اخبارات میں نئے چیف جسٹس کا ارشاد پڑھنے کو ملا کہ کسی ادارے کو حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں۔ یہ اچھی بات ہے، آئینی پوزیشن یہی ہے اور اگرا سی کاا عادہ چیف جسٹس نے کیاہے تو ا سکی ستائش کی جانی چاہئے، انہوںنے قوم اورا داروں کو ان کا بھولا ہوا سبق یا ددلانے کی کوشش کی ہے۔
ابھی میں چیف جسٹس کے ان ا رشادات پر قلم اٹھانے کی سوچ میں غلطاں تھا کہ زرداری صاحب نے بھی کہہ دیا کہ کوئی ا دارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے، انہوںنے کہا ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کا عمل داد کے قابل ہے مگر اسے آئین کے دائرہ کار میں رکھا جائے۔
میں چیف جسٹس کے ارشاد گرامی کو یہیں چھوڑتا ہوں، وہ خود غور فرما سکتے ہیں کہ عدلیہ کا ادارہ کس حد تک آئینی حد کے اندر رہ کر کام کرتا رہا،کیونکہ جب کبھی مارشل لگا تو اسے نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ نے ہی جواز مہیا کیا اور پارلیمنٹ نے بھی اس کی معافی تلافی فرمائی۔صرف جھگڑا پرویز مشرف کے دوسرے اعلان مارشل لا سے ہوا، چیف جسٹس بھی اڑ گئے، عدلیہ کی اکثریت بھی اڑ گئی اور پارلیمنٹ نے بھی مشرف دور کے اقدامات کی توثیق نہ کی۔
ایسی عدلیہ بھی لوگوںنے دیکھی جو کراچی میں ٹریفک جام کا بھی سویو موٹو نوٹس لیتی تھی۔ بہر حال عدلیہ کا کہنا ہے کہ وہ آئین کی شارح ہے،ہو سکتا ہے یہ سب انکی آئینی تشریح کے عین مطابق ہو،ا سلئے میں اس پر مزید بحث کے موڈمیں نہیں۔ ویسے بھی قانون اورا ٓئین کا میں طالب علم بھی نہیں۔ صرف ایک خاموش تماشائی ہوں اور اسی پر اپنی رائے قائم کرتا ہوں۔
مگر جو کچھ زرداری صاحب کے منہ سے نکلا ہے،ا س پر ضرور بحث ہونی چاہئے، یہ تو ہر کوئی جانتا ہے کہ دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف فوجی ا ٓپریشن کو قومی اتفاق رائے سے شروع کیا گیا، اسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا۔ اس پلان پر زرداری صاحب سمیت ہر سیاسی لیڈر کے دستخط موجود ہیں ۔ یہ ایک لحاظ سے قومی ریفرنڈم کے مترادف تھا، اب جو ایکشن پر عمل ہو رہا ہے اور ہاتھ کسی نہ کسی کی گردن تک پہنچ رہا ہے تو ہر کوئی دہائی دے رہا ہے کہ یہ کیا، انگلیاں دانتوں تلے داب رکھی ہیں۔پہلے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو اعتراض لاحق ہوا کیونکہ ان کے بندے پکڑے گئے تھے، فوج نے صراحت کی کہ ان کا ایکشن کسی سیاسی پارٹی کے خلاف نہیں ، صرف جرائم پیشہ افراد کے خلاف ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے بعض کا ناطہ کسی سیاسی گروہ سے ہو۔ اس کے بعد پیپلز پارٹی کے بندے پکڑے گئے، کچھ بھاگ گئے جن میں خود زرداری بھی شامل ہیں۔اس پرپییلز پارٹی نے دہائی دی کہ انہیں انتقام کانشانہ بنایا جا رہاہے۔ یہ موقف بھی اختیار کیا گیا کہ پنجاب پر نظر کرم کیوں نہیں ، گویا چاہتے یہ تھے کہ صرف ایم کیو ایم اورپیپلزپارٹی سے وابستہ مجرموں پر ہاتھ نہ ڈالا جائے بلکہ مسلم لیگ ن کی گردن بھی دبائی جائے۔ یعنی اگر فوج یا رینجرز سبھی کو ایک نظر سے دیکھیں تو پھر کسی کو کوئی اعتراض نہیںہو گا، نہ کوئی آئینی حدود کی بات کرے گا۔
