کراچی بدامنی کیس: رینجرز کی رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے‘ پولیس صدر کے سکیورٹی افسر کو تحفظ نہ دے سکی عوام کو کیسے دیگی: سپریم کورٹ
کراچی ( سٹاف رپورٹر ) سپریم کورٹ نے کراچی بدامنی کیس میں رینجرز کی رپورٹ کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے ریمارکس دئیے ہیں کہ اگر عدالتی فیصلے پر عملدرآمد ہو جاتا تو لیاری سے لوگ نقل مکانی نہیں کرتے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد کراچی میں امن و امان قائم کرنا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پولیس صدر مملکت کے چیف سکیورٹی آفیسر کو تحفظ فراہم نہیں کر سکی ہے تو عام آدمی کو کیسے تحفظ فراہم کرے گی، صدر کے چیف سکیورٹی افسر اور ہائیکورٹ کے جج محفوظ نہیں تو عوام کا کیا حال ہو گا۔ رینجرزکے وکیل نے شہر میں امن و امان سے متعلق رینجرزکی رپورٹ پیش کی، رپوٹ پر ڈی جی رینجرزکے دستخط نہ ہونے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔ جسٹس امیر ہانی نے ریمارکس دئیے کہ ڈی جی رینجرز کے پا س دستخط کرنے کا وقت نہیں یا وہ توہین محسوس کرتے ہیں۔ رینجرز رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کو سیاست سے پاک اور سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز ختم کئے جائیں۔ دوران سماعت جسٹس خلجی عارف حسین نے رینجرزکے وکیل سے مکالمہ کیا کہ کیا رینجرز کے دعوت نامے دینے سے سیاسی جماعتیں مسلح ونگز ختم کر دیں گی؟ جسٹس خلجی عارف حسین نے کہا کہ جو کچھ آپ آج لکھ رہے ہیں ہم 2011ءمیں بتا چکے ہیں۔ رینجرزکی رپورٹ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔ جسٹس خلجی نے کہا کہ پولیس کی کہانیاں سن سن کر تھک چکے ہیں، لیاری کے لوگ اب ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ بدقسمتی سے آج لیاری والوں کی زندگی زیادہ خطرے میں ہے۔ جسٹس خلجی نے رینجرزکے وکیل سے استفسار کیا کہ لیاری میں اسلحہ کہاں سے آتا ہے۔ آپ کی کمزوری سے یا آپ کے تعاون سے؟ شام کو کوئی ڈیفنس میں بھی نکلے تو لوٹ لیا جاتا ہے۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دئیے کہ لیاری سے گرفتار ہونے والے افراد منشیات کے عادی یا پھر پاگل ہوتے ہیں، کیس ثابت نہ ہونے کی بنا پر عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں ۔ جسٹس امیرہانی مسلم نے کہا ضرورت محسوس ہوئی تو ہو سکتا ہے 17 جولائی کو ڈی جی رینجرز کو بلا لیں، جیلوں کا اتنا برا حال ہو چکا ہے جو سازشیں پہلے باہر تیار کی جاتی تھیں اب وہ جیلوں میں ہوتی ہیں، بتایا جائے کہ ایک ہزار موبائل فونز جیل کیسے پہنچے، یہ تباہی پھیلانے والی بات ہے اور جیل حکام کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟ آئی جی جیل خانہ جات نصرف منگن نے عدالت کے روبرو جواب دیا کہ جیل کے چھ افسران معطل کئے گئے، جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا آپ کو اور سپرنٹنڈنٹ جیل کو معطل کیوں نہیں کیا گیا، جیل میں ایسے افسر تعینات کئے گئے ہیں جن کے خلاف سنگین نوعیت کے مقدمات درج ہیں۔ جسٹس خلجی عارف حسین نے پولیس حکام سے انسداد دہشت گردی عدالت اور سٹی کورٹ سے فرار ہونے والے ملزمان اور اس سلسلے میں کئے جانے والے اقدامات کے بارے میں استفسار کیا۔ جس پر پولیس حکام نے بتایا کہ سٹی کورٹ سے دہشت گردوں کے فرار پر 6 سی آئی ڈی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا گیا ہے، جسٹس امیر ہانی مسلم نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کی وہ کھڑکی بمشکل 14 انچ کی ہے جہاں سے 3 ملزم فرار ہوئے۔ اس کھڑکی سے بلی کا بچہ تو نکل سکتا ہے لیکن انسان نہیں، سٹی کورٹ سے فرار ملزمان کی سیکیورٹی پر تعینات افراد کے خلاف ایف آئی آر میں جو دفعات عائد کی گئیں ہیں وہ تمام قابل ضمانت ہیں، چیف سیکرٹری اس معاملے کی تحقیقاتی رپورٹ سمیت 17 جولائی کو خود عدالت میں پیش ہوں۔ جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ جو افسران عدالتی احکامات میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان کے نام بتائے جائیں۔ انہیں شوکاز جاری کریں گے۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے ایڈووکیٹ جنرل سے سوال کیا کہ آئی جی سندھ کہاں ہیں انہیں یہاں ہونا چاہئے۔ ایڈووکیٹ جنرل کا کہنا تھا کہ آئی جی کی طبیعت ناساز ہے۔ جس پر جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ ہمارے آتے ہی ان کی طبیعت کیوں خراب ہو گئی ہے۔ زمینوں کے ازسر نو ریکارڈ مرتب کرنے کے معاملے پر جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ کراچی میں 2011-12ءکے دوران بڑی تعداد میں زمینیں الاٹ کی گئیں، کم قیمت میں اتنی بڑی تعداد میں الاٹمنٹ کی وجوہات کون بتائے گا؟ جسٹس امیر ہانی مسلم نے سابق سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو شاہ زرشمعون کو چیئرمین اینٹی کرپشن بنانے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اب عدالت کو کرپشن کی تحقیقات کے لئے ایسے شخص سے رجوع کرنا ہو گا جو خود کرپشن میں ملوث ہے۔ جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ جو افسران سپریم کورٹ کے احکامات میں رکاوٹ بن رہے ہیں ان کے نام پیش کئے جائیں، انہیں شوکاز جاری کریں گے۔ بعدازاں سماعت 17 جولائی تک ملتوی کر دی گئی۔