چند دن قبل پاکستان قومی زبان تحریک کے زیر اہتمام الحمرا ہال میں یوم قومی زبان کے حوالے سے ایک تقریب منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی انفرادیت یہ تھی کہ اس تقریب میں کوئٹہ، کراچی، پشاور، راولپنڈی کے علاوہ کچھ اور شہروں کے نمائندے بھی شریک تھے۔ لاہورئیے تو خیر سے اتنے زیادہ تھے کہ پورا ہال بھرا ہوا تھا۔ پاکستان قومی زبان تحریک کی روح رواں فاطمہ قمرصاحبہ نے حاضرین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں فخر ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں سے مقررین اپنے خرچ پر لاہور تشریف لائے ہیں جو اردو زبان نے ان کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ فاطمہ قمر صاحبہ نے جسٹس جواد ایس خواجہ کے اردو زبان کے حق میں ایک فیصلے کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ملاقات میں جسٹس جواد ایس خواجہ نے مجھے بتایا کہ میں نے اردو کے نفاذ کے لئے جو تاریخی فیصلہ کیا ہے یہ فیصلہ میں نے خود نہیں کیا بلکہ یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کروایا ہے۔ قمر فاطمہ نے انکشاف کیا کہ 2015ء میں جب یہ فیصلہ آیا تو اس سے پہلے میں جسٹس صاحب کے خط لکھتی رہتی تھی جسٹس صاحب میرے خطوط سے متاثر ہوئے اور انہوں نے کیس کی سماعت کے بعد نفاذ اردو کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ جس دن فیصلہ آیا اسی دن امریکہ نے اپنی ویب سائٹ اردو میں منتقل کر دی۔ جانے والے آرمی چیف نے آنے والے آرمی چیف سے اردو میں حلف لیا۔ میرے مطالبے پر وزیر خارجہ پاکستان نے اعلان کیا کہ وہ اقوام متحدہ کے اجلاس میں اردو زبان میں خطاب کریں گے اور پھرایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد کوئٹہ سے آنے والے اردو کے پرستار طاہر بزنجو کو اظہار خیال کے لئے بلایا گیا۔ تو انہوں نے انکشاف کیا کہ کوئٹہ بلکہ پورے بلوچستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں ان علاقائی زبانوں کے ساتھ بلوچستان میں اردو کو بھی فروغ ملنا چاہئے۔ اس حوالے سے میں نے کوئٹہ میں ایک تنظیم بنا لی ہے۔ جو پورے بلوچستان میں اردو کے فروغ کے لئے کام کر رہی ہے۔ ایک ماہوار اردو رسالہ بھی شائع کیا جا رہا ہے۔
اگلے مقرر قاسم خان سوری نے اپنی تقریر میں طاہر بزنجو کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے آنے والے طاہر بزنجو نے اردو کے حق میں تقریر کر کے کمال کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام علاقائی زبانوں کے الفاظ ملا کر اردو وجود میں آئی تھی۔ بلوچستان بہت خوبصورت زبانوں کی سرزمین ہے جن میں بلوچی، فارسی، پشتو کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں مقبولیت درجہ رکھتی ہے۔ میں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی منتخب ہوا ہوں۔ میں نے عہد کیا ہے کہ میں اسمبلی میں ہمیشہ اردو بولوں گا۔ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ علاقائی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کے فروغ کا بھی اہتمام ہونا چاہئے۔ پروفیسر اشتیاق نے بتایا کہ ہمارے زمانے میں سب کتابیں اردو میں ہوتی تھی جو سکولوں میں پڑھائی جاتی تھیں۔ آج کل سارے استاد انگریزی نصاب پڑھا رہے ہیں جو کہ اردو زبان سے زیادتی کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر عارفہ صبح خان نے کہا کہ جن پاکستانیوں کو قائداعظم اور اقبال سے محبت ہے انہیں چاہئے کہ اردو کو قومی زبان کے طور پر نافذ کریں۔ قائداعظم نے خود اعلان کیا تھا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ میرا تعلق میڈیا سے ہے لیکن میڈیا اردو زبان کو نظر انداز کر رہا ہے۔ مجھے اپنی زبان پر فخر ہے میں کسی مجلس میں انگریزی نہیں بولتی۔ عمران خان اردو تقریروں کا رواج ڈال رہا ہے جسے ساری دنیا کے میڈیا پر نشر کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا دنیا کی اٹھائیس یونیورسٹیوں میں اردو پڑھائی جا رہی ہے۔
جسٹس (ر) ناصرہ اقبال کا فرمان تھا کہ دل کی غمازی زبان کرتی ہے جو اپنی زبان نہیں جانتا اس کو اورکیا آتاہے۔ اردو ایسی زبان ہے جو پوری قوم کو ایک زنجیر میں متحد کر سکتی ہے۔ ملکی آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تعلیمی اور سیاسی سرگرمیوں کی روداد اردو میں بیان کریں۔ میں بھری بزم میں خفیہ راز کی بات کھول رہی ہوں۔ اقبال نے کیا خوب کہا تھا۔
بھری بزم میں رازکی بات کہہ دوں
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں
پھر نامور قانون دان کامل علی آغا مائیک پر آئے تو انہوں نے انکشاف کیا کہ سب سے پہلے محترم باسط بشیر نے عدالتوں میں نفاذِ اردو کی تحریک چلائی تھی جس کے نتیجے میں عدالتوں کے اندر اردو ز بان میں بحث کا آغاز ہوا۔ 1966ء میں باسط بشیر عدالتوں کے سامنے اردو زبان میں بحث کرتے تھے تو میں اسی عدالت میں جا کر ان کی بحث سنا کرتا تھا۔ اس کے بعد میں چھ ممالک گیا۔ ہر ملک میں اردو میں تقریر کی۔ ہر ملک میں میری تقریر کی ٹرانسلیشن کا بندوبست کیا گیا تھا۔ اس کے بعد ابصارعبدالعلیٰ نے بتایا کہ سرسید نے دو قومی نظریہ بتایا تو اس میں اسلام اور اردو کا فروغ شامل تھا۔ حکومت کو چھوڑئیے دیکھنا یہ ہے کہ ہم خود اردو کو قومی سطح پرنافذ کیوں نہیں کر رہے۔ تمام دعوتی کارڈ، ن اموں کی تختیاں، وزٹنگ کارڈ سب انگریزی میں ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہئے ہم خود اردو کو فروغ دیں تو حکومت خودبخود ادھر راغب ہو جائے گی اوریا مقبول جان نے بتایا کہ ہم پر جو نظام تعلیم نافذ کیا گیا ہے وہ انگریزی میں ہے۔ 1979ء میں ا یک بیگم صاحبہ نے سٹی سکول اور بیکن ہائوس سکول کھولے۔ جن میں انگریزی کو فروغ دیا گیا اور اردو کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ہمارے بچے شیخ عبدالجیلانی وغیرہ کو نہیں پڑھتے بلکہ انگریزی ٹارزن کارٹون دیکھتے ہیں۔ ہماری منافقت افسر شاہی سے شروع ہوتی ہے جو انگریزی زبان کو ترجیح دیتی ہے۔ پانچ ہزار سال کی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی ملک میں غیر ملک کی زبان کوسرکاری درجہ حاصل نہیں ہے اوریا مقبول جان کی تقریر سن کر ہمارے ذہن میں وہ شعر گھومنے لگا جو محترمہ عارفہ صبح خان نے اپنی تقریر دل پذیر میں پڑھا تھا۔
سلیقے سے ہوائوں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی وہ لوگ زندہ ہیں جو اردو بول سکتے ہیں
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024