مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور پوری دنیا میں پھیلے کشمیری 1947ءسے آج تک14 اگست آزادی¿ پاکستان کو جشن کے طور پر اور15 اگست یوم آزادی¿ ہندوستان کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں۔ سری نگر میں واقع قلعہ ہری پربت جس میں بھارتی افواج اپنے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ اس پر کئی مرتبہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہوئے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں اور جب بھی پاکستان کی ہاکی ٹیم یا کرکٹ ٹیم بھارتی ٹیم کو شکست دیتی ہے تو اس کی فتح کا جشن منایا جاتا ہے اور اس دوران بھی کئی معصوم کشمیریوں کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ 25دسمبر یوم ولادت حضرت قائداعظمؒ کے روز پاکستان اور بھارت کے درمیان ٹونٹی ٹونٹی کرکٹ میچ کھیلا جا رہا تھا اسی دوران میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سینئر رہنما جناب پروفیسر عبدالغنی بٹ اور دیگر راہنماﺅں سے ملاقات کے لئے ان کی قیام گاہ پہنچا تو اطلاع ملنے پر پروفیسر صاحب اپنی قیام گاہ سے باہر تشریف لے آئے اور مجھے جلدی جلدی اندر کمرے میں لے گئے جلدی کی وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کھیلا جا رہا ہے۔ اسلئے وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے پورا میچ ان کے ساتھ دیکھا وہ تمام وقت پاکستان کی جیت کیلئے دعا کرتے رہے۔ ان کا جذبہ قابل دید تھا۔ کھیل کے دوران انہوں نے گفتگو میں کوئی خاص دلچسپی نہ لی اور انہوں نے کہا کہ میچ کے بعد گفتگو کا آغاز کریں گے۔ جب تک پاکستانی ٹیم جیت نہ گئی وہ بے چین رہے۔ میں ان کی شخصیت سے پہلے ہی بہت متاثر تھا لیکن اس کیفیت کے بعد میرے دل میں ان کی قدر و منزلت میں اس قدر اضافہ ہوا کہ میرے لئے بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کہنے لگے کہ بھائی پاکستان ہمارے لئے بہت مقدس ہے۔ ہم اس کو کسی میدان یا معرکہ میں ناکام نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے ہی جذبات و احساسات اکثر کشمیریوں میں پائے جاتے ہیں۔ ان زندہ جذبوں کی وجہ سے ہی 65 سالوں سے بھارت کے ساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ بھارتی ظلم و بربریت میں 6لاکھ سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں،40 ہزار بچے یتیم اور 25 ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہو چکی ہیں۔ اربوں روپے کی املاک کو نذر آتش کیا جا چکا ہے اور یہ نہ رکنے والا طوفان جاری ہے۔ گفتگو شروع ہوئی تو کہنے لگے کہ ہم خوش نصیب ہیں کہ زندگی میں پہلی بار حضرت قائداعظم کا یوم ولادت ان کی جدوجہد میں آزاد ہونے والے پاکستان میں منا رہے ہیں۔ انہوں نے خواب میں قائداعظم کے ساتھ ملاقات کا بہت بڑا واقعہ سنایا قائد نے ان سے کہا کہ اپنی جدوجہد جارری رکھنا انشاءاللہ یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو گی۔ پروفیسر صاحب نے مجھ سے خواب کے بقیہ حصے کو کسی سے ذکر نہ کرنے کی ہدایت کی بلاشبہ یہ لوگ خراج تحسین کے مستحق ہیں اور پاکستانیوں سے بڑھ کر پاکستانی ہیں جو آج تک تکمیل پاکستان کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ پاکستان بننا بہت بڑا معجزہ تھا اور تحریک کیلئے قائداعظم کا انتخاب بھی منشائے اللہ تعالیٰ اور منشائے رسول پاک تھا۔ تحریک آزادی¿ کشمیر کیلئے بھی اللہ تعالیٰ نے نیک اور مخلص لوگوں کا انتخاب کیا ہے۔ مرد وزن نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ انشاءاللہ تعالیٰ تحریک آزادی ضرور اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی لیکن حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ کشمیریوں کے وکیل پاکستان کو مصلحت اور مجبوری سے نکل کر ان کی وکالت کرنی پڑے گی اور یہ خود پاکستان کے مفاد میں بھی ہے۔ آج تک بھارت کی یہ خواہش اور کوشش رہی ہے کہ مسئلہ کشمیر، سیاچن، سرکریک، آبی ذخائر اور دیگر وہ بنیادی مسائل جن کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگیں ہو چکی ہیں ان کو سائیڈ لائن کر کے پاکستان کے ساتھ تجارت، سیاحت، ثقافت اور دیگر شعبوں میں پیش رفت بھارتی شرائط کی بنیاد پر ہوں۔ ہمارے خیال میں بھارت خاصی حد تک اپنی چالوں میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ہمیں کشمیریوں کی مرضی اور منشا کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے سے پہلے پاکستان کی شہ رگ کو اس سے آزاد کرانا ہو گا۔ پانچ سال کے بعد آل پارٹیز حریت کانفرنس کے رہنماﺅں کے دورے میں ملاقاتوں کا سلسلہ وسیع ہوا ہے۔
