کیا ہی اچھا ہو یوم آزادی پر کوئی سیاسی گفتگو نہ کی جائے، یوم آزادی کے موقع پر تمام سیاست دان، حکمران اور اہم شخصیات اس دن تمام ذاتی و سیاسی اختلافات بھلا کر صرف اور صرف پاکستان کی بات کریں۔ دو قومی نظریے پر بات کریں۔ ہمارے بزرگوں کی قربانیوں پر بات کریں۔ اس تحریک کو یاد کریں جس کے ذریعے ہم ایک الگ، آزاد و خود مختار ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم چودہ اگست کو صرف اور صرف آزادی کی قدر و قیمت، آزادی کے حصول اور اسے قائم رکھنے کے فلسفے پر بات کریں۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوتا۔ ہم اپنی تاریخ کے سب سے اہم دن کو بھی سیاست کی نذر کر دیتے ہیں۔ ہم جھنڈے لگاتے ہیں، فیس پینٹنگ کرواتے ہیں، جھنڈیاں لگاتے ہیں، گھروں، عمارتوں کو سجاتے ہیں، سیاسی جماعتیں تقریبات کا انعقاد کرتی ہیں لیکن یہ سب کرتے ہوئے ہم تحریک پاکستان کے ہیروز کو بھول جاتے ہیں۔ ہمارے بزرگوں نے کن حالات میں وطن حاصل کرنے کی تحریک چلائی، کن مسائل سے گذرتے ہوئے وہ آزاد ملک حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کن حالات میں ہجرت کی، وہ کن مصائب کو برداشت کرتے ہوئے پاکستان پہنچے۔ اس سفر میں انہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کتنے شہید و زخمی ہوئے کن حالات میں ہجرت ہوئی۔ یہ سب واقعات دہراتے رہنے چاہییں بدقسمتی سے ہم یہ سب نہیں کرتے اور یوم آزادی جیسے اہم اور تاریخی دن کو بھی سیاسی بیانات میں گذار دیتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس نظریے پر بات کرنے کی ضرورت رہتی ہے جس نظریے کی بنیاد پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا وہ نظریہ دو قومی نظریہ ہے۔
چودہ مئی انیس سو ستاون کے نوائے وقت میں محترمہ فاطمہ جناح کا دو قومی نظریے کے حوالے سے ایک بیان شائع ہوا تھا۔ مادر ملت نے فرمایا تھا کہ اگر خدانخواستہ یہ نظریہ ختم ہو گیا تو وہ بنیاد ہی ختم ہو جائے گی جو قیام پاکستان کی وجہ بنی۔ جب بنیاد ہی گر گئی تو اس پر تعمیر کردہ عمارت کب تک قائم رہ سکے گی؟ یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ اس وقت چاروں طرف سے اس بنیاد پر حملے جاری ہیں۔ گاندھی اور نہرو نے سرتوڑ کوشش کی کہ پاکستان کا نظریہ تسلیم نہ کیاجائے اور پاکستان قائم نہ ہو سکے لیکن قائد اعظم محمد علی جناح کے تدبر و استقلال اور مسلمانوں کے اتحاد و تنظیم کے سامنے وہ ناکام ہوئے۔ بالاخر کانگریس کو بھی پاکستان کا مطالبہ ماننا پڑا۔ قیام پاکستان کے فوری بعد بھارتی حکومت نے پے درپے پاکستان کو ختم کرنے کے لیے مختلف حربے کیے، پاکستانی علاقوں پر جارحانہ قبضہ کیا گیا۔ پاکستان کا اقتصادی گلا گھونٹنے کی کوشش کی گئی، پاکستان کی نہروں کا پانی بند کر کے اس ملک کے بہترین زرعی علاقے کو بنجر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا مگر بھارت کا کوئی حربہ پاکستان کو ختم نہیں کر سکا۔ نہرو اور پٹیل کا خیال تھا کہ پاکستان ایک سال کے اندر اندر خودبخود ختم ہو جائے گا۔ مگر بھارت کی کوششوں اور پاکستان کے اہل سیاست کی بے تدبیریوں کے باوجود فوجی، اقتصادی اور معاشی اعتبار سے پاکستان انیس سو سینتالیس سے کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اب پاکستان پر ایک نیا حملہ شروع کیا گیا ہے اور افسوسناک بات ہے کہ یہ حملہ اندر سے شروع کیا گیا ہے یہ حملہ نظریہ پاکستان کے خلاف ہے۔ یعنی اب پاکستان کی بنیاد ہی ڈھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ تمام عناصر جو قیام پاکستان سے پہلے نظریہ پاکستان کے مخالف تھے اور جو آج بھی اس نظریے کے مخالف ہیں وہ جمع ہو چکے ہیں۔ نہرو کے پرانے ساتھی جو آج بھی گاندھی سے اپنی نسبت پر فخر کرتے ہیں۔ ایک جتھ بنا کر نظریہ پاکستان یعنی پاکستان کی بنیاد کو ڈھانے کی ناپاک کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے نظریہ پاکستان کے حامی کب خواب غفلت سے بیدار ہونگے، ان کے آپس کے اختلافات اور باہمی لڑائیاں کب ختم ہونگی۔ کیا اقتدار یا وزارت کی کرسیاں پاکستان سے بھی زیادہ اہم ہیں۔ نہرو باہر سے پاکستان کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کے پرانے ساتھی نظریہ پاکستان کے پرانے دشمن اندر سے اس کا ہاتھ بٹا رہے ہیں۔ کیا اس وقت وزارت پاکستان کی حفاظت سے زیادہ اہم ہے۔ آپ کے مادی نقصان کی تلافی تو ہر وقت ممکن ہے لیکن پاکستان کا نظریہ ہی ختم ہو گیا تو اس نقصان عظیم کی کبھی تلافی نہ ہو سکے گی۔
