میاں عبدالمجید کراچی
میاںآج عبدالرشید مرحوم کی برسی ہے انکی شخصیت افکار اور کام کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا۔ مرحوم کا روزنامہ نوائے وقت سے ابتداء ہی سے تعلق رہا اور یہ نسبت آخری دم تک قائم رہی۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ آج بھی قائم ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ انسان کی پہچان کئی نسبتوں سے ہوتی ہے جس میں خاندان، علاقہ مادرعلمی، اور دوران زندگی کارکردگی، میاں صاحب کوانکے کالم نور بصیرت اور روزنامہ نوائے وقت سے ہی سب سے زیادہ پذیرائی ملی اور جہاں بھی نور بصیرت کا ذکر آئیگا نوائے وقت کا ذکر ضرور ہوگا چند ہفتے پیشتر انکے بڑے صاحبزادے جناب محمد آصف اصفہان سے تشریف لائے تو ہم گھنٹوں بھر سوچتے رہے کہ آخر ان کو شہید کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے فیصلہ یہ ہوا کہ انکے یوم شہادت سے پیشتر کے ایک ماہ کے کالموں کو پرکھا جائے تو شاید ہمیں کوئی نشان ملے تو عزیزی آصف اور محسن نے نوائے وقت سے یہ کالم حاصل کئے۔ ان میں سے ایک بھی کالم ایسا نہیں جس کی وجہ سے کسی مذہبی یا سیاسی شخصیت کی دل آزاری ہو یا کسی جماعت یا فرقہ پر تنقید ہو۔
اس سلسلے میں آخر کار یہی گمان ہوتا ہے کہ ان کو مذہبی حلقوں یا عوام الناس میں خوف وہراس پیدا کرنے کیلئے ٹارگٹ کیا گیا کیونکہ وہ ایک پمفلٹ کے ذریعے برائی کی قوتوں کو بے نقاب کررہے تھے۔
انکی شخصیت کو بہترین خراج عقیدت بھی نوائے وقت کا 17 ستمبر1991ء کا ایڈیٹوریل ہے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
میاں عبدالرشید اپنے کالم نور بصیرت کے حوالے سے ملک کے طول وعرض میں معروف تھے ان کا کالم دینی معلومات اور تاریخی واقعات کا مجموعہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وسیع حلقے میں انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اسلام اور پاکستان کے بارے میں انکی کمٹ منٹ کسی شک وشبہ سے بالاتر تھی اور اسکا اظہار وہ اپنی تحریروں میں بھی کرتے تھے وہ بالعموم اسلام کے سماجی تصورات اور رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنے کالم کا موضوع بناتے اور جید علماء کرام اور صوفیا کی تحریروں کے اقتباسات سے اپنی تحریروں کو مزین کرتے مرحوم اپنی نجی زندگی میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے اور شرعی فرائض کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے وہ اپنے دائرہ میں عشق رسول ﷺ اور اسوہ پیغمبر پر عمل کی تبلیغ کرتے اور اس ضمن میں کسی قسم کی مداہنت روا نہ رکھتے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور سماجی برائیوں کے خاتمے کیلئے دامے درمے سخنے قلمے ہر طرح جہاد جاری رکھے ہوئے تھے مرحوم شعروادب کا بھی عمدہ ذاق رکھتے تھے جس کا اظہار انکی تحریروں سے ہوتا ہے۔
ان کا آخری کالم جو 17ستمبر 1991ء ہی کو شائع ہوا اس کا عنوان نبی الجہاد ہے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
جناب رسالت مآبؐ منصب رسالت عظمی پر فائز ہونے کے بعد گھر تشریف لائے اور اپنی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ سے سارا واقعہ بیان فرمایا تو انہوں نے کہا آپ کو بشارت ہو آپ ہرگز خائف نہ ہوں آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ہمیشہ سچ بولتے ہیں لوگوں کے قرضوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کی خبرگیری فرماتے ہیں۔ لوگوں کی امانتیں آپکے پاس محفوظ رہتی ہیں مہمان داری کا حق ادا کرتے ہیں۔ حق کا ساتھ دیتے ہیں۔