یہ سوچنے کی بات ہے کہ فوج کو اگر زلزلے میں ڈیوتی دی جا سکتی ہے، سیلاب میں دی جا سکتی ہے، دشوارگزار پہاڑی علاقوںمیں سڑکیںا ور پل بنانے کی ڈیوٹی دی جا سکتی ہے ا ور یہ ڈیوٹی آئینی حدود میں ہے تو دہشت گردی اور کرپشن کے خاتمے کی ڈیوٹی آئینی دائرے میںکیوں نہیں ۔ اعتراض ہی کرنا ہو اور کج بحثی ہی مقصد ہو تو دہشت گردی کے آپریشن پربھی کیا جا سکتا ہے بلکہ دہشت گرد یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام صوبے کی پولیس کا ہے۔، آئین تو یہی کہتا ہے کہ امن و مان صوبائی مسئلہ ہے۔ اسلئے صوبائی پولیس ہی کو امن ومان کی بحالی کا ٹاسک ادا کرنے دیا جائے جیسے یہ کہا جاتا ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے لئے تو اینٹی کرپشن کا محکمہ موجود ہے اور عام سول عدالتیں موجود ہیں ،ا س کے کیسز فوجی عدالتوںمیںکیوں لے جائے جاتے ہیں، اعتراض کرنے بیٹھ جائیں تو لہریں گننے والا یاد آ جاتا ہے۔اس ڈیوٹی پر مامور حضرت کسی جہاز کو بندر گاہ میں داخلے کی اجازت نہیں دیتے تھے کیونکہ انہوںنے لہروں کی جو گنتی کر رکھی تھی،ا س میں خلل واقع ہوتا تھا۔اس طرح یہ آئینی حدود والی بحث بھی لہریں گننے کے مترادف ہے۔
اور اگر قوم سے پوچھا جائے تو اس کا کہنا ہے کہ ہر قسم کے مجرم کو گردن زدنی قرار دیا جائے۔لوگ فوج سے بہت زیادہ توقعات لگا بیٹھے ہیں اور بات بات پہ کہتے ہیںکہ جنرل راحیل فلاںکام میں ہاتھ کیوں نہیں ڈالتے۔سعید آسی تو یہ تاثر لکھ چکے ہیں کہ لوگ جنرل راحیل کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کئے ہوئے ہیں۔
اورسیاستدان ا س سے الٹ چاہتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ وہ لوٹ مار کرتے رہیں ، اور کوئی ان پر ہاتھ نہ ڈالے، زرداری کی دولت سوئس اکائونٹوں میں پڑی ہے، نواز شریف کی دولت حسین نواز نے سمیٹ رکھی ہے، اسحق ڈار پہ الزام ہے کہ وہ سارا کاروبار دبئی میں کرتے ہیں، یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف اور ان کے وزیرا وربیورو کریٹس نے قومی دولت کو شیر مادر کی طرح چٹ کیا۔ عام لوگ اندھیروںمیں بیٹھے ہیں، علاج کی سہولت نہیں ، بچوںکو تعلیم نہیں دلو اسکتے۔ کوئی پڑھ لکھ گیا تو اس کے لئے نوکری نہیں اور سیاستدان اور انکے بچے بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کی عملی تفسیر بنے نظر آتے ہیں۔اس ملک میں سیاست سب سے بڑا کاروبار بن کر رہ گیا ہے، جو لوگ بلدیاتی ادروں سے منسلک ہوئے، صوبائی یا قومی اسمبلی میں پہنچ گئے، انہوں نے وہ لوٹ مچائی کہ خدا کی پناہ۔پچاسی کے الیکشن سے پہلے اس ملک میں نہ بنگلے تھے ، نہ پجارو اور لینڈ کروزر تھیں ،اب ہر طرف بنگلوںکاجنگل ہے ا ور پجارو اور لینڈ کروزروں کے جھکڑ چل رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ آئین کے دائرے میں رہ کر کیا گیا، عام آدمی حیران و پریشان ہے اور سراپا سوال ہے کہ یہ آئین ہے یا اے ٹی ایم مشین۔ اے ٹی ایم مشین کی بھی ایک لمٹ ہوتی ہے ، مگر آئینی حدود کے چھاتے میں وہ ڈاکہ زنی ہوئی کہ پھولن دیوی اور ڈاکو محمد خان بھی شریف النفس اور غریب غربے دکھائی دیتے ہیں۔
نندی پور میں وہ ڈاکہ پڑا، چولستان میں سولر پارک کے نام پر وہ ڈاکہ پڑا کہ لوگ اب جنرل راحیل کی اسٹک سے بھی سخت لاٹھی کی طرف دیکھ رہے ہیں، حضرت موسی علیہ السلام کی لاٹھی جس نے فرعون وقت کو پاش پاش کر کے رکھ دیا۔جنرل راحیل نے تو لگتا ہے ابھی کیا کچھ نہیں ہے۔وہ کرنے پہ آ گیا تو ایک حشر برپا ہو جائے گا۔اور آئین کے لیزر کٹر سے جن طبقوںنے اے ٹی ایم مشینوں کو کاٹ کر قومی خزانہ لوٹا ہے،لوگ چاہتے ہیں کہ ا ن سب کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
یہی آئین کی منشا بھی ہے۔
آئین کے دائرے میں تو یہ لو ٹ مار نہیں ہو سکتی تھی جناب !!
یوم جمہوریت پر اپنی لوٹ مار کا تحفظ کرنے کے بجائے جمہور کی حالت زار پر بھی ذرا رحم کھائو!!
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024