آئین کی دفعات63 -62 کو ختم نہیں کیا جاسکتا‘اعجاز الحق
راولپنڈی (عزیز علوی+ سلطان سکندر) سابق وفاقی وزیر‘ پاکستان مسلم لیگ (ضیاءالحق) کے صدر اور قومی اسمبلی کے رکن محمد اعجاز الحق نے اس بات پر زوردیا ہے کہ سپریم کورٹ سانحہ بہاولپور کے بارے میں جسٹس شفیع الرحمان کمشن کی سفارشات کے مطابق کرمنل انکوائری کرنے کے لئے جے آئی ٹی تشکیل دے کیونکہ اس واقعہ میں صرف جنرل ضیاءالحق ہی شہید نہیں ہوئے بلکہ یہ پاکستان کی سلامتی کے خلاف بہت بڑی سازش تھی اگر اس وقت صحیح تحقیقات نہ ہوئی تو آئندہ ملک کے سربراہان کے خلاف ایسے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ ماضی میں پرویز مشرف پر دوبار اور شوکت عزیز پر ایک بار حملہ ہوا جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر حملہ جان لیوا ثابت ہوا۔ شہداءبہاولپور کی 29 برسی کے حوالے سے منگل کو یہاں اپنے دفتر میں نوائے وقت کو پینل انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ سانحہ بہاولپور کو 29 سال ہو گئے ہیں یہ حکومت اور فوج کا کام تھا کہ اس سازش کو بے نقاب کرتے‘ اس بارے میں بندیال کمشن‘ شجاعت کمشن اور جسٹس شفیع الرحمان کمشن بنائے گئے تھے ابھی تک حکومت نے جسٹس شفیع الرحمان کمشن کی رپورٹ پر عملدرآمد نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ 17 اگست کو ہم شہداءبہاولپور کی برسی پر شہید ضیاءالحق کی نظریہ پاکستان کے مطابق ملکی نظام استوار کرنے کی کوششوں پر روشنی ڈالیں گے جنہوں نے قرارداد مقاصد کو آئین کا حصہ بنایا‘ زکوةٰ عشر اور صلوةٰ کا نظام قائم کیا۔ شرعی عدالت بنائی‘ 63, 62 کی شق آئین میں شامل کی۔ آئین کو اسلامی رنگ دیا چیک اینڈ بیلنس کو آئین میں شامل کیا اگرچہ 58‘ 2۔ بی کے تحت چند حکومتوں کو کرپشن اور دیگر وجوہ پر ختم کیا گیا لیکن جب یہ شق ختم کی گئی تو دوبارہ مارشل لاءآگیا۔ 58۔ ٹو۔ بی کی شق مارشل لاءکو روکنے کے لئے سیفٹی والو کا کام دے رہی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے 97 فی صد عوام اسلام پسند ہیں جبکہ چند سیکولر عناصر روشن خیالی کے نام پر آئین میں اسلامی شقوں کو ختم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں آئین کی دفعات 63, 62 پر بحث تو کی جا سکتی ہے لیکن اسے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ اسے مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اس طرح حدود آرڈیننس اور توہین رسالت کے قانون کو چھیڑنے کی جسارت نہیں کرنی چاہئے۔ آج ہم افغان جہاد کا ذکر کرنے سے گھبراتے اور شرماتے ہیں۔ اس کا موجودہ صورت حال سے تقابل کیا جائے۔ افغان جہاد کے دوران ایک امریکی کو بھی پاکستان اور افغانستان کی سرزمین پر اترنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ کلاشنکوف کلچر کو افغان جہاد سے منسوب کرنا خلاف حقیقت ہے 1970ءمیں پیپلز پارٹی کی حکومت نے بلوچستان میں فوج کشی کی تو بلوچ قیادت جلا وطن ہو گئی۔ بلوچ قوم پہاڑوں پر چلی گئی اس دوران غیر ملکی اسلحہ اور بیرون ملک ان کے مراکز بنے‘ اس دور میں دہشت گردی سیاست میں آئی۔ الذوالفقار بنی جبکہ گزشتہ پانچ سالہ دور میں سندھ کے وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا نے لیاری میں کہا کہ کلاشنکوف کے ساڑھے چار لاکھ لائسنس چڑیاں مارنے کے لئے نہیں بلکہ بندے مارنے کے لئے دیئے گئے ہیں۔