یہ ایک نادر خیال تھا ایک نرالا خواب، مگر اس کی تعبیر انتہائی خوشگوار اور د ل نواز تھی۔
وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز کے والد ایک نامور اور بزرگ شخصیت تھے۔ ان کے حوالے سے منسٹر صاحب کو میڈیا کے بزرگ اور نامور اصحاب یاد آئے۔ انہوںنے سوچا کہ کیوں نہ یوم آزادی پر ایک ایسی محفل برپا کی جائے جس میں میڈیا کے سینئر اصحاب کو مدعوکیا جائے۔ اس پروگرام کی ترتیب اور تکمیل کے لئے وقت تھوڑا تھا مگر پی آئی او شاہیرہ شاہد نے کمر کس لی ْ۔ایک چوکس افسر عبد الرشید شاکرکو آرڈی نیٹر مقر رہوئے کہ وہ رابطے کریں اور شفقت عباس، ، شاہدرانجھا اور نازیہ جبیںصاحبہ بھی متحرک ہوئے اور یوں چودہ اگست کو جب پورے ملک میں شادیانے گونج رہے تھے۔ ہر سو پاکستان کے پرچموں کی بہار تھی۔وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں بلکہ شہر شہر محفلیں برپا تھیں تو سہ پہر کو اچانک وزیر اطلاعات اور سینیئر میڈیا پرسنز کی ایک ملاقات کااحوال براہ راست نشر ہونے لگا۔ شرکاء کی تعداد گو محدود تھی مگر ہر ایک کے جذبے جوان تھے اور چہرے تمتما رہے تھے۔
کرونا کی مارا ماری کی ابتلا نہ ہوتی تو یہ محفل بڑے سے بڑے ہال میں بھی نہیں سما سکتی تھی۔ وزارت اطلاعات ملک بھر سے صحافیوںکو جس محبت سے مدعو کرتی رہی ہے تو صحافی بھی کھنچے چلے آتے ہیں اور پھر قہقہے گونجتے ہیں ۔ ہر کوئی اپنے شناسا چہرے کی تلاش میں ہوتا ہے۔ وزارت کی تقاریب تو کامیاب ہوتی ہی ہیں مگر ملک بھر کے میڈیا پرسنز کے مابین یک جہتی کے شگوفے بہار دکھاتے ہیں۔
جمعہ کے روز وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز اور سیکرٹری اطلاعات اکبر حسین درانی اس محفل کی میزبانی کے لئے موجود تھے مگر ایک عجوبہ دیکھنے میں آیا کہ کسی نے کوئی سیاسی سوال نہیں کیا۔اپنا کوئی مطالبہ پیش نہیں کیا ۔ کوئی گلہ شکوہ سننے میں نہیں آیا۔ کسی نے نہیں کہا کہ ہم کس کا گریابن پکڑیں، کسی نے مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا نہیں رویا ، کوئی نعرے بازی نہیں کی گئی۔ بلیم گیم کاشور بلند نہیں ہوا ، وزیر اطلاعات نے بزرگ میڈیا پر سنز کی خدمات کو سراہا اور انہیں معاشرے کا سرمایہ افتخار قرار دیا اور سیکرٹری اطلاعات کے دل سے ایک آواز اٹھی کہ وہ جن ہستیوں کا نام سنا کرتے تھے اور جن کے کردار کو مشعل راہ سمجھتے تھے اور جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں تھیں ۔ ان کی کہکشاں کا ایک ٹکرا ہمارے درمیان موجود ہے اور ان کی دید سے ہماری آنکھیں خیرہ ہو ہو جاتی ہیں۔یہ ایک خاموش محفل تھی مگر اس کی خاموشیوںمیں ماضی کا شکوہ موجود تھا۔ لیلیٰ زبیری، کنور نصیر اور خواجہ نجم الحسن میڈیا کے تابناک ستارے ہیں مگر نئی نسل ان کو بھولتی جا رہی ہے۔ اور میرے بھائی امجد اسلام امجد کے لکھے ہوئے وارث ڈرامہ جس نے امرتسر کی گلیوں کو سنسان کر دیا تھا اس کا ایک کردار بھی اس محفل میں دمک رہا تھا۔ مدعو تو امجد بھائی کو بھی کیا گیا تھا مگر انہوںنے مجھے بتایا کہ یوم آزادی کے حوالے سے ان کے کچھ طے شدہ پروگرام تھے جن کی وجہ سے وہ اسلام ا ٓباد نہیں جا سکے جبکہ میزبانوںنے فضائی ٹکٹ اور فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام کی پیش کش بھی کی تھی۔
محفل تو پھر بھی یادگار تھی اس لحاظ سے کہ بقول سیکرٹری اطلاعات یہ ایک آغاز ہے۔ ایسی چھوٹی چھوٹی مگر بھاری بھرکم محفلیں یوم دفاع،یوم پاکستان، یوم قائد اعظم اور یوم اقبال کے موقع پر برپا کی جاتی رہیں گی اور بزرگ میڈیا پرسنز کو باور کرایا جائے گا کہ اس معاشرے نے انہیں فراموش نہیں کیا ۔ وہ انہیں سرا آنکھوں پہ بٹھاتا ہے۔ اور وہ آج بھی دل و دماغ کو روشنیوں سے جل تھل کر دیتے ہیں۔
ایک زمانے میں حکمرانوں کو بڑی محفلیں پسند تھیں ۔ بجٹ کے موقع پر تو ایک ہجوم ہو جاتا اور سوال جواب کی باری آتی تو دور دراز کے صحافیوں کے بولنے کی کم ہی باری آتی، اس لئے کہ دارالحکومت کے صحافی ایک دم اٹھ کر سوال داغ دیتے، نذیر ناجی نے ان کانام غوری ون اور غوری ٹو رکھ دیا ۔
مختصر محفل کاا پنا ہی مزہ ہے۔ شبلی فراز کے والد محترم احمد فراز روزانہ ہالی ڈے ان میں محفل جماتے، بس تین چار احباب کے ساتھ۔کیا ہی اچھا ہو کہ اکیلے وزیر اطلاعات صوبائی دارالحکومتوں کے چکر لگا لیا کریں۔ اور میڈیا کی ٹولیوں سے ملاقات کریں۔ ہم بزرگ صحافی عمر کے ایسے حصے میں ہیں جہاںہمیں کسی تمغے، کسی شیلڈ اور کسی انعام کی کوئی خواہش نہیں،جو خواہشیں ستر اسی برسوں میں پوری نہیں ہو سکیں وہ اب کیا پوری ہوں گی، اس لئے یہ کافی ہے کہ عزت ملے اورشبلی فراز نے بزرگ میڈیا پرسنز کو عزت اور وقار دینے کی رسم خود شروع کی ہے ۔ اب اسے جاری رکھیں اور اسی انداز اور اسی ماحول میں ملا کریں ۔ اس سے فاصلے مٹتے ہیں اور قربتیں بڑھتی ہیں ،وزیر اطلاعات نے مون سون کے موسم میں عزت و تکریم کی موسلا دھار بارش کر دی ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ خود انہوںنے بھی اس محفل میں آسودگی اور راحت محسو س کی ہو گی۔
تقریب میں وزیر اطلاعات سینیٹر شبلی فراز نے اپنے ہاتھوں سے خواجہ نجم الحسن، لیلیٰ زبیری ، ضیا الرحمن کشمیری، نثار احمد شاکر،کنول نصیر ،ایوب کھوسو، تاج بلیدی،رابعہ تبسم، سجاد کشور، رئیس احمد، جاوید احمد کو ایوارڈز عطا کیے اور ایک ایک لاکھ روپے کے کیش انعام سے بھی نوازا ۔پی ٹی وی ، ریڈیو اور صحافت کے سینیئرز اور لیجنڈز کے اعزاز میں موجودہ حکومت کی طرف سے یہ پہلی اور منفرد اور ہر لحاظ سے کامیاب تقریب تھی ۔ اے پی پی کے ایم ڈی طارق محمود اورریڈیو پاکستان کی ڈی جی عنبرین جان نے بھی اس باوقار تقریب کو رونق بخشی۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024