قوموں کی زندگی میں مشکل حالات آتے رہتے ہیں اور وہ موزوں حکمت عملی سے حالات پر قابو پا کر سرخرو ہوجاتی ہیں اور امر ہو جاتی ہیں یا پھر حالات کے سامنے گھٹے ٹیک کر لم لیٹ ہوجاتی ہیں اور وقت ان کو تاریخ کے پنوں سے ہمیشہ کے لئے غائب کر دیتا ہے ۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب یوں محسوس ہوا کہ اب صرف اندھیری رات ہے اور کوئی سورج اب طلوع نہیں ہو گا۔ ظلمتوں کی گھٹائیں اب یوں ہی صدا ہمارے سروں پر منڈلاتی رہیں گیں۔ اور شاید کہ اب غاصب ان کو نگل کر ہی دم لے گا تو پھر کہیں مصطفی کمال اتاترک آیا اور ٹوٹی ، بکھری ہوئی سلطنت کو پھر سے قدموں پر کھڑا کر دیا اور برصغیر میں ایک کمزور جسامت کے محمد علی جناح نے انگریز راج کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور ملک کو ناصرف انگریزوں سے نجات دلائی بلکہ ہندوئوں کی شاطرانہ اور عیار حکمت عملی سے بھی بچایا اور اپنا الگ تشخص اور نظریہ منوا کر پاکستان جو ایک دیوانے کا خواب لگتا تھا اسے تعبیر کیا۔ اس دور میں مسلمانوں کا ایک گروہ جو کہ کانگریس کے ساتھ تھا اور وہ ایک ہندوستان کی آزادی کا پرچار کر رہے تھے اور تقسیم کے خلاف تھے انہوں نے بھولے بھالے مسلمانوں کو ہر طرح سے ورغلانے کی کوشش کی کہ کسی طرح ہندوستان کی تقسیم نا ہو مگر قائداعظم اور ان کے رفقاء کی کوششیں اور 1937 کے انتخابات میں ہندو اکثریت اور اس کے نتیجے میں مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے گئے انہوں نے سب پر یہ واضع کر دیا کہ ہندو کبھی بھی مسلمانوں کہ وجود کو تسلیم نہیں کریں گے اور الگ وطن ہی اس کا حل ہے اور پھر وہ دن بھی آگیا جب مسلمانان برصغیر نے مملکت خدادا اسلامی جمہوریہ پاکستان کو حاصل کر لیا۔ اس موقع پر بھی خزانہ اور دیگر اثاثہ جات کی تقسیم میں بے پناہ خردبرد کی گئی اور نہرو نے کہا کہ بنا لینے دو ان کو پاکستان مگر یہ ملک چھ ماہ سے زیادہ نہیں چلے گا جس پر قائداعظم نے فرمایا کہ’’ دنیا میں کوئی ایسی طاقت نہیں کہ جو پاکستان کو ختم کر سکے‘‘۔ اور آج ہم اس بات کہ گواہ ہیں کہ جب پاکستان نے اپنا بہترواں یوم آزادی منایااور آج پاکستان ایک انتہائی مضبوط مملکت ہے۔ جس پر کوئی ملک بھی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا ۔ ہمیں فخر ہے اپنے جوانوں پر جو دفاع وطن پر مامور ہیں اور اس ملک کہ بحر و بر اور فضاوئوں کی سلامتی کو یقینی بنائے ہوئے ہیں۔
عمومی حالات میں جب بھی کسی کا یوم ولادت آتا ہے تو ہم اس کو خوشی سے ہی مناتے ہیں اور مبارکیں دیتے ہیں اور نیک تمنائوں کا اظہار کرتے ہیں ہم بھی ہر سال ایسے ہی اپنے ملک کے جشن آزادی کو بھرپور طریقے سے مناتے ہیں مگر اس بار ایسا نا ہو سکا۔ حالانکہ اس دفعہ تو خوشیوں کا ایک پورا پیکج آیا تھا جس میں عیدالضحی اور جشن آزادی ساتھ ساتھ آئے اور ہر چہرہ روشن اور شاداب تھا کیونکہ تہوار کے ساتھ ساتھ جشنِ آزادی نے تمام خوشیوں کو عروج پر پہنچا دیا تھا۔ مگر ایسے کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارا ازلی دشمن ہماری ان خوشیوں پر خوش ہو اور وہ ہمیشہ ہی اس طاق میں رہتا ہے کہ کس طرح ہمارے زخم لگائے اور وہ گھائو دے کے جن پر پورے ملک میں آہ و زاری ہو تو کبھی تو وہ ہمارے بچوں پر سکول میں گھس کر حملہ کرتا ہے اور کبھی نہتے نمازیوں پر کلبھوشن جیسے راء کہ ایجنٹوں سے بم بارود لے کر ان کو سجدوں میں ہی شہید کرتا ہے ۔ آج سلام ہماری افواج اور ہماری حکومتوں کو کہ جنہوں نے انتہائی مستعدی سے ان تمام دشمنوں کو ملک سے کھدیڑ کر باہر پھینکا۔ اب جب پاکستان کو کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت میں فتح ملی اور امریکہ نے بھی پاکستان کہ موقف کو تسلیم کیا اور پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر اپنی ثالثی کی خدمات پیش کیں تو پہلے تو بھارت اپنے وزیراعظم کے صدر ٹرمپ سے کئے ہوئے وعدے سے مکر گیا اور جب اُسے یہ لگا کہ اب یہ بات شاید اس کہ ہاتھ میں نہ رہے تو اس نے وہ ظلم ڈھایا کہ جس کا کبھی کسی نے سوچا نا تھا۔ بھارت جس کو پوری دنیا میں ایک سیکولر اور جمہوری ملک سمجھا جاتا تھا اس نے کشمیریوں کے حقوق پر ایک اور وار کیا اور اپنے ہی قانون میں شامل آرٹیکل 370 غاصبانہ طریقے سے ختم کر کے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیا ۔وادی میں انٹر نیٹ ، ٹیلی فون اور تمام مواصلاتی نظام مکمل طور پر بند ہے جس کی وجہ سے وہاں کی صورتحال کے بارے میں کسی کو بھی کوئی معلومات نہیں مل رہیں۔ ایسے حالات میں پاکستانی حکومت کے موثر ردِعمل کے باعث کشمیر کا معاملہ اب پوری دنیا کی توجہ حاصل کر چکا ہے اور پچاس سال کہ بعد اس مسلے پر سلامتی کونسل کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے ۔ جس میں چین ، امریکہ ، روس اور پولینڈ جو کہ غیر مستقل رُکن ہے ان سب نے کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و جبر پر تفتیش کا اظہار کیا ہے اور پاکستانی موقف کو تسلیم کیا ہے ۔ وزیراعظم عمران خان اور باقی اپوزیشن لیڈروں نے جس طرح آزاد کشمیر میں جا کر وہاں کہ لوگوں سے نا صرف اظہار یکجہتی کیا ہے بلکہ انہیں اپنی بھرپور مدد کا بھی یقین دلایا ہے یہ بلاشبہ ایک قابل ستائش عمل ہے ۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور اس پر کسی قسم کی سیاست قبول نہیں کی جا سکتی ۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ جیسے وزیراعظم نے وعدہ کیا ہے کہ اب دنیا میں کشمیریوں کے سفیر بنیں گے اور اس مسلے کو عالمی سطح پر نمایاں کریں گے انشااللہ وہ دن دور نہیں کہ جب کشمیر پر ظلمت کے سائے چھٹ جائیں گے اور آزادی کا سورج طلوع ہو گا۔ پورا پاکستان آ ج کشمیروں پر ہونے والے مظالم کے خلاف یک زبان ہے اور اگر ضرورت پڑی تو تمام قوم اپنے لہو کا نذرانہ دے کر بھی کشمیر کی آزادی کا پرچم بلند کرے گی۔انشااللہ
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024