سیدہ خدیجہ پہلے آپ پر ایمان لائیں اسکے بعد وہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت وانجیل کے بہت بڑے عالم تھے مگر اس وقت بہت ضیعف اور نابینا ہو چکے تھے انہوں نے جبرائیل علیہ السلام کے جناب رسول پاک کی خدمت میں حاضر ہونے کا واقعہ سن کر کہا تحقیق انکے پاس وہی فرشتہ آیا ہے جو عیسیٰ ؑکے پاس آتا تھا۔ حضرت مسیح نے آپکی بشارت دی ہے آپ مسل موسیٰ نبی مرسل ہیں عنقریب اللہ تعالی کی طرف سے آپکو جہاد کاحکم دیا جائیگا۔ ایک اور روایت کے مطابق ورقہ بن نوفل نے سیدہ خدیجہ سے سارا واقعہ سننے کے بعد کہا اچھا وہ نبی الجہاد آگئے حضور اکرم نے مدینہ منورہ میں اسلامی مملکت کے قیام کے بعد دس برس کے قلیل عرصہ میں 26 غزوات میں بہ نفس نفیس شرکت فرمائی اور سپہ سالاری کی ذمہ داری ادا کی اور 56 جنگی مہمات (سراپا) بھیجیں جن میں سپہ سالار مختلف حضرات کو مقرر فرمایا۔ مفتوحہ علاقوں کو دنوں میں تقسیم کیا جائے تو 274 مرتبہ یومیہ بنتا ہے اپنا نقصان ایک جان ماہانہ دشمن کا ڈیڑھ صد ماہانہ دس برس میں دس لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقہ فتح کیا کسی معرکے میں شکست نہیں کہیں پسپائی نہیں کوئی کوتاہی نہیں۔
اس مبارک مہینے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان 27 رمضان المبارک 1333ھ رات کے بارہ بجے معرض وجود میں آیا اور پاکستان کی پیدائش کا پہلا دن جمعۃالمبارک تھا۔ میاں عبدالرشید کی طرح لاکھوں مسلمان اسے اللہ تعالی کا خاص عطیہ گردانتے ہیں کیونکہ یہ تاریخ کسی انگریز منصوبے کا حصہ نہیں تھی انہوں نے تو پہلے جون 1948 مقرر کی تھی۔ کاش ہم یوم پاکستان 27 ماہ رمضان ہی مناتے اور خاص دعاؤں کیساتھ یوم پاکستان کو خوش آمدید کہتے۔ آجکل قائداعظم کو ہندوستان میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے جو ان کا حق ہے مگر جسونت سنگھ صاحب ایک ایسی پارٹی کیساتھ سالہا سال تک منسلک رہے جو وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل کی سرپرستی کرتی رہی اور کررہی ہے اگر آج یہ لوگ قائداعظم کو سیکولر ذہن کا لیڈر مان رہے ہیں تو ظاہر ہے نہرو پٹیل اور گاندھی سیکولر نہیں تھے صرف دنیا کو دکھانے کیلئے بھیس بدلا ہوا تھا میاں عبدالرشید فرمایا کرتے تھے کہ ہندو پر اعتبار نہ کرو۔ قائداعظم کا بھی ہمیشہ یہی موقف رہا اور ہمارے مجید نظامی صاحب فرماتے ہیں مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ قائداعظم کا پاکستانی مسلمانوں میں جو وقار ہے رسول اکرم اور اسلام سے محبت ہے اسکو ٹھیس پہنچانے کی فکر میں ہیں۔ میاں عبدالرشید نے 11 ستمبر 1991 کو اپنی وفات سے چند دن پیشتر قائداعظم پر اپنے کالم میں لکھا تھا۔
قائداعظم کی ساری زندگی حضور کی امت کی خدمت میں گزری۔ پہلے تو یہی دیکھئے کہ نوجوانی میں انگلینڈ بیرسٹری کیلئے گئے تو لنکنز ان میں داخلہ اس بنا پر لیا کہ اسکی عمارت کے باہر حضور اکرم ﷺ کا اسم مبارک دنیا کے مقتدر قانون سازوں کی فہرست میں کندہ تھا۔ گویا زندگی کی ابتدا حضور اکرم کے اسم گرامی کی تعظیم وتکریم سے کی۔ قائداعظم مولوی یا مولانا نہ تھے مگران میں سچے مسلمانوں کی ساری خوبیاں موجود تھیں۔ حضور اکرم ﷺ کی محبت وتعظیم تھی۔ حضور کی امت کی خدمت کا جذبہ تھا اور دیانت دار انسان تھے، نہ کسی سے مرعوب ہوتے نہ کوئی انہیں خرید سکتا نہ کوئی دھوکہ دے سکتا۔ ہمیشہ اپنی جیب سے خرچ کیا یہ وہ دور تھا جب بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر چندہ ہضم کرجانا اپنا حق سمجھتے اور برملا کہتے کام تمہارا کرتے ہیں کھائیں کہاں سے۔ بعض ایسے بھی تھے جو مشرک اور بت پرست ہندو سے باقاعدہ پیسے لیتے۔
