بھی نہیں بولا جا رہا۔ اس معاملے کے اندر الجھے ہوئے اور پھنسائے گئے کرداروں مں سے سرخرو صرف وہ ہو گا۔ جو خوفِ خدا میں مبتلا ہو کر اعتراف کرے گا.... مگر کون.... مگر کب....؟
اس کا وقت عنقریب آنے والا ہے۔ معاف کرنے والا بھی اللہ ہے۔ اور چھڑوانے والا بھی وہی.... جس وقت ملک میں بے شمار پرائیویٹ چینل کھل گئے تھے۔ لوگوں نے خوشی کا اظہار کیا تھا۔ یہ کارنامہ بھی مشرف حکومت ہی کا تھا۔ پھر جب بعض پرائیویٹ چینل بے مہار ہوئے تو پیمرا کو تشکیل دئیے جانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ پیمرا کے لئے اسلام آباد میں ایک عالیشان بلڈنگ تعمیر کی گئی.... کثیر تعداد میں عملہ ہے۔ اور عملے کے پاس وہ ساری سہولیات ہیں۔ جو پاکستان کے اندر بیورو کریسی کو دی جاتی ہیں۔ یہ عملہ بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے رہتا ہے....
اس عملے کا کام ہے کہ ٹیلی ویژن کے سارے پروگراموں، مذاکروں اور اشتہاروں پر نظر رکھے.... اور بھی مختلف چینلز پر جو کچھ پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے عملے کو انفارمیشن کی سٹینڈنگ کمیٹی میں بلا کر اکثر سرزنش کی گئی۔ مگر یہ عملہ اپنی ہر مراعت پر نظر رکھتا ہے۔ سوائے ٹی وی کے پروگراموں کے.... دن رات انڈین تہذیب میں لت پت پروگرام، ملبوسات، انٹرویو، گفتگو، فیشن شوز، رقص کے پروگرام، جگت بازیاں چلتی رہتی ہیں۔ حتٰی کہ بعض اشتہاروں کی زبان ہماری ثقافت سے میل نہیں کھاتی کمیٹی کے ارکان ان کی توجہ اس طرف مبذول کرواتے ہیں۔ مگر وہ معصوم شکل بنا کر چھوٹ جاتے ہیں۔ اس لئے جب چیف جسٹس نے پیمرا کے سربراہ سے ایک فلم کے بارے میں سوال کیا۔ تو وہ جواب دہی نہ دے سکے۔ یہی حال ان کا کمیٹی کے اندر ہوتا ہے۔ یہ بھی کہتے ہیں کہ نوٹس بھجوا دیا تھا۔ جرمانہ لگا دیا تھا.... مگر نہ نوٹس کا اثر ہوا۔ نہ جرمانہ ادا کرنے کی سبیل کی گئی۔
انکشافات کا دور شروع ہو چکا ہے۔ اس نے کہیں بھی رکنا نہیں۔ بات میں سے بات نکلتی آئے گی۔ ٹی وی کے بہت سے اینکرز کے بارے میں بھی انکشافات ہو رہے ہیں.... کیا کرپشن صرف سیاستدان کے لئے معیوب ہے۔ باقی شعبہ جات کے لوگ بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہیں۔ بلکہ بہتی گنگا میں وضو کر کے اپنی نماز ادا کرتے رہیں۔
اگر آئین کی شق 62/61 سیاست دانوں پر لاگو ہوتی ہے۔ تو اینکرز پر بھی لاگو ہونی چاہئے.... سیاست دانوں کے گریبانوں کو ادھیڑنے والوں کے اپنے ہاتھ بھی صاف ہونے چاہئیں۔ وہ سیاسی شخصیت ہو، صحافتی شخصیت ہو یا میڈیا کی کوئی شخصیت جب لکشمی دیوی ان کے پاﺅں چومنے لگتی ہے۔ تو ان کی گفتگو تکبرانہ اور انداز اخلاق سے عاری ہو جاتی ہے۔ ہ دوسروں کو ذلیل و رسوا کرنے کا فنکارانہ انداز اپنا لیتے ہیں۔ اپنے سامنے بیٹھے ہوئے شخص کو محض کیڑا مکوڑا سمجھتے ہیں۔ یہ ظرف صرف سیاست دانوں میں ہے کہ اپنے بارے میں گالی بھی سن لیتے ہیں۔ ہتک آمیز گفتگو بھی برداشت کر لیتے ہیں۔ اور الزام تراشی پر سیخ پا بھی نہیں ہوتے۔ ایسی باتیں آپ کسی اور شعبے کے آدمی سے کہہ کے دیکھیں۔ وہ اپنی ساری برادری کو آپ کے خلاف صف آرا کر لے گا۔ اور آپ اس کا کچھ بگاڑ بھی نہیں سکیں گے۔
وہ لوگ جو سارا دن ٹیلی ویژن کے ذریعے دولت مندوں کو برا بھلا کہتے نہیں تھکتے۔ سیاست دانوں کی کمزوریاں اور کوتاہیاں نشر کرتے نہیں تھکتے۔ اور ملک میں ہر طرف انہیں برائی ہی برائی نظر آتی ہے.... ان کا اپنا مطمع نظر دولت کیوں ہے۔ انہوں نے دولت کو میزان کیوں بنا رکھا ہے۔ وہ خود بھی ایک شاہانہ زندگی بسر کرنے کے رسیا کیوں ہو چکے ہیں۔
جس طرح الیکشن کمشن ایم این ایز اور ایم پی ایز کے اثاثے طلب کرتا اور نشر کرتا ہے۔ اسی طرح لو انکم ٹیکس کا محکمہ بیورو کریٹس، جرنلسٹ، جنرل، ججز اور اینکرز کے اثاثے طلب کرے اور انہیں نشر کرے.... اخلاقیات صرف سیاست دانوں پرکیوں لاگو ہوتی ہے.... اخلاقیات تو پاکستان کے ہر فرد و بشر پر لاگو ہونی چاہئے۔ جس طرح قانون سب کے لئے ہوتا ہے۔ اسی طرح ٹیکس کی ادائیگی اور اثاثوں کی فراہمی سب کے لئے لازمی ہو۔ جن سیاسی لوگوں کے پاس دوہری شہریت تھی۔ ان کو ڈی سیٹ کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح سرکاری ملازمین اور اینکرز کی بھی جانچ پڑتال کی جائے۔ دوہری شہریت رکھنے والا کوئی شخص بھی پاکستان کے اندر کسی اعلیٰ منصب کا حقدار نہیں ہوتا۔ ہزاروں باتیں ہیں.... جن پر توجہ دینے کا وقت آ گیا ہے....
ملک ریاض تو محض ایک مہرہ ہے۔ اس بساط پر اسپ، فیل، بادشاہ، ملکہ، جوکر اور بہت سے پیادے بھی ہیں۔ کھیل اب شروع ہوا ہے
اس دورِ جوہری میں ہے کھٹکا مجھے لگا ہوا
اسرارِ کائنات سے پردہ کوئی اٹھا نہ دے؟