جمعۃ المبارک‘ 29 ؍ جمادی الاوّل‘1439 ھ ‘ 16؍ فروری 2018ء
مسلسل شکست پر مایوس ہوں، لودھراں میں شکست کے بعد عمران خان کو سوچنا چاہئے: شیخ رشید
ویسے اب شیخ جی کے پاس رہ ہی کیا گیا ہے سوائے مایوسی کے۔ وہ جس ضمنی الیکشن کے جلسے میں خان صاحب کے ساتھ گئے اس کا رزلٹ سب کے سامنے ہے۔ ہر جگہ ناکامی شیخ رشید اور عمران خان کا منہ چڑاتی نظر آتی ہے۔ خان صاحب کے تو چہرے مہرے سے لگ رہا ہے کہ وہ خود بھی ان شکستوں سے چڑ گئے ہیں۔ جس کے بعد اب شیخ رشید نے بھی برملا مایوسی کا اظہار کردیا ہے۔اگر وہ اکبر بادشاہ کے نو رتنوں بیربل اور ملا دو پیادہ کی طرح دانا ہوتے تو عمران خان کو کبھی مایوسی کے دلدل میں گرنے نہ دیتے۔ کم از کم اور کچھ نہیں تو ان کا دل بہلانے کے لئے عامیانہ قسم کے لطیفے ہی انہیں سناتے تاکہ ان کا موڈ بحال رہتا ۔ مگر یہاں الٹ حساب ہے۔ الٹا شیخ جی اپنے خان صاحب کا موڈ مزید خراب کر رہے ہیں۔
شیخ صاحب نے شیخ چلی کی طرح ہرقدم پر خان کوصرف خواب ہی دکھائے وہ بھی ایسے جن کی تعبیر نہیں مل سکتی۔ اب لودھراں میں سب سے آخری خواب بھی جب ٹوٹا تو شیخ صاحب عمران کو ہی سوچنے کا کہہ رہے ہیں مگر اب یہ بات خان صاحب کو کون سمجھائے جو اپنے نو رتنوں کے مشوروں پر اس راہ پر چل رہے ہیں۔ اب عمران خان کو واقعی سوچنا ہو گا کہ تمام تر مقبولیت کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ کامیابی ان کے قریب آ کر بھی روٹھ جاتی ہے۔ شیخ رشید بھی یہی مشورہ دے رہے ہیں تو پھر دیر کس بات کی۔
…٭…٭…٭…
عادی درخواست گزار شاہد اورکزئی کی سپریم کورٹ کی تمام رجسٹریوں میں داخلے پر پابندی ۔
چلیں اس طرح کم از کم عدالتوں کا وقت ضائع کرنے والے عادی مجرموں سے کچھ تو نجات ملے گی۔ہمارے ہاں عادی درخواست گزاروں کے ایسے ٹولے ہر شہر میں پائے جاتے ہیں جو صرف اپنی دلی تسلی یا کسی اور کے مقاصد کی تکمیل کے لئے جائز یا ناجائز کسی ادارے یا شخص کیخلاف سرکاری محکموں اور عدالتوں میں درخواستیں بھیج کر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں۔ شکایت برحق ہو تو کوئی مضائقہ نہیں مگر عام طور پر یہ کام صرف وقت ضائع کرنے کیلئے کیا جاتا ہے۔ عدالتوں کے پاس پہلے ہی بے شمار مقدمات ہوتے ہیں۔ ان مقدمات کے انبار میں جب یہ عادی درخواست گزار اپنی درخواستیں بھی جمع کراتے ہیں تو لامحالہ اس سے عدالتوں کا وقت ضائع ہوتا ہے۔ کیونکہ ان بے معنی، لایعنی درخواستوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کا حقیقت حال سے کوئی تعلق ہوتا ہے۔
بس ایک شغل ہے جو یہ لوگ اپنائے ہوتے ہیں تاکہ لوگوں پر جھوٹا رُعب ڈال سکیں۔ انہی لوگوں میں شاہد اورکزئی صاحب بھی شامل ہیں جن کی ذات گرامی کا بڑا تعارف ہی یہ ہے کہ وہ ہر معاملے پر درخواست دینے میں پہلے نمبر پرہوتے ہیں اور یہ پیشہ ظاہر ہے بطور شغل ہی اپنایا ہو گا۔ ان کی اس درخواست بازی سے تنگ آ کر بالآخر سپریم کورٹ کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہو گیا اور عدالت عظمیٰ نے ان کی سپریم کورٹ کی تمام رجسٹریوں میں داخلہ ہی بند کر دیا ہے تاکہ انہیں مزید لچ تلنے کا موقعہ نہ ملے…
ملیر جیل میں قیدی کی بیٹی کے نکاح پر اسیروں کا رقص
جیلوں میں بند قیدی بھی انسان ہیں۔ اپنی سزا بھگت رہے ہیں۔ قید کا مقصد ہی اصلاح ہے تاکہ دوبارہ وہ یا کوئی اور ایسی حرکت نہ کرے۔ ان قیدیوں کو بھی خوشی اور غم ملتے ہیں۔ ان کا بھی حق ہے کہ وہ اس پر خوشی یا غم کا اظہار کریں۔ قریبی مرنے والوں کے جنازوں میں شرکت کیلئے قیدیوں کو عام طور پر پیرول پر رہائی ملتی ہے۔ وہ اس میں شرکت بھی کرتے ہیں۔مگر ایسا شاید ہی ہوا ہے کہ قیدی نے کسی شادی میں شرکت کی ہو۔ اب ملیر جیل میں ایک قیدی کی بیٹی کی شادی پراسے شرکت کی اجازت تو نہ ملی البتہ جیل ہی میں اس قیدی کی بیٹی کا نکاح کی تقریب منعقد ہوئی جو بہت اچھی اور بڑی بات ہے۔ یہ اچھا کام جاری رہنا چاہئے۔ اس طرح ایک باپ کو دوران قید بھی اپنی بیٹی کے نکاح میں شرکت کا موقع ملا اس سے قیدیوں پر اچھا اثر پڑ سکتا ہے۔ کیونکہ یہ قیدی بھی کسی کے باپ ، بھائی اوربیٹے ہوتے ہیں۔ اس طرح کی تقریبات میں شرکت سے ان کو احساس ہوتا ہو گا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کر چکے ہیں اپنے گھر والوں سے دوست احباب سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ یہی احساس ان میں اصلاح کا جذبہ بیدار کرتا ہے۔ اب ملیر جیل میں جس قیدی کی بیٹی کا نکاح تھا اس کی خوشی ساری جیل نے منائی کیا قیدی کیا نگران عملہ سب نے خوشیاں منائیں۔گانے گائے رقص کیا ویسے بھی کہتے ہیں ناں … ’’رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے‘‘ … اس کا عملی مظاہرہ ملیر جیل میں نظر آیا۔ان دکھی انسانوں نے بھی چند لمحے مسرت کے گزارے اور اس بیٹی کو ڈھیروں دعائیں دی ہونگی جس کی وجہ سے انہیں بھی چند لمحے عام آزاد انسانوں کی طرح مسرت سے گزارنے کا موقع ملا…
…٭…٭…٭…
پارلیمنٹ لاجز میں ہمارے کمروں کے تالوں میں کوئی ایلفی ڈال جاتا ہے:ارکان سینٹ کمیٹی
اب اگر یہ ارکان سینٹ کا بہانہ نہیں، ڈرامہ نہیں تو پھر اس بات پر تشویش بجا ہے۔ ویسے پارلیمنٹ لاجز میں جگہ جگہ کیمرے لگے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ بآسانی پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ کون یہ حرکت کرتا۔ ارکان سینٹ کی تاخیر سے اجلاس میں شرکت پر بڑی لے دے ہوتی ہے۔ چیئرمین سینٹ اکثر یہ شکوہ کرتے رہتے ہیںکہ ارکان بروقت اجلاسوں میں شرکت کے لئے نہیں پہنچتے۔ اب ان ارکان سینٹ نے شکوہ کیا ہے کہ کوئی انکے کمروں کے تالوں میں ایلفی ڈال جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ کمروں میں بند ہو جاتے ہیں اور تالے کھولنے میں کافی تاخیر ہوتی ہے۔ اب ظاہر ہے اس تاخیر کے سبب سینٹ کے اجلاس میں وہ تاخیر سے پہنچتے ہیں یا پھر جس وزیر نے آ کر جوابات دینے ہوتے ہیں ان کے آنے تک اجلاس کا وقت ختم ہو جاتا ہے۔ اب سینٹ کی کارروائی دیکھ کر تو اندازہ یہی ہوتا ہے کہ کوئی نا ہنجار شخص یا لوگ رات کو یہ کارروائی کرتے ہیں اور عرصہ دراز سے کر رہے ہیں۔ کیونکہ سینٹ کے اجلاس اکثر بے رونق ہوتے ہیں۔ چند ایک ممبران جمائیاں لیتے ٹائم پاس کرنے آتے ہیں یا اپنی حاضری لگوانے۔ مقررین صرف تقریر کرنے آتے ہیں۔ کیا معلوم یہ ایلفی بھی اک بہانہ ہو نہ آنے کا اور یہ ایلفی بھی وہ خود ہی ڈلواتے ہوں تاکہ بہانہ مستند بن سکے کہ ہم اس لئے وقت پر نہیں آ سکے۔
…٭…٭…٭…