امریکہ کو خطے میں امن کیخلاف بھارت افغانستان گٹھ جوڑ توڑنا ہو گا
افغان سرحد پار سے فائرنگ، باڑ لگاتے 3 اور شمالی وزیرستان میں دہشتگردی کے دوران 2 فوجی شہید
پاکستان کی مغربی سرحد پر دہشت گردوں کے دو حملوں میں فائرنگ سے پاک فوج کے 4 جوان شہید اور ایک شدید زخمی ہو گیا جبکہ جوابی کارروائی میں دو دہشت گرد بھی مارے گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق شمالی وزیرستان میں گزشتہ رات سپن وام کے علاقے اباخیل میں سکیورٹی فورسز معمول کے گشت پر تھیں کہ دہشت گردوں نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں ضلع بلتستان کے رہائشی 23 سالہ سپاہی اختر حسین نے جام شہادت نوش کیا۔ اس موقع پر پاک فوج کے جوانوں نے بھی بھرپور جوابی کارروائی کی جس کے نتیجے میں دو دہشت گرد مارے گئے۔ ادھر دیر میں پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کے کام میں مصروف پاک فوج کے جوانوں پر دہشت گردوں نے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں 3 اہلکار شہید اور ایک شدید زخمی ہو گیا۔ شہادت کے مرتبے پر فائز ہونے والوں میں ضلع خیبر کے رہائشی 28 سالہ لانس نائیک سید امین آفریدی‘ مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے 31 سالہ لانس نائیک محمد شعیب سواتی اور نوشہرہ کے رہائشی 22 سالہ سپاہی کاشف علی شامل ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق افغان ناظم الامور کی دفتر خارجہ میں طلبی کی گئی ہے اور پاک افغان سرحد پر فائرنگ کے واقعہ پر شدید احتجاج کیا گیا۔ افغان ناظم الامور کو آہنی باڑ لگانے میں مصروف فوجی دستے پر فائرنگ پر احتجاجی مراسلہ دیا گیا۔
رواں سال 21 جون کو بھوربن میں افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے ایک وسیع الطبقاتی کانفرنس ہوئی جس میں افغانستان کی 18 سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی۔ ان جماعتوں کے علاوہ دیگر گروپس کے 45 مندوبین اور نمائندہ وفود بھی شریک ہوئے۔ کانفرنس میں سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار حزب اسلامی کی خود نمائندگی کر رہے تھے۔ اس کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کے سیاسی مشیر، سینیٹرز اور افغان پارلیمنٹ کے ارکان نے شمولیت کی۔ کانفرنس سے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس کا مرکزی نکتہ پاکستان اور افغانستان کا اپنی اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے پر پُرعزم اتفاق تھا۔ اس کے چند روز بعد افغان صدر اشرف غنی پاکستان کے دورے پر آئے تو انہوں نے بھی افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کا یقین دلایا۔ افغان انتظامیہ ایسی یقین دہانی پہلے بھی متعدد بار کرا چکی تھی اور اب بھی اس کی طرف سے ایسے ہی بیانات دیئے جاتے ہیں۔ ان بیانات کو منافقت کا شاہکار ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کبھی مداخلت رکی نہیں ہے۔ بھارت ہمیشہ سے پاکستان میں دہشت گردی کیلئے افغان سرزمین استعمال کرتا آ رہا ہے۔ افغان حکمرانوں نے طالبان کے مختصر دور کے علاوہ کو بھارت کا طفیلی اور کٹھ پتلی ہی ثابت کیا ہے۔ ظاہر شاہ سے لے کر امریکی کٹھ پتلی حامد کرزئی اور اب اشرف غنی کے صدر بننے کے بعد افغانستان کی طرف سے نہ صرف پاکستان کی طرف کبھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا نہیں گیا بلکہ پاکستان کی طرف سے دوستی کی خواہش پر بھی کبھی گرم جوشی نہیں دکھائی گئی۔ افغان حکمرانوں نے بھارت کے ساتھ ذاتی مفادات وابستہ رہے ہیں جس کے گہرے اثرات افغانستان کی سیاست اور پاکستان افغانستان تعلقات پر بھی مرتب ہوتے رہے ہیں۔
نائن الیون کے بعد امریکہ کی افغانستان پر یلغار میں پاکستان نے اپنی استعداد سے بڑھ کر امریکہ کا ساتھ دیا جس کے پاکستان کے دہشت گردی میں زد میں آنے سمیت بدترین اثرات مرتب ہوئے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی سمیت لاکھوں افغان روس کے افغانستان پر قبضے کے دوران پاکستان چلے آئے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کو اقتدار میں لایا گیا تو امید پیدا ہوئی تھی کہ پاکستان کے یہ نمک خوار پاک افغان تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے میں کردار ادا کریں گے مگر ان دونوں کو بھی بھارت کو چوکھٹ ہی پسند آئی۔ ان کی موجودگی میں بھارت اب تک افغانستان میں پاکستان کے خلاف کھل کر کھیل رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو ان ممالک سے بھی زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا جو براہ راست اس جنگ فریق ہیں جبکہ مالی نقصان 120 ارب ڈالر ہوا۔ بھارت کیلئے ہمیشہ سے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت رہا ہے۔ اس نے افغانستان کے بدتر حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان میں مزید مداخلت شروع کر دی جس کے ناقابل تردید ثبوت پاکستان کی طرف سے امریکہ اور اقوام متحدہ کے سامنے پیش کئے جا چکے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت کا خبث باطن اس وقت اظہر من الشمس ہو گیا جب وزیراعظم مودی اور بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول نے بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی مدد کے کھلم کھلا بیانات دیئے۔ اس میں بھارت کے پاکستان میں مداخلت کے دستاویزی ثبوتوں کی ضرورت نہیں رہتی۔
