بلوچستان میں ستر دنوں کے اندر تقریباً ساٹھ دہشت گردی کی وارداتیں ہو چکی ہیں پاکستان کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے بلوچستان میں حالیہ دہشت گردی کی تین واقعات کا ازخود نوٹس لے لیا ہے اور ازخود نوٹس کی سماعت 15 اگست کو ہو گی بلوچستان میں عید پر بھی دہشت گردی کے واقعات ہوئے اور پندرہ افراد جاں بحق ہو گئے۔ گذشتہ منگل کو بلوچستان میں چودہ افراد کو بسوں سے اتار کر فائرنگ سے ہلاک کرنے کا واقعہ اپنی سنگینی اور سفاکی کے لحاظ سے نفاذ قانون کے ذمہ دار اداروں کے فوری اور سخت اقدامات کا متقاضی ہے۔ یہ پاکستان کی وحدت اور سالمیت پر حملہ ہے یہ حملہ کئی لحاظ سے قابل توجہ اور متعلقہ حکام کی گرفت کا باعث بننا چاہئے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حملوں کی پیشگی اطلاعات موجود تھیں‘ لیکن پیشگی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں۔ حالیہ واقعہ کی ذمہ داری بھی حسب سابق بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کر لی ہے۔ تنظیم کے ترجمان نے برطانوی نشریاتی ادارے کو خود فون کرکے بتایا کہ بسوں سے مسافروں کو اتارکر اغوا کیا گیا جن میں سے دس کو بلوچ لیویز ہونے کی بنا پر چھوڑ دیا گیا اور چودہ کو شاخت کے بعد پنجابی قرار دے کر قتل کر دیا گیا۔ گویا ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ پنجابی تھے اور عید کی چھٹیاں منانے کےلئے اپنے آبائی علاقوں کی طرف جا رہے تھے۔ یہ امر بھی تصدیق طلب ہے کہ دہشت گردوں کو پولیس‘ رینجرز اور دیگر سکیورٹی اہلکاروں کی وردیاں کیسے اور کہاں سے باآسانی دستیاب ہو جاتی ہیں کہ وہ ان کے بھیس میں لوگوں کو نشانہ بناتے پھریں اور اپنے ہی لوگوں کو اغوا کرکے ان کے لاپتہ ہونے کا الزام بھی افواج پاکستان پر عائد کر دیں یہ پاکستان کے تحفظ و سلامتی پر براہ راست حملے ہیں جن کے روکنے کے انتظامات کہیں نظر نہیں آتے۔ بلوچستان میں غیر بلوچوں یعنی پنجابیوں کے قتل کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے قاتلوں نے تعصب کی آگ میں جلتے ہوئے نہ محنت کشوں کو چھوڑا نہ ان اساتذہ کو جو بلوچوں کی نئی نسل میں علم بانٹ رہے تھے گذشتہ دو برسوں میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے چالیس اساتذہ کو قتل کیا جا چکا ہے بلوچستان میں پنجابیوں کو قتل کرنے اور انہیں وہاں سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ وہی تخریب کار ہیں جو بلوچستان کی آزادی کی تحریک چلا رہے ہیں اور انہوں نے بلوچ لبریشن آرمی بنا رکھی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ان تخریب کاروں کو بیرونی قوتوں کی پشت پناہی اور ہر طرح کا تعاون حاصل ہے۔ اس ضمن میں خاص طور پر بھارت کا نام لیا جاتا ہے جو بلوچستان میں عدم استحکام دیکھنا چاہتا ہے اور اس کےلئے روز اول سے کام کر رہا ہے۔ بھارت پاکستان پر کئی جنگیں مسلط کر چکا ہے۔ اس کی دشمنی 1971ءمیں تو کھل کر سامنے آچکی ہے۔ جب اس نے مشرقی پاکستان کے قوم پرستوں کو تریبت اور اسلحہ دے کر پاک فوج سے لڑایا اور پھر مشرقی پاکستان پر فوجی چڑھائی کر دی۔ جس سے یہ ثابت ہوا کہ بھارت پاکستان کو توڑنا چاہتا تھا اور اس کےلئے اسے مشرقی حصے میں غدار بھی مل گئے۔ اس کامیابی کے بعد اب وہ بلوچستان میں بھی وہی طریقے آزما رہا ہے اور یہاں بھی اسے غداران وطن مل گئے ہیں۔ بھارت بلوچستان میں حالات خراب کرنے اور مٹھی بھر بلوچ علیحدگی پسندوں کو پاکستان کے خلاف جس طرح استعمال کر رہا ہے اسے بھی سمجھنا کوئی راکٹ سائنس نہیں لیکن حیرت ناک امر یہ ہے کہ پاکستان کے پاس بھارت کے خلاف اس ضمن میں مکمل ثبوت موجود ہیں کہ بھارتی انٹیلی جنس را کس طرح بلوچستان کے حالات کو خراب کر رہی ہے اور کس طرح پاکستان مخالف لوگوں کو اسلحہ اور پیسہ فراہم کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود نہ تو اس ضمن میں بھارت سے بات چیت کی جا رہی ہے اور نہ ہی ان ثبوتوں کو عالمی برادری اور اقوام متحدہ کو پیش کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اپنی قومی سلامتی کے حساس معاملات سے اس قدر لاتعلق ہو چکے ہیں کہ جانتے بوجھتے حساس معاملات کو نظرانداز کر رہے ہیں اور ثبوتوں کے باوجود ہمارے منہ پر تالے پڑے ہوئے ہیں جبکہ بھارت جھوٹے ثبوت اور جھوٹے الزامات کی بنیاد پر پاکستان کو عالمی برادری میں بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس کی یہ سر توڑ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کردیا۔
ہماری نواز شریف صاحب سے گزارش ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے ضمن میں پاکستان اور بھارت کے درمیان زمینی حقائق کو اور پاکستان سے متعلق بھارتی منفی رویے کو مدنظر رکھیں اور بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف اشتعال انگیز کارروائیوں کو بھی نظرانداز نہیںکرنا ہو گا اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حکومت کو دہشت گردی وراثت میں ملی ہے وفافی وزیر داخلہ چودھری نثار کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہماری نہیں تھی مسلط کی گئی 13 سال کا گند صاف کرنے میں وقت لگے گا لیکن انتخابی مہم کے دوران تو مسلم لیگ کے رہنما یہ دعوے کرتے رہے کہ ہم آتے ہی دہشت گردی ختم کر دیں گے۔ تحریک انصاف کے مرکزی رہنما و سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات افغان جنگ کا نتیجہ ہے ہمیں نہ چاہتے ہوئے بھی دہشت گردی کی جنگ کا حصہ بننا پڑا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاءکے اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ سال 2014ءپاکستان سمیت اس پورے خطے کےلئے نہایت اہم ہے 2014ءتک پاکستان میں دہشت گردی ختم ہوتی نظر نہیں آتی جنرل ریٹائرڈ اسلم بیگ نے ایک بڑا حیران کن اور چونکا دینے والا بیان دیا ہے ان کے اس بیان کی عوامی اور سیاسی حلقوں میں بڑا چرچا ہے ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں وہی کھیل کھیلا جا رہا ہے جو مصر میں کھیلا گیا کہ ایک منتخب حکومت برطرف کر کے فوجی حکومت کو لایا گیا جو امریکہ اور اسرائیل کی ہمنوا ہے پاکستان میں نواز حکومت کےلئے بھی ایسے ہی حالات پیدا کئے جا رہے ہیں کہ یہ لوگ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ نواز شریف حکومت ناکام ہو گئی ہے اور اس کی جگہ خاکی فرشتوں کو آنا چاہئے خاکی فرشتوں کے آنے سے ہمیشہ جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے انہیں اب نہیں آنا چاہئے ہمارا وزیراعظم میاں نواز شریف کو مشورہ ہے کہ وہ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچانے کےلئے ضروری اقدامات کریں اور ان عوامل کو ختم کریں جن کی بنا پر ملک میں دہشت گردی ہو رہی ہے اگر انہوں نے دہشت گردی لوڈشیدنگ غربت مہنگائی اور بے روزگاری کو ختم نہ کیا ان کی حکومت کا چل چلاو¿ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ رات کو شیخ رشید احمد نے ایک ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں جہاں تک کہہ دیا ہے کہ موجودہ حکومت نے ستر دنوں کے اندر عوام کےلئے کچھ بھی نہیں کیا اور اگر آئندہ بھی اس حکومت نے عوام کےلئے کچھ نہ کیا تو پھر ملک میں ہر صورت انقلاب آکر ہی رہے گا۔ .......خدا خیر کرے
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024