جدہ کی ڈائری
امیر محمد خان
من پسند ٹیم الیکشن جیتے کا دعوہ کر رہی ہے اور نظریاتی ورکر کو دیوار سے لگا کر پارٹی کو تقسیم کیا جا رہا ہے
سعودی عرب میں تحریک انصاف کے انتخابات ایک مرتبہ پھر کشیدگی اور گروہ بندی کے شکار ہوگئے ۔ گزشتہ انتخابات کے نتائج بھی گروہ بندی کا شکار ہوگئے تھے ۔ کارکنوںکا نزلہ تمام تر تحریک انصاف اوﺅرسیز کے انچارج عبداللہ ریاڑ پر گرا ، کارکنوں کا الزام تھا کہ عبداللہ ریاڑ نے اپنے من پسند لوگوں کو کامیاب کرانے کیلئے کچھ انتخابی ”معاملات“ کئے ۔ اس مرتبہ پھر کارکنوںاور سابقہ عہدیداروں نے اسی طرح کے الزام لگائے ہیں ، شنید ہے کہ مند پسند افراد کو عہدے پر لانے کی سرگرمیوں کی بناءپر دوبئی، امریکہ وغیرہ میں بھی تنظیمی کارکنوں میں غصہ ہے اگر پاکستانی کی قیادت نے اس جانب توجہ نہ دی تو پی ٹی آئی کے سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کی پالیسی کو بھی نقصان ہوگا ۔ گزشتہ انتخابات کے بھی ایسا ہی ہوا تھا اور کئی کارکنان مایوس ہوکر گھر بیٹھ گئے تھے ۔ دوم پی ٹی آئی کے انتخابات کا طریقہ کار دیگر ممالک میں تو کارگر ثابت ہوسکتا ہے مگر سعودی عرب میں یہ طریقہ کار اسلئے نقصان کا سبب ہوسکتاہے کہ اس میں ووٹ ڈالنے والے کارکنوں سے فنڈز بھی لیا جاتاہے ، اور فنڈز کی وصولی کسی بھی مد میں سعودی عرب کے قانون کے زمرے میں نہیں آتی۔اس سال انتخابات کے بعد ایک جانب کامیاب لوگوںنے بھنگڑہ ڈالا ، پر جوش تقریب کا اہتمام کیا جس میں نہ جانے پاکستان قونصیلٹ کے ایک افسر بھی براجمان تھا جبکہ قونصل جنرل خالد مجید خود بھی کسی سیاسی تقریب میں شرکت سے اجتناب کرتے ہیں ، مگر انکے کسی افسر کا اپنی مرضی سے اس طرح کی تقریب میں شرکت؟ناراض اراکین کی جانب سے جدہ کے مقامی ہوٹل میں الیکشن میں دھاندلی اور ممبر شپ میں بے ضابطگیوں کے خلاف اجلاس منعقدہ کیا گیا....کارکنان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں انٹرا پارٹی میں من پسند امیدوار کو جتوانے کے لیے عبداللہ رایاڑ نے گیم کھیلی ہے اور انکی ہدایت پر اویس انجم،اور IT ایکسپرٹ حسیب نے جان بوجھ کر دو گھنٹے پہلے سسٹم بند کر دیا تھا جبکہ اس وقت کارکنان اپنی اپنی برتری حاصل کرنے کے لیے پارٹی فنڈز میں آن لائن پے منٹ کرنے میں مصروف تھے۔
کارکنان کا مزید کہنا تھا کے الیکشن سے قبل 42جعلی ایم سی رجسٹر کیئے جن کے100پوائیٹ ہی نہیں پورے تھے اور کچھ ایم سی ایسے ہیں جن کے ووٹ دوسرے شہروں میں ڈال دئیے تھے یہ ہی وجہ ہے عبداللہ ریاڑ کی من پسند ٹیم الیکشن جیتے کا دعوہ کر رہی ہے اور نظریاتی ورکر کو دیوار سے لگا کر پارٹی کو تقسیم کیا جا رہا ہے ہم اپنے قائد وزیراعظم عمران خان اور چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی سے اپیل کرتے ہیں کہ ان بے ضابطگیوں کا نوٹس لیا جائے اور ممبر شپ مکمل ہونے کے بعد الیکشن دوبارہ کروایا جائے تا کہ جماعت منتشر نہ ہو۔ دوسری جانب جن دوستوں نے کامیابی حاصل کی ہے انہوں نے اپنی جماعت کے بڑے بڑے سینئر ”صحافیوں کو دعوت دی تھی۔ قصہ مختصر یہ کہ پاکستان میں مرکزی قیادت کو پہلے بھی جماعت کی تقسیم ہونے کی کوئی فکر نہیں تھی ناکام دوست سارا سال ناراض بیٹھے رہے اب اس سال بھی توقع رکھیں، یا خاطر جمع رکھیں ایسا ہی ہوگا ۔ چونکہ پارٹی کو جو فنڈ ملنا تھا وہ مل چکا ، اوﺅرسیز میں جماعت کے ذمہ داروںنے دلاسا ہی دینا ہے کہ ”ہم ملکی معاملات میں مصروف ہیں ، “ذرا صبر کریں۔ گزشتہ تیس سال میں میرا مشاہدہ ہے جو حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان میں چاہے حکومت پی پی پی کی ہو مسلم لیگ ن کی ہو بیرون ملک انکے شیدائیوں میں تنظیمی اعتبار سے عہدوںکا جھگڑہ ہوتا ہے اور گروپنگ ہوتی ہے۔ جن کا پاکستان میں موجود ذمہ داران کبھی تصفیہ نہیں کرتے اور یہ صورتحال بیرون ملک تمام ہی ممالک میں ہوتی ہے ۔ سیاسی جماعتیںاس صورتحال کو حل کرنے کے بجائے اس بات پر خوش ہوتیں ہیںکہ انکے چاہنے والے بہت ہین مقامی طور پر گروپ بندی بھی ہوتو کوئی بات نہیں، چونکہ یہ گروپ بندی بیرون ملک ہی نہیں اندرون ملک بھی اسی طرح موجود ہے ۔ جس گروپ کے کوئی وزیرہاتھ لگتاہے وہ اس سے رابطہ رکھتے ہیں اور اپنا گروپ تشکیل دے دیتے ہیں ، تحریک انصاف کے کیس میں تو گوپنگ فائدہ مند بھی ہے چونکہ ممبران سازی کی ایک فیس ہوتی ہے جو ہر گروپ جمع کرارہا ہوتا ہے ،پارٹی کے تو مزے ہی مزے۔ناکام ہونے والے صورتحال کی ٹھیک ہونے کے وعدے پر اپنی گروہ بندی جاری رکھتے ہیں یہاں اب مسلم لیگ ن اور پی پی پی تو نام کی حد تک ہیں خصوصی پارٹی کے متعلقہ دنوں کی تقریبات تک محدود ہیں۔
ممبر سازی میں کامیابی حاصل کرنے والے ورکرز اتحاد کا جشن
تحریک انصاف کے کامیاب ہونے والے دوستوںیا ممبر سازی زیادہ کرنے کے دعویدار لوگوںنے اپنی کامیابی کے پہلے قدم کے موقع پر جشن کا اہتمام کیا ۔ گو کہ انہوںنے دعوت نہیں دی انکا کہنا ہے کہ وہ اپنی جماعت سے وابسطہ صحافیوں میں خود کفیل ہیں ( سیاسی جماعتوں سے با قاعدہ منسلک صحافی ؟؟ سمجھ نہیں آتا) بہرحال اس میں بھی پاکستانی دوست تھے دعوت دینا نہ دینا انکی مرضی ہے ۔ لیکن اسکی رپورٹ لکھنا میری غیر جانبدرانہ ذمہ داری ہے۔ایک دوست نے کچھ تفصیلا ت بھیجیں جسکے مطابق ورکرز اتحاد نے اپنی کامیابی کی خوشی میں ایک جشن کا اہتمام کیا جس میں پی ٹی آئی کے نظیر چغتائی اور اکرام اللہ نے کہاکہ آج مجھے اپنی سیاسی جدوجہد پہ فخر ہو رہا ہے کہ جس پودے کی ہم نے بنیاد رکھی تھی وہ آج ایک پھل دار درخت بن چکا ہے۔ اس انٹرا پارٹی الیکشن میں جیتنے والے تمام ممبران کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا گوہ ہوں کہ اللہ ان کی رہنمائی فرمائے۔شعلہ بیان مقرر اور سابقہ صدر عقیل آرائیں نے او آئی سی، ڈاکٹر عبدللہ ریاڑ، ڈپٹی سیکرٹری میاں اویس انجم اور ان کی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے صاف و شفاف طریقے کے ساتھ الیکشن کرواے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاریخ میں پہلی دفعہ سعودیہ عربیہ سے ریکاڈ ممبرسازی ہوئی ہے جس کا مطلب ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں کا ایک بہت بڑا طبقہ عمران خان کے ساتھ کھڑا ہے۔ امیدوار صدر مفتی عزیر بھٹہ نے اظہار خیال کرتے ہوے کہا کہ ہم سب مل کر عمران خان کے ویژن کو پروموٹ کریں گے اور یکجا ہو کر قوم و ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کریں گے۔مقررین میں ، عمران خان، فواد احمد سواتی، امان اللہ خان، اسماعیل رضا، شعیب الطاف، بابر اکرم، اشفاق واحد، عمران شاہ، مفتی عزیر بھٹہ، خواجہ حماد، میاں چوہدری اسلم، تقریب میں معروف پاکستانی سنگر نعیم سندھی نے اپنی سریلی آواز سے پاکستانی روایتی نغموں سے خوب سماں باندھے رکھا۔شرکاہ میں امجد گجر، پاکستان تحریک انصاف کے سابقہ سئنیر نائب صدر طارق ندیم، سابقہ فنانس سیکرٹری اسماعیل رضا، اکرام اللہ، لعل محمد گجر، عمران خان،ارسلان سنی، بابر اکرم، اشفاق واحد،اکرم اللہ، لیاقت خان چغرزئی، شھباز گوندل، شباب بھٹہ، جمشید جمی، میں زبیر، حمید خان، بلال سواتی محمد اسلم، تلاوت شاہ اور دیگر نے شرکت کی۔
مکہ مکرمہ سے صد ر کے امیدوار مفتی عزیر بھٹہ کے ہمراہ مکہ مکرمہ کے صدر محمد انور جاوید، ہاشم علی کھوکھر، جنرل سیکرٹری ارسلان شاہد، چوہدری
اسلم، محمد ارشد، میاں عدیل اکرم، چوہدری شہزاد، محمد عثمان، مصطفی خرم نے خصوصی شرکت کی۔پاکستان قونصلیٹ سے سید حمزہ سلیم گیلانی، اور دیگر نے شرکت کی۔سابقہ عہدیدا ر شعیب الطاف نے الیکشن کی اس جیت پر تمام پارٹی ورکرز کو مبارک باد دی آخر میں جدہ ریجن کے صدر خواجہ حماد نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور پارٹی کے تمام ورکرز کے محنت کو سراہا ۔