نواز شریف، شہباز شریف، لیاقت بلوچ، راجہ فاروق حیدر، شاہ غلام قادر، عمران خان، صدر اور وزیراعظم کے علاوہ جماعت الدعوة اور جمعیت اہل حدیث اور دیگر سیاسی راہنماﺅں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ حریت رہنماﺅں نے یہ کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات کے ہم خلاف نہیں ہیں لیکن یہ تعلقات کشمیریوں کی 65 سالہ جدوجہد کی قیمت پر نہیں ہونے چاہئیں اور جب بھی مذاکرات ہوں تو اس میں اصل فریق کشمیریوں کو شامل کیاجانا اشد ضروری ہے کیونکہ یہ دو ملکوں کے درمیان کسی خطہ زمین کا جھگڑا نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد کشمیریوں کی زندگی وموت کا مسئلہ ہے۔ ہم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق آزادانہ حق خود ارادیت چاہتے ہیں۔ حریت رہنماﺅں نے اس بات کا بھی خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2014ءتک پاکستان اور بھارت میں مفاہمت نہ ہوئی تو کشمیر میں طالبان آ سکتے ہیں جس سے خود بھارت کیلئے بھی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ انہوں نے دورہ پاکستان کے دوران یہ بھی محسوس کیا کہ اندرونی انتشار کی وجہ سے فی الوقت مسئلہ کشمیر پاکستانی حکومت کی ترجیحات میں سرفہرست نہیں ہے۔ امریکہ اور اتحادی بری طرح افغان جنگ میں پھنس چکے ہیں اور روس کے انجام سے بھی خوفزدہ ہیں امریکہ تیزی سے اقتصادی بدحالی کی طرف گامزن ہے۔ 2014ءتک امریکہ افغانستان سے نکلنا چاہتا ہے اور وہ یہ کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ وہ طالبان سے شکست کھا کر نکلے۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے مفاد کی جنگ لڑنے کی بجائے امریکہ کی ایک کال پر ان کی ہرشرط مان لی۔ اگر وہ اس وقت چاہتے تو کم از کم پاکستان کے واجب ا لادا قرضہ جات معاف کروا سکتے تھے اور دیگر شرائط منوا سکتے تھے کیونکہ امریکہ پاکستان کے بغیر افغانستان میں پیش قدمی نہیں کر سکتا تھا۔ خود امریکیوں نے یہ بات کہی ہے کہ ہمیں اس قدر امید نہ تھی کہ پاکستان بغیر کوئی اپنی شرائط منوائے ہماری بات مان لے گا۔ فرد واحد کے اس فیصلے نے پاکستان کو امریکہ کے مفادات کی جنگ میں دھکیل دیا۔ جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہے ہیں ا ور نہ ختم ہونے والے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی غیر محفوظ کر دیا گیا۔
اب امریکی خطے میں بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہے ہیں جو کسی طرح بھی پاکستان کے مفاد میں نہیں۔ چند ماہ کی تجارت سے ملک کو کروڑوں ڈالرز کا نقصان ہو چکا ہے۔ بجلی اور گیس کی بندش کی وجہ سے بے شمار کارخانے بند ہو چکے ہیں۔ بڑی تعداد میں انڈسٹری بنگلہ دیش، تھائی لینڈ، سنگا پور، ملیشیا، دوبئی اور دیگر ممالک میں منتقل ہو چکی ہے۔ ملکی وسائل میں انڈسٹری اور زراعت ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں۔ موجودہ دور حکومت میں دونوں شعبوں کو بری طرح سے تباہ کر دیا گیا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے روز گار ہو چکے ہیں اور ا پنے بچوں کے ساتھ خود کشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان کا ہر فرد کسی مسیحا کی تلاش میں ہے۔ ہمارے خیال میں عوام آنے والے شفاف جنرل انتخابات کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ حکمرانوں نے پاکستان اور اس کی عوام کے ساتھ جو کھلواڑ کیا ہے اس کا انتقام ووٹ کی پرچی کے ذریعے لینا چاہتے ہیں لیکن کچھ طاقتیں جمہوریت کو ڈی ریل اور الیکشن کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہیں۔ خدانخواستہ وہ اگر اپنے ان مقاصد میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024