حضور کی محبت نے علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کے ذہن چمکا دئیے۔ صرف یہ دونوں حضرات اس بات کو پوری طرح سمجھ پائے تھے کہ گاندھی اندر سے متعصب ہندو ہے اور چاہتا ہے کہ انگریز مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں ہندو کے رحم وکرم پر چھوڑ جائے یوں لگتا ہے جیسے قائداعظم کو قدرت کی طرف سے تیار ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ گاندھی کا طلسم توڑ دیں آزادی سے چند دن قبل ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان اور بھارت کے جھنڈے تیار کئے پاکستان کے سبز پرچم پر ہلال وستارہ اور بھارت کے ترنگے پرچم پر چرخہ تھا دونوں پرچموں کے اوپر کونے میں چھوٹا سا یونین جیک تھا جو پورے جھنڈے کا 1/8 تھا۔ قائداعظم کو یہ پرچم پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا ’’ہلال وصلیب‘‘ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ کیا غیرت تھی؟
کیا جسونت سنگھ یا کوئی اور ان حقائق کو جھٹلا سکتا ہے انشاء اللہ وقت کیساتھ ساتھ قائداعظم کی عظمت اجاگر ہوگی اور ہندو لیڈروں کا اصلی گھناؤنا روپ سامنے آئیگا اسکے ساتھ ساتھ قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستانی لیڈروں کے گھناؤنے کردار بھی بے نقاب ہوں گے اور موجودہ لیڈروں سے عوام کو نجات ملے گیا تاکہ مشیت ایزدی سے بنایا گیا یہ ملک اپنا جائز مقام حاصل کر سکے۔ آخر میں قارئین سے میاں عبدالرشید صاحب کی مغفرت کیلئے دعا کی درخواست ہے۔
میاںآج عبدالرشید مرحوم کی برسی ہے انکی شخصیت افکار اور کام کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رہے گا۔ مرحوم کا روزنامہ نوائے وقت سے ابتداء ہی سے تعلق رہا اور یہ نسبت آخری دم تک قائم رہی۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ آج بھی قائم ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہوگا۔ تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ انسان کی پہچان کئی نسبتوں سے ہوتی ہے جس میں خاندان، علاقہ مادرعلمی، اور دوران زندگی کارکردگی، میاں صاحب کوانکے کالم نور بصیرت اور روزنامہ نوائے وقت سے ہی سب سے زیادہ پذیرائی ملی اور جہاں بھی نور بصیرت کا ذکر آئیگا نوائے وقت کا ذکر ضرور ہوگا چند ہفتے پیشتر انکے بڑے صاحبزادے جناب محمد آصف اصفہان سے تشریف لائے تو ہم گھنٹوں بھر سوچتے رہے کہ آخر ان کو شہید کرنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے فیصلہ یہ ہوا کہ انکے یوم شہادت سے پیشتر کے ایک ماہ کے کالموں کو پرکھا جائے تو شاید ہمیں کوئی نشان ملے تو عزیزی آصف اور محسن نے نوائے وقت سے یہ کالم حاصل کئے۔ ان میں سے ایک بھی کالم ایسا نہیں جس کی وجہ سے کسی مذہبی یا سیاسی شخصیت کی دل آزاری ہو یا کسی جماعت یا فرقہ پر تنقید ہو۔
اس سلسلے میں آخر کار یہی گمان ہوتا ہے کہ ان کو مذہبی حلقوں یا عوام الناس میں خوف وہراس پیدا کرنے کیلئے ٹارگٹ کیا گیا کیونکہ وہ ایک پمفلٹ کے ذریعے برائی کی قوتوں کو بے نقاب کررہے تھے۔
انکی شخصیت کو بہترین خراج عقیدت بھی نوائے وقت کا 17 ستمبر1991ء کا ایڈیٹوریل ہے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