مزید براں افغانستان کی طرف سے بھارت کے ایما پر چور مچائے شور کے مصداق پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کا واویلا کیا جاتا تھا اور اب بھی جاری ہے۔ ان کے نکتہ نظر سے پاکستان سے دہشت گرد افغانستان میں داخل ہو کر کارروائیاں کرتے ہیں۔ انہی کے ایما پر امریکہ بھی مطلوب دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیلئے پاکستان پر زور ڈالتا رہا اور ڈومور کے مطالبات کرتا رہا ہے۔ افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے کے حوالے سے پاکستان کا موقف سولہ آنے درست جبکہ افغانستان کا پاکستان سے دہشت گردوں کے افغانستان میں داخل ہونے کا لغو اور بے بنیاد ہے۔ اس کا ناقابل تردید ثبوت بھارت کے ایما پر افغانستان کی طرف سے بارڈر مینجمنٹ کی شدید مخالفت ہے۔ پاکستان اپنے اخراجات پر پاکستان افغانستان 27 سو کلو میٹر بارڈر کہیں دیوار کی تعمیر اور کہیں باڑ کی تنصیب سے سیل کرنا چاہتا ہے۔ اگر افغانستان کو دہشت گردوں کے پاکستانی سرزمین سے داخل ہونے کے خدشات ہیں تو اسے بارڈر سیل ہونے میں بھرپور تعاون کرنا چاہئے مگر وہ اس اقدام کی شدید مخالفت کر رہا ہے۔ باڑ کی تنصیب کے دوران حملے کئے جاتے ہیں جس میں اب تک بیسیوں پاکستانی سکیورٹی اہلکار اور سویلین شہید ہو چکے ہیں۔ گزشتہ روز ایک بار پھر باڑ لگانے میں مصروف فوجیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا۔
بارڈر مینجمنٹ کے ذریعے پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ پاک ایران سرحد بھی سیل کی جا رہی ہے۔ ایران کی طرف سے پاکستان کے اس اقدام کی حمایت کی گئی ہے جبکہ افغانستان اسے گرانے کیلئے سازشیں کرتا ہے۔ پاک فوج باڑ نصب کرنے کے ساتھ اس کی حفاظت بھی کر رہی ہے، حملہ آوروں کو ہمیشہ سخت جواب دیا گیا ہے۔ افغان انتظامیہ پاکستان کو مجبور کر رہی ہے کہ باڑ کی طرف بڑھنے والے لوگوں کو دور سے دیکھتے ہوئے اڑا دیا جائے، اب بھی کچھ مقامات سے بھارت کے ’’سدھائے‘‘ ہوئے دہشت گرد پاکستان میں داخل ہو کر دہشت گردی کی کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان کی سہولت کاری افغان مہاجرین بھی کرتے ہیں۔ پاکستان کا کھانے اور اس کے خلاف دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں سے بڑا حرام خور کون ہو سکتا ہے۔ انٹیلی جنس اداروں کی یقینا ان پر نظر ہو گی ایسے لوگوں کا پاک سرزمین پر ایک لمحے کیلئے وجود بھی ناقابل برداشت ہے۔ افغانستان میں اب حالات کافی بہتر ہیں جس کا ثبوت وہاں ہونے والے انتخابات ہیں۔ افغان مہاجرین کی پاکستان نے انصار مدینہ کی طرز پر بڑی مہمان نوازی کر لی اب ان کو واپس بھجوانا چاہئے تاکہ اپنے وطن کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنا حق رائے دہی بھی استعمال کر سکیں۔
پاکستان میں دہشتگردی کیلئے افغان بھارت گٹھ جوڑ ایک ناسور کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، اس گٹھ جوڑ کی موجودگی میں افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں، افغانستان میں قیام امن سے ہی خطے میں امن ہو سکتا ہے۔ افغان بھارت نامراد قرتبوں ہی سے افغانستان میں امن عمل کی راہ میں رخنہ پڑ چکا ہے۔ بھارت اور افغان انتظامیہ امریکہ طالبان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کیلئے سازشوں کے جال بنتے رہے، اب جبکہ مذاکرات حتمی مرحلے میں تھے تو صدر ٹرمپ نے ایک حملے کو جواز بنا کر مذاکرات کا دروازہ بند کر دیا جس پر افغان انتظامیہ سانس لے رہی ہے کیونکہ اس کی جانب سے امریکہ طالبان مذاکرات کی کھل کر مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ افغانستان میں امن قائم ہوتا ہے تو بھارت کے پاکستان میں دہشتگردی کرانے کے راستے بھی مسدود ہو جائینگے۔ امریکہ کو امن کیخلاف بھارت اور افغانستان کے ایجنڈے سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے۔ سرحد پار سے پاک فوج پر حملے پاکستان کو افغان عمل امن سے کردار ادا کرنے سے باز رکھنے کیلئے ہو سکتے ہیں۔