بارہ مئی انیس سو ستاون کو مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا بیان کچھ یوں شائع ہوا۔" نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے ملک میں مضبوط اور بیدار رائے عامہ پیدا کریں۔ مادر ملت نے فرمایا کہ ملک کی سیاسی اور پارلیمانی زندگی کا یہ بڑا تکلیف دہ پہلو ہے کہ لوگ انتہائی بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وعدے توڑ دیتے ہیں اور سیاسی مفاد کی خاطر سیاسی جماعتیں بدلتے رہتے ہیں۔ یہ طرز عمل جمہوری اداروں کے فروغ میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے اور ملک کے سیاسی استحکام کے راستے میں حائل ہوتا ہے۔ اگر کسی مغربی ملک میں کوئی نمائندہ ایسی حرکت کرے تو اس کی سیاسی زندگی کا جنازہ نکل جاتا ہے۔
مادر ملت کے یہ بیانات بتاتے ہیں کہ شروع سے ہی ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کا مقصد ہی اقتدارِ میں رہنا تھا سب نے وزارت کو اہمیت دی، کرسی کو مقدم جانا۔ پاکستان کیوں قائم ہوا اس نظریے کو قیام پاکستان کے بعد نظر انداز کرنے کا شروع ہونے والا سلسلہ آج عروج پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج حکمران بھارت نواز پالیسیوں میں آگے آگے نظر آتے ہیں بھارت حملے کرتا ہے اور ہم امن کا پیغام دیتے ہوئے نہیں تھکتے۔ آج بھی صدر پاکستان عارف علوی یہ یاد کروا رہے ہیں کہ بھارت کی جارحیت پر ہم نے امن کا پیغام دیا۔ ان سے پہلے جو حکمران تھے وہ بھارتی حکمرانوں کو تحائف بھیجتے نہیں تھکتے تھے، وہ تقسیم کو لکیر قرار دیتے رہے۔ نریندرا مودی جیسے تعصب پسند حکمران کو اپنے گھر دعوت دیتے رہے۔ دوسری طرف بھارت ہے کہ سازشوں اور پاکستان دشمنی کا نہرو سے شروع ہونے والا سلسلہ نریندرا مودی تک بغیر کسی وقفے سے جاری ہے بلکہ اس میں شدت ہی آئی ہے۔ کمزوری تو ہمیشہ ہی ہماری طرف سے رہی ہے۔ قیام پاکستان کے فوری بعد بھی ہم اپنی بنیاد پر بات کرنے اور اسے مضبوط کرنے کے بجائے محلاتی سازشوں میں لگے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ سیاست دان تھوک کے حساب سے سیاسی وفاداریاں بدلتے ہیں اور ہر دور میں عوام پر مسلط رہتے ہیں۔ یہی حال ووٹرز کا ہے وہ ہر مرتبہ ایک ہی شخص کو مختلف جماعت میں ووٹ ڈال کر اسمبلی میں بھیج دیتے ہیں۔
چودہ اگست کو کتنے سیاست دان اور حکمران تھے جنہوں نے نظریہ پاکستان کے حوالے سے بات کی ہے۔ شاید ایک بھی نہیں ہے۔ شاید کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے، شاید کوئی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا، آج ہم بھارت کے ساتھ تعلقات کے لیے کوششیں کرتے رہتے ہیں اور وہ ہر وقت ہمارے فوجیوں اور نہتے شہریوں پر گولیاں برساتے ہیں۔ وہ اپنے نظریے پر قائم ہیں ہم اپنے راستے سے بھٹکے ہیں۔ اس فتنوں بھرے دور میں جب ہر شخص صرف اپنی کرسی بچانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔ نظریہ پاکستان کے فروغ اور ترقی کے لیے کام کرنے قومی خدمت ہے۔ امام صحافت، آبروئے صحافت مجید نظامی مرحوم کا کردار سنہرے حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔ انہوں نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح، شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال اور محترمہ فاطمہ جناح کا پیغام عوام تک پہنچانے کی ذمہ داری بہترین انداز میں نبھائی ہے۔ نظریہ پاکستان اور ایوان کارکنان تحریک پاکستان کے ذریعے انہوں نے تحریک پاکستان کے کارکنوں کو بھی قوم کے سامنے پیش کیا۔ حکومتوں نے ہر دور میں اس اہم ترین شعبے کو نظر انداز کیا ہے۔ مجید نظامی کے انتقال کے بعد ملک بھر میں کوئی دوسرا نہیں ہے جو نظریہ پاکستان کے حوالے سے اتنی شدت کے ساتھ قائم ہو اور اس نظریے کے فروغ کے لیے کام کرتا ہوا دکھائی دے۔ بہرحال ہماری اس بنیاد کو مضبوط بنانے کے لیے تمام تر ذمہ داری نظریہ پاکستان ٹرسٹ پر ہی عائد ہوتی ہے۔ سیاست دان قوم پر رحم کرتے ہوئے اس دن کو سیاست سے پاک کریں تو یہ ان کا قوم پر احسان ہو گا۔ قوم کو متحد کرنے اور دشمن کو اتحاد کا پیغام دینے کے لیے ایسے اقدامات کرنا ہوں گے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024