میاں عبدالرشید اپنے کالم نور بصیرت کے حوالے سے ملک کے طول وعرض میں معروف تھے ان کا کالم دینی معلومات اور تاریخی واقعات کا مجموعہ ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک وسیع حلقے میں انہیں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اسلام اور پاکستان کے بارے میں انکی کمٹ منٹ کسی شک وشبہ سے بالاتر تھی اور اسکا اظہار وہ اپنی تحریروں میں بھی کرتے تھے وہ بالعموم اسلام کے سماجی تصورات اور رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اپنے کالم کا موضوع بناتے اور جید علماء کرام اور صوفیا کی تحریروں کے اقتباسات سے اپنی تحریروں کو مزین کرتے مرحوم اپنی نجی زندگی میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا تھے اور شرعی فرائض کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے وہ اپنے دائرہ میں عشق رسول ﷺ اور اسوہ پیغمبر پر عمل کی تبلیغ کرتے اور اس ضمن میں کسی قسم کی مداہنت روا نہ رکھتے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور سماجی برائیوں کے خاتمے کیلئے دامے درمے سخنے قلمے ہر طرح جہاد جاری رکھے ہوئے تھے مرحوم شعروادب کا بھی عمدہ ذاق رکھتے تھے جس کا اظہار انکی تحریروں سے ہوتا ہے۔
ان کا آخری کالم جو 17ستمبر 1991ء ہی کو شائع ہوا اس کا عنوان نبی الجہاد ہے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
جناب رسالت مآبؐ منصب رسالت عظمی پر فائز ہونے کے بعد گھر تشریف لائے اور اپنی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ سے سارا واقعہ بیان فرمایا تو انہوں نے کہا آپ کو بشارت ہو آپ ہرگز خائف نہ ہوں آپ کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ہمیشہ سچ بولتے ہیں لوگوں کے قرضوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں ناداروں کی خبرگیری فرماتے ہیں۔ لوگوں کی امانتیں آپکے پاس محفوظ رہتی ہیں مہمان داری کا حق ادا کرتے ہیں۔ حق کا ساتھ دیتے ہیں۔
سیدہ خدیجہ پہلے آپ پر ایمان لائیں اسکے بعد وہ آپ کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو توریت وانجیل کے بہت بڑے عالم تھے مگر اس وقت بہت ضیعف اور نابینا ہو چکے تھے انہوں نے جبرائیل علیہ السلام کے جناب رسول پاک کی خدمت میں حاضر ہونے کا واقعہ سن کر کہا تحقیق انکے پاس وہی فرشتہ آیا ہے جو عیسیٰ ؑکے پاس آتا تھا۔ حضرت مسیح نے آپکی بشارت دی ہے آپ مسل موسیٰ نبی مرسل ہیں عنقریب اللہ تعالی کی طرف سے آپکو جہاد کاحکم دیا جائیگا۔ ایک اور روایت کے مطابق ورقہ بن نوفل نے سیدہ خدیجہ سے سارا واقعہ سننے کے بعد کہا اچھا وہ نبی الجہاد آگئے حضور اکرم نے مدینہ منورہ میں اسلامی مملکت کے قیام کے بعد دس برس کے قلیل عرصہ میں 26 غزوات میں بہ نفس نفیس شرکت فرمائی اور سپہ سالاری کی ذمہ داری ادا کی اور 56 جنگی مہمات (سراپا) بھیجیں جن میں سپہ سالار مختلف حضرات کو مقرر فرمایا۔ مفتوحہ علاقوں کو دنوں میں تقسیم کیا جائے تو 274 مرتبہ یومیہ بنتا ہے اپنا نقصان ایک جان ماہانہ دشمن کا ڈیڑھ صد ماہانہ دس برس میں دس لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقہ فتح کیا کسی معرکے میں شکست نہیں کہیں پسپائی نہیں کوئی کوتاہی نہیں۔
اس مبارک مہینے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ پاکستان 27 رمضان المبارک 1333ھ رات کے بارہ بجے معرض وجود میں آیا اور پاکستان کی پیدائش کا پہلا دن جمعۃالمبارک تھا۔ میاں عبدالرشید کی طرح لاکھوں مسلمان اسے اللہ تعالی کا خاص عطیہ گردانتے ہیں کیونکہ یہ تاریخ کسی انگریز منصوبے کا حصہ نہیں تھی انہوں نے تو پہلے جون 1948 مقرر کی تھی۔ کاش ہم یوم پاکستان 27 ماہ رمضان ہی مناتے اور خاص دعاؤں کیساتھ یوم پاکستان کو خوش آمدید کہتے۔ آجکل قائداعظم کو ہندوستان میں بڑی پذیرائی مل رہی ہے جو ان کا حق ہے مگر جسونت سنگھ صاحب ایک ایسی پارٹی کیساتھ سالہا سال تک منسلک رہے جو وشواہندو پریشد اور بجرنگ دل کی سرپرستی کرتی رہی اور کررہی ہے اگر آج یہ لوگ قائداعظم کو سیکولر ذہن کا لیڈر مان رہے ہیں تو ظاہر ہے نہرو پٹیل اور گاندھی سیکولر نہیں تھے صرف دنیا کو دکھانے کیلئے بھیس بدلا ہوا تھا میاں عبدالرشید فرمایا کرتے تھے کہ ہندو پر اعتبار نہ کرو۔ قائداعظم کا بھی ہمیشہ یہی موقف رہا اور ہمارے مجید نظامی صاحب فرماتے ہیں مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ قائداعظم کا پاکستانی مسلمانوں میں جو وقار ہے رسول اکرم اور اسلام سے محبت ہے اسکو ٹھیس پہنچانے کی فکر میں ہیں۔ میاں عبدالرشید نے 11 ستمبر 1991 کو اپنی وفات سے چند دن پیشتر قائداعظم پر اپنے کالم میں لکھا تھا۔
قائداعظم کی ساری زندگی حضور کی امت کی خدمت میں گزری۔ پہلے تو یہی دیکھئے کہ نوجوانی میں انگلینڈ بیرسٹری کیلئے گئے تو لنکنز ان میں داخلہ اس بنا پر لیا کہ اسکی عمارت کے باہر حضور اکرم ﷺ کا اسم مبارک دنیا کے مقتدر قانون سازوں کی فہرست میں کندہ تھا۔ گویا زندگی کی ابتدا حضور اکرم کے اسم گرامی کی تعظیم وتکریم سے کی۔ قائداعظم مولوی یا مولانا نہ تھے مگران میں سچے مسلمانوں کی ساری خوبیاں موجود تھیں۔ حضور اکرم ﷺ کی محبت وتعظیم تھی۔ حضور کی امت کی خدمت کا جذبہ تھا اور دیانت دار انسان تھے، نہ کسی سے مرعوب ہوتے نہ کوئی انہیں خرید سکتا نہ کوئی دھوکہ دے سکتا۔ ہمیشہ اپنی جیب سے خرچ کیا یہ وہ دور تھا جب بڑے سے بڑا سیاسی لیڈر چندہ ہضم کرجانا اپنا حق سمجھتے اور برملا کہتے کام تمہارا کرتے ہیں کھائیں کہاں سے۔ بعض ایسے بھی تھے جو مشرک اور بت پرست ہندو سے باقاعدہ پیسے لیتے۔
حضور کی محبت نے علامہ اقبال اور قائداعظم دونوں کے ذہن چمکا دئیے۔ صرف یہ دونوں حضرات اس بات کو پوری طرح سمجھ پائے تھے کہ گاندھی اندر سے متعصب ہندو ہے اور چاہتا ہے کہ انگریز مسلمانوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں ہندو کے رحم وکرم پر چھوڑ جائے یوں لگتا ہے جیسے قائداعظم کو قدرت کی طرف سے تیار ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ گاندھی کا طلسم توڑ دیں آزادی سے چند دن قبل ماؤنٹ بیٹن نے پاکستان اور بھارت کے جھنڈے تیار کئے پاکستان کے سبز پرچم پر ہلال وستارہ اور بھارت کے ترنگے پرچم پر چرخہ تھا دونوں پرچموں کے اوپر کونے میں چھوٹا سا یونین جیک تھا جو پورے جھنڈے کا 1/8 تھا۔ قائداعظم کو یہ پرچم پیش کیا گیا تو انہوں نے کہا ’’ہلال وصلیب‘‘ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ کیا غیرت تھی؟
کیا جسونت سنگھ یا کوئی اور ان حقائق کو جھٹلا سکتا ہے انشاء اللہ وقت کیساتھ ساتھ قائداعظم کی عظمت اجاگر ہوگی اور ہندو لیڈروں کا اصلی گھناؤنا روپ سامنے آئیگا اسکے ساتھ ساتھ قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستانی لیڈروں کے گھناؤنے کردار بھی بے نقاب ہوں گے اور موجودہ لیڈروں سے عوام کو نجات ملے گیا تاکہ مشیت ایزدی سے بنایا گیا یہ ملک اپنا جائز مقام حاصل کر سکے۔ آخر میں قارئین سے میاں عبدالرشید صاحب کی مغفرت کیلئے دعا کی درخواست ہے۔