گورنر ہائوس داخل ہوئی تو یوں لگتا تھا جیسے رنگوں کی بہار آئی ہو۔رنگ برنگِ ملبوسات میں ملبوس سکھ مردوخواتین کے ہاتھوںمیں کیمرے تھے،ان کے چہروں سے خوشی عیاں تھی ۔9نومبر سے پہلے ہی لاہور کے ہر ہوٹل میں سکھ دیکھنے میں آئے ،یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ہر طرف سکھ ہی سکھ ہیں ،ہر شہر اپنے باسیوں اور ان سے منسلک رونقوں سے پہچانا جاتا ہے . شہرِ کراچی کی یہ رونق لیاری کے مختلف لہجوں سے ہوتی ہے ۔اسکے منفرد رنگ پرانی عمارتوں، ایرانی ہوٹلوں اور بوڑھے پارسی ہیں۔لیکن گزشتہ روز لاہور میں سکھوں کا رنگ ایسا غالب ہوا کہ اسکی شناخت بھی ایک دن کیلئے سکھوں سے ہونے لگی ۔سکھ مذہب کو دنیا کے پانچویں بڑے مذہب کا درجہ حاصل ہے. دنیا بھر میں سکھ آبادی تقریباً 3 کروڑ کو پہنچنے والی ہے، مگر پاکستان میں انکی تعداد محض چند ہزار ہے اور اس کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی کراچی میں مقیم ہے۔ لاہور میں سکھ آٹے میں نمک کے برابر ہیں لیکن اس کے باوجود جو میلہ’’ سرور بھائی ‘‘نے گورنر ہائوس میں سجایا ،اس میں ہر طرف سکھ ہی سکھ نظر آئے ۔بیگم پروین سرور کے ساتھ نیچے آئے تو سٹیج سج چکا تھا ۔سکھوں کی مرکزی قیادت بھی سٹیج پر براجماںتھی ۔تلاوت قرآن پاک کے علاوہ تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ہر مقر ر نے اپنے اپنے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا لیکن سب سے متاثرکن تقریر بھی ’’سروربھائی ‘‘ نے کی ۔سکھ یاتری زوردار تالیاں بجا کر داد دے رہے تھے ، تالیوںکی گونج گواہی دے رہی تھی کہ میلہ سجانے والے نے میلہ لوٹ بھی لیا ہے۔انکی تقریر عوامی تھی اور انھوں نے عوامی انداز میں ہی اظہار خیال کیا ہے۔بعد ازاںپرتکلف کھانے پر رسمی گپ شپ سے یوں محسوس ہوا جیسے سکھ یاتری پاکستان سے ’’ دل وجان‘‘ سے محبت کرتے ہیں ۔گورنر ہائوس میں بھی کرتارپور جیساہی رش نظر آرہا تھا ۔ یاتری خوشی سے نہال تھے ،کرتار پور رہداری کو جس طرح بروقت مکمل کیا گیا اس کا سہرا بھی ’’مذہبی سیاحت و قومی ورثہ‘‘کو جاتا ہے ۔بھارت مختلف مواقع پر پاکستان کو اشتعال دلا کر کرتار پور منصوبہ کو بند کروانے میں ناکام رہا ہے اور بھارت کو اب کرتارپور منصوبہ آسانی سے ہضم نہیں ہورہا مگر دنیا بھر کے سکھ آج بھی پاکستان کیساتھ کھڑے ہیں۔ صرف پنجاب میں مذہبی سیاحت کے فروغ سے سالانہ 5ارب ڈالرز حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے صوبے میں کامیاب سکھ سیاحت کے بعد دیگر مذہبی سیاحت کا بھی اعلان کر دیا ہے۔ ایک سال پہلے مذہبی سیاحت کی بات ہوئی تھی، آج سکھ سیاحت کو فروغ دیا جا رہا ہے،کرتارپور کی یہ ’’سیاحت ‘‘ کامیاب ہو گی ۔دنیا کے بے شمار ممالک سیاحت سے زرمبادلہ کما رہے ہیں ،لیکن ہم اس سلسلے میں کافی پیچھے تھے ،اب حکومت نے مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے امید ہے جلد ہی سیاحت ہماری ترجیح اول بن جائے گی ۔
’’سکھوں کو ریلیف عوام کو جھٹکا‘‘
9نومبر اور12نومبر کو حکومت نے سکھوں سے’’ فیس‘‘ نہیں لی جو مناسب نہیں ۔حکومت اگر اس دن ان سے 100ڈالر بھی لیتی تو وہ دینے کیلئے تیار بیٹھے تھے ۔ہم اسی رقم کو اپنے عوام پر خرچ کر کے انھیں سہولیات پہنچا سکتے تھے۔ دنیا کے کسی ملک میں ایسا نہیں ہوتا۔جن ملکوں کے ہم ’’قصیدے‘‘ پڑھتے ہیں، انھوں نے بھی ہمیں کبھی ویزہ فیس میں رعایت نہیں دی ۔لیکن ہم دوسروں کو ریلیف فراہم کر کے اپنے ملک کے عوام کو مہنگائی میں دھکیل رہے ہیں ۔ان پیسوں سے ہم بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر ریلیف تو فراہم کر سکتے تھے ۔لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا ۔ملک بھر میں مہنگائی کا جن ’’بے قابو‘‘ ہے خاص طور پر روز مرّہ کھانوں میں استعمال کیا جانے والا ٹماٹر قیمتی ’’شے ‘‘بن چکا ہے۔ موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی خشک میوہ جات خاص طور پر چلغوزے کی قیمت بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔اس تمام تر صورتحال میں ’’ عوام پریشان‘‘ ہیں ۔اب تو لوگوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ ’ ’ ٹماٹر اور چلغوزے کا گلدستہ شادی میں قابل قبول تحفہ ہے‘‘لیکن ہمارے وزرا ء جو کبھی بھی عوام میں نہیں گئے بلکہ ہر حکومت میں فرنٹ سیٹ سنبھال لیتے ہیں انھیں کیا علم کہ ٹماٹر کا بہائوکیا ہے ؟یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں ،اگر وہ عوام کو سہولیات نہیں پہنچا سکتے تو انھیں تکلیف تو مت پہنچائیں ۔ایک آدمی ڈیفنس میں رہتا ہے وہ اسی کیمطابق وہاں سے اشیاء خریدے گا ،جو گڑھی شاہو رہتے ہیں وہ اپنے علاقے سے خریدے گا ۔لازمی طور پر دونوں علاقوں کے ریٹ بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوں گے ۔اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اتار چڑھائو معمول کا معاملہ ہے لیکن یہ معمول کا معاملہ جب "مسئلہ" بن جائے تو اسکے محرکات ہوتے ہیں، اسکے پیچھے ذخیرہ اندوزوں کی ہوس اور ’’حکومتی نااہلی‘‘ بھی ہوتی ہے۔ سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اسکی ذمہ دار حکومت ہے، جس نے رسد اور طلب جیسی معاشی اصطلاح کو نظر انداز کیا اور قبل از وقت اقدامات نہیں اٹھائے۔ کیا صرف ٹماٹر اور مٹر، گوبھی اور دیگر سبزیاں ہی مہنگی ہوئی ہیں یا اشیائے ضروریہ ہی نہیں دیگر چیزیں بھی مہنگی ہوئی ہیں ۔کوئی بھی حکومت اسی وقت تک عوام الناس میں مقبول رہ سکتی ہے، جب تک عام آدمی کی زندگی میں سہولت لانے کیلئے وہ عملی اقدامات نہ اٹھائے ،اسلیے موجودہ حکومت بھی عوام کو ریلیف پہنچائے ۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024