دن بہت تیزی سے گزرنے لگے۔ تمام انتظامات مکمل کرنے اور دوستوں کو الوداع کہنے کےلئے مجھے بہت بھاگ دوڑ کرنی پڑی۔ میں جب ان انتظامات کی تیاری میں گھرا تھا تو عدالت خان خاموشی سے میرا سارا سامان پیک کرتا رہا جو اب کئی درجن صندوقوں تک بڑھ چکا تھا اور یہ تمام صندوق مکمل طور پر بھرے ہوئے تھے۔ عدالت کےساتھ13اگست کو میں دہلی ریلوے کے بڑے اسٹیشن پر پہنچا۔ تمام سامان بھی ساتھ تھا۔ وہاں مجھے پتہ چلا کہ پاکستان جانیوالی سپیشل ٹرینوں کے ساتھ تاحال محافظ دستے مہیا نہیں کئے جارہے تھے۔ اس سے بہرحال مجھے زیادہ پریشانی اس لئے بھی نہ ہوئی کیونکہ سڑک والے قافلوں کی نسبت ٹرین کے مسافروں پر حملوں کا تاحال کوئی خاص خطرہ نہ تھا۔ میں نے عدالت خان کوتنبیہ کی کہ وہ ہر حالت میں ٹرین کے اندر رہے۔ اسے کسی صورت نہ چھوڑے۔ سامان کا بھی فکر نہ کرے کیونکہ یہ ”گڈز وین“ میں بند ہوگا۔ میں نے اسے یہ کہہ کر الوداع کہا کہ دو یا تین دنوں تک فلیش مین ہوٹل پنڈی میں ملاقات ہوگی۔ مجھے یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ ہم کس حد تک تقدیر کے ساتھ کھیل رہے تھے۔
چند دن بعد جو محافظوں کی تحویل میں ٹرینیں بھیجی گئیں تباہی سے دو چار ہوئیں۔ پاکستان سے بھارت آنیوالی ٹرینیں ہندوﺅں سے بھری تھیں اور بھارت سے پاکستان جانیوالی ٹرینیں مسلمانوںسے ۔ دونوں طرف ان لوگوں کو مخالف دھڑوں کے حملوں سے بچانا ممکن نہ تھا۔ ان ٹرینوں پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مخالفین حملہ آور ہوئے اور محافظوں کی درجن بھر تعداد ان لوگوں سے نبٹنے کےلئے بالکل ہی ناکافی تھی۔ ایسے حملوں کی شدت اور ان حملوں کی مکمل منصوبہ بندی کا کسی کو بھی اندازہ نہ تھا۔ مخالفین نے ریلوے سٹیشنوں اور کھلے علاقوں میں گھاتیں لگا رکھی تھیں جہاں ریلوے لائنوں کو یا تو اکھاڑ دیا گیا تھا یا پھر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ حملہ آور مارٹر اور مشین گنوں سے مکمل طور پر لیس ہوتے تھے اور یہ ہتھیار انہوں نے آسام اور برما کی سرحدوں سے حاصل کر رکھے تھے۔ دراصل دوسری جنگ عظیم میں یہ پورا علاقہ جنگی تھیٹر تھا۔ سب سے بڑی لڑائیاں یہاں لڑی گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر بہت سا اسلحہ اور گولہ بارود بچ گیا۔ اسے اسلحہ ڈپو تک واپس لانے پر بہت اخراجات اٹھتے تھے۔ اخراجات بچانے کی غرض سے ان ہتھیاروں اور گولہ بارود کو وہاں سے ٹرانسپورٹ کرنے کی بجائے بڑے بڑے گڑھے کھود کر وہیں دبا دیا گیا ۔ہندو لیڈروں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا۔ خفیہ طریقے سے تمام اسلحہ و گولہ بارود نکال کر اپنے لوگوں میں تقسیم کر دیااور اب ہندو اور سکھ بلوائیوں کے یہ حملہ آورجتھے مکمل طور پر مسلح تھے۔ یہ لوگ بڑے منظم طریقے سے ہزاروں کی تعداد میں حملہ آور ہوتے جنہیں روکنا حفاظتی دستوں کے بس میں ہی نہ تھا۔
اکثر اوقات محافظ دستے حملہ آوروں کی تعداد سے ہی مرعوب ہو کر بک جاتے یا دبوچ لئے جاتے۔ بعض اوقات تو یہ دستے مایوس کن حالت تک بیکار تھے خاص کر جب حملہ آور ان کے اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے تو یہ آرام سے ایک طرف کھڑے ہوجاتے اور قتل و غارت کا نظارہ کرتے رہتے۔ انگریز آفیسرز تعداد میں بہت کم تھے لہٰذا ڈیوٹی کے لئے میسر نہ تھے لیکن جہاں کہیں بھی انگریز آفیسرز موقع پر موجود ہوتے تو شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے۔ ایک ایسی ہی ٹرین پر ایک محافظ دستے کی کمان ایک انگریز آفیسر کر رہا تھا۔ ٹرین جب تیز رفتاری سے جارہی تھی تو اسے پتہ چلا کہ ٹرین ڈرائیور کو رشوت دیکر ساتھ ملا لیا گیا ہے تاکہ پہلے سے ایک منتخب مقام پر ٹرین روک لے جہاں بلوائی گھات میں تھے اور یقینا پوری ٹرین کو ختم کرنا مقصود تھا۔ یہ آفیسر ٹرین کے آخری ڈبے میں سوار تھا۔ ان دنوں ٹرین کے اندر رابطہ گیلری نہیں ہوتی تھی۔ یہ آفیسر کمال دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چلتی ٹرین کی چھت پر چڑھ گیا۔ تیزی سے ڈبوں کو پھلانگتا ہوا انجن کی طرف دوڑا۔ تیز رفتاری کی وجہ سے گاڑی کی چھت پر دوڑتے ہوئے بیلنس برقرار رکھنا بہت مشکل تھا۔ (جاری ہے)
کئی دفعہ گرتے گرتے مشکل سے بچا اور منتخب شدہ مقام سے تھوڑی دیر پہلے چھلانگ لگا کر انجن کے اندر آگرا۔ ڈرائیور اور فائرمین نے زور سے بریکیں کھینچیں لیکن اس آفیسر نے دونوں اشخاص کے سروں میں زور سے اپنے پسٹل کا دستہ مارا اور دھکا دیکر گاڑی سے نیچے پھینک دیا۔ پیشتر اس کے کہ بلوائی حملہ کرتے یہ ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرین وہاں سے دوڑا کر دشمن علاقے سے نکال لایا۔ تمام مسافرین بخیروعافیت پاکستان پہنچے ۔
افسوس کہ ایسے فرائض ادا کرتے ہوئے بہت سے انگریز آفیسرز اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ Queen Victoria\\\'s Own Corps of Guidesکے ایک دستے کے ساتھ پیش آیا۔ یہ دستہ جنوبی ہند سے شمال کی طرف اپنے زمانہ امن کے سٹیشن مردان جا رہا تھا جو اب پاکستان میں تھا۔ تمام سولجرز مسلمان تھے لیکن انہیں کمان کرنے والا آفیسر انگریز تھا۔ راستے میں ہند و بلوائیوں نے حملہ کیا۔ اس آفیسر نے اپنے جوانوں کے ساتھ ملکر مقابلہ کیا ۔ جب اسلحہ ختم ہوگیا تو یہ لوگ رائفل کی سنگینوں کے ساتھ لڑے۔ پھر ہاتھوں سے لڑے لیکن ہند و بلوائی تعداد میں اتنے زیادہ تھے کہ بالآخر یہ سب لوگ زیر آگئے۔ ہند و بلوائیوںنے ان سب کو مار دیا۔حتیٰ کہ ان کی لاشیں تک وہاں سے اٹھا کر لے گئے جو باوجود تلاش کے نہ مل سکیں۔ بلوائی صرف انسانوں کو مارنے پر اکتفا نہ کرتے۔ انہیں مارنے کے بعد پوری ٹرینیں لوٹتے۔ مقتولوں کی جیبوں کی تلاشی لیتے۔ انکے بکسوں کو رائفلوں سے توڑتے اور جو بھی کوئی کام کی چیز نظر آتی لوٹ لیتے۔ ان حالات میں بھی میں پر امید تھا کہ عدالت خان محفوظ ہوگا۔
”14اگست صبح سویرے میں اپنی کالے رنگ کی اوپر سے کھلنے والی Vauxhall کارمیں روانہ ہوا۔ میرے دو آسٹریلین ٹیریر نسل کے کتے پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گئے۔ میں نے اوپر سے گاڑی کا ہیڈ کور کھولا اور اس سے اپنا بستر اور ہینڈ بیگ لٹکا دئیے لیکن سامنے ساتھ والی سیٹ پر اپنا.45 کولٹ آٹومیٹک پسٹل رکھ دیا۔ میں فوجی وردی میں ملبوس تھا اور سر پر اپنی کیولری یونٹ کی کالی ٹوپی پہن رکھی تھی۔
بذریعہ سڑک دہلی سے راولپنڈی تک تقریباً پانچ سو میل سفر ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ سفر دومراحل میں طے کرونگا۔ پہلے مرحلے کے طور پر دو سو تیس میل کا سفر جالندھر تک ڈرائیو کرونگا۔ وہاں ایک رات آرام کرونگا۔ وہاں شاید مجھے اپنے پرانے دوست کیولری آفیسر برگیڈئیر تھا ئرٹ ویلر(Thyrett Wheeler) سے ملاقات کا بھی موقع مل جائیگا۔ وہ وہاں پر پنجاب باﺅنڈری فورس کے ایک برگیڈ کی کمان کر رہا تھا اور ان کا ہیڈ کوارٹر جالندھر میں تھا۔ اگلے مرحلے میں دریائے بیاس پر سے گزر کر براستہ امرتسر نئی سرحد عبور کرکے لاہور پہنچونگا۔ پاکستان داخل ہونے کے بعد لاہور پہلا بڑا شہر ہے جہاں میرا پروگرام تھا کہ پنڈی روزانہ ہونے سے پہلے ایک رات ٹھہرونگا۔
پہلا مرحلہ تو بغیر کسی مشکل کے گزر گیا۔ صرف ریفرشمنٹ کے لئے رکنے کی ضرورت پڑی۔ اس مقصد کے لئے میں نے ساتھ سینڈوچ اور بیر رکھا تھا۔ جب بیر کی بوتل کھولی تو بیربہت گرم تھا جو چار و ناچار پینا پڑا۔ میرا جالندھر کی طرف سفر خوش اسلوبی سے جاری رہا۔ جی ٹی روڈ پر معمول سے کہیں زیادہ ٹریفک تھی لیکن کہیں بھی ٹریفک کی وجہ سے رکنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ مسلسل سفر سے میں شام کے وقت جالندھر پہنچا۔ سیدھا ڈاک بنگلے گیا (ریسٹ ہاﺅس) جہاں میری رہائش کا بندوبست ہوگیا۔ میرا خیال تھا کہ سامان اتار کر اپنے دوست سے ملنے کے لئے برگیڈ ہیڈ کوارٹرز جاﺅنگا۔ اتنی دیر میں میری نظر گاڑی کے ٹائروں پر پڑی تو ایک ٹائر بڑی مخدوش حالت میں پایا۔ میں نے برگیڈ ہیڈ کوارٹرز جