مقبول بٹ جدوجہدآزادی کشمیرکا سنگ میل
فروری کا مہینہ دو کشمیری حریت پسندوں کی شہادت کے باعث جدوجہد آزادی کشمیر میں ایک سنگ میل کی حثئیت رکھتا ہے شہید کشمیر مقبول بٹ افضل گرو اور برہان وانی اشفاق مجید وانی جیسے سیکڑوں حریت پسندوں نے اپنی دھرتی کشمیر کیلئے اپنی خون سے ایک داستان رقم کی ہے جو کشمیری حریت پسندوں کیلئے مہمیز کا کام کرتی ہے قیام پاکستان سے پہلے کی یہ جدوجہد آزادی کشمیر ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھی جاری ہے اس دوران کئی کشمیری شہدا گمنام قبروں میں مدفون ہیں مگر بھارتی مظالم اگر ختم نہیں ہوئے تو کشمیریوں کا جذبہ آزادی بھی پوری طرح قائم ہے ،پوری دنیا میں پھیلے ہوئے کشمیریوں کو مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کی جدوجہد کو مزید تیز کرنا ہوگا اور مقبول بٹ اور افضل گرو کے جسد خاکی جیل سے حاصل کرنے کی جدوجہد بھی تیز کرنی ہوگی۔ اٹھارہ فروری 1938کو وادئی کشمیر کے ضلع کپواڑہ کی تحصیل ہندواڑہ کے ایک گائوں تریہگام میں ایک کسان غلام قادر بٹ کے گھر دھرتی کے اس عظیم بیٹے مقبول بٹ نے جنم لیا مقبول بٹ نے گریجویشن تک تعلیم بھارتی مقبوضہ وادء کشمیر سے ہی حاصل کی۔ 1958 میں ہجرت کر کے اپنے چچا کے ساتھ پاکستان آ گئے اور پشاورمیں سکونت اختیارکی جہاں سے اردو ادب میں ماسٹرز کیا 1961 میں پشاور سے کشمیری مہاجرین کی نشست پر الیکشن لڑا اور کامیابی حاصل کی اپریل 1965 میں مقبول بٹ نے قوم پرست سیاسی جماعت محاذ رائے شماری کی بنیاد رکھی 12 جولائی 1965 کو محاذ رائے شماری کا مسلح ونگ بنانے کی کوشش کی 13 اگست 1965 کو چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کرمحاذ رائے شماری کا خفیہ مسلح ونگ این ایل ایف تشکیل دیا10 جون 1966 کو کچھ ساتھیوں کے ہمراہ جنگ بندی لائن عبورکرکے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں چلے گئے بھارتی سیکورٹی فورسز کوان کی سرگرمیوں کا علم ہوگیا 14 ستمبر 1966 کوسیکورٹی فورسزکیساتھ جھڑپ ہوئی آپ کا ساتھی اورنگزیب شہید ہو گیا جبکہ کرائم برانچ سی آئی ڈی کا انسپکٹرامرچند بھی اس جھڑپ میں مارا گیا ۔مقبول بٹ کودوساتھیوں کے ساتھ گرفتار کرکے سری نگر سنٹرل جیل بھیج دیا گیا جہاں بغاوت اور امر چند کے قتل کامقدمہ چلایا گیا۔ اگست 1968 میں کشمیر ہائیکورٹ نے مقدمے میں سزائے موت سنائی 9 دسمبر 1968 کو آپ جیل کی دیواروں میں شگاف ڈال کرجیل سے فرارہوئے اوربرف پوش پہاڑوں کوعبورکر کے23 دسمبر 1968 کو چھمب کے مقام سے آزادکشمیر میں داخل ہوئے ۔ مگر 25 دسمبر 1968 کو مقبول بٹ کوگرفتارکرلیا گیا، محاذ رائے شماری، این ایل ایف اور این ایس ایف کے زبردست مظاہروں کے بعد آپ کو 8 مارچ 1969 کورہاکردیا گیا نومبر1969 میں آپ کومحاذ رائے شماری کامرکزی صدر بنا دیا گیا 30 جنوری 1971 کودو نوجوانوں ہاشم قریشی اوراشرف قریشی نے بھارت کا طیارہ اغوا کیا اورلاہور لے آئے ہائی جیکروں نے بھارتی جیلوں میں قید این ایل ایف کے دو درجن کارکنان کی رہائی کامطالبہ کیا بھارت نے مطالبہ تسلیم نہ کیاتومسافروں کورہا کرکے یکم فروری 1971 کو طیارے کو نذرِآتش کر دیا گیا ۔ حکومتِ پاکستان نے کوہاٹ میں آپ کے ساتھ مذاکرات کیئے جو کامیاب نہ ہوسکے چنانچہ حکومتِ پاکستان نے انہیں گرفتار کرلیا،دسمبر 1971 میں مقدمے کی عدالتی کارروائی شروع کی گئی۔مئی 1973 میں عدالت نے ہاشم قریشی کے علاوہ مقبول بٹ سمیت تمام گرفتارشدگان کو بری کردیا ۔ ہاشم قریشی کو چودہ سال قید کی سزا دی گئی مئی 1973 میں رہا ہونے کے بعد مقبول بٹ نے محاذ رائے شماری اور این ایل ایف کو دوبارہ منظم کرناشروع کیا ۔رہائی کے بعد منگلا قلعہ میں وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے مقبول بٹ سے مذاکرات کیئے اور پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کیلئے کہا مقبول بٹ نے انکار کردیا ،محاذ رائے شماری نے 1975 کے انتخابات میں حصہ لیا مقبول بٹ نے آزادکشمیر اسمبلی کے 1975 کے انتخابات میں دو نشستوں سے انتخابات میں حصہ لیا مگرکامیابی نہ ملی آزادکشمیر کی سیاست سے مایوس ہو کر مئی 1976 میں مقبول بٹ کچھ ساتھیوں کو لے کر پھرجنگ بندی لائن عبورکر کے بھارتی مقبوضہ کشمیر چلے گئے جہاں انہیں گرفتار کرلیا گیا ۔ اور سابقہ مقدمے کی فائل دوبارہ کھول دی گئی۔ہائیکورٹ تو پہلے ہی سزائے موت دے چکی تھی، بھارتی سپریم کورٹ نے بھی 1978 میں ہائیکورٹ کی دی گئی سزائے موت کو برقراررکھا ۔مقبول بٹ کو تہاڑ جیل دہلی میں منتقل کر دیا گیافروری 1984 کے پہلے ہفتے میں برطانیہ کے شہربرمنگھم میں چند کشمیریوں نے بھارتی قونصل خانے کے کلرک رویندرا مہاترے کواغوا کر کے مقبول بٹ کی رہائی کامطالبہ کیا مگرتین دن بعد مہاترے کی لاش ملی ۔ 11 فروری 1984 کومقبول بٹ کوپھانسی دیدی گئی۔ جسدِ خاکی کو ورثا کے حوالے کرنے کے بجائے جیل کے احاطے میں ہی دفن کردیا گیا۔