یثرب سے مدینہ
مدینہ منورہ جس کا قدیم نام یثرب تھا ۔اسے غالب روایات کیمطابق اسے حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے قوم عالقہ نے سب سے پہلے آبادکیا، پھر یہود کی آمد ہوئی، وہ صدیوں تک اسی علاقہ پر قابض رہے اہل کتا ب ہونے کی وجہ سے لوگ انکے علم وفضل کو بھی تسلیم کرتے تھے۔ جب وہاں کے حالات خراب ہوئے تو ان جد اعلیٰ عمر و بن عامر نے وہاں سے نقل مکانی کا فیصلہ کیا۔ اوس اور خزرج سگے بھائی تھے۔ انکے والد کا نام حارثہ بن ثعلبہ بن عمر و بن عامر تھا۔ ’’یمن میں آباد تمام قبائل کا جد اعلیٰ ’’قحطان‘‘تھا۔علماء لغت وتاریخ کی رائے یہ ہے کہ سب سے پہلے جس نے عربی زبان میں گفتگو کی وہ یہی قحطان تھا۔ اسکی اولاد کو العرب المتعرِبہ کہاجاتا ہے۔ یعنی وہ لوگ جن کی مادری زبان عربی تھی۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کو ’’العرب المستعرِبہ ‘‘ کہاجاتا ہے۔ کیونکہ انکی زبان عربی نہیں تھی۔ انہوں نے بنو جرھم سے یہ زبان سیکھی ۔ عربوں کی ایک تیسری قسم ہے ۔جنہیں ’’العرب العاربہ‘‘کہاجاتا ہے۔ اس سے مراد عاد، ثمود ، طسم ،جدیس، عملیق وغیر ہ ،قبائل میں جن کی نسلیں منقطع ہوچکی ہیں۔لیکن علم انساب کے کچھ ماہرین کی یہ رائے بھی ہے کہ ’’قحطان‘‘ بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد سے ہیں۔ اوس اور خزرج کی زیادہ تر اولاد یثرب اور اسکے مضا فات میں آباد ہوئی ۔ رفتہ رفتہ انکی تعدادمیں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ انکی بڑھتی ہوئی تعداد سے خائف ہوکر یہود نے معاہدہ توڑ دیا۔ خوف اور بے یقینی کے اس فضاء میں بنو قحطان میں ایک نامور فرزند مالک بن عجلان پیدا ہوا۔اس نے اپنی بکھری ہوئی قوم کی شیرازہ بندی کی ،دونوں قبیلوں نے اسے اپنا سردار تسلیم کر لیا،اور جلد ہی اوس وخزرج یہودیوں سے زیادہ طاقت ور ہوگئے۔ یہودیوں نے سازش کے روایتی ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کیے۔ دونوں قبائل کے درمیان نفرت کے بیج بونے شروع کردیے،اور کچھ ہی دیر بعد اوس اورخزرج میں دشمنی شروع ہوگئی جو پہلی صدی عیسوی سے چھٹی صد ی عیسوی تک جا ری رہی۔ واقعہ ہجرت سے چار پانچ سال پہلے اوس وخزرج میں ایک لرزہ خیز خونی جنگ ہوئی جسے جنگ بغاث کہا جاتا ہے۔ بہت نقصان اٹھا نے کے بعد دونوں قبائل کو احساس ہوا کہ صلح ہونی چاہیے، اور کسی ایک شخص کی سربراہی پر متفق ہونا چاہیے۔ دو افراد کے نام سامنے آئے ۔عبداللہ بن ابی اور ابو عامر راہب۔ عبداللہ بن ابی کے نام پر اتفاق ہوگیا۔ اس تاج پوشی کی تیاری ہو ہی رہی تھی کہ ’’یثرب ‘‘کا نصیبہ جاگ اٹھا اور ان کا رابطہ حضور رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوگیااور یثرب جلدہی ’’مدینۃ النبی‘‘بن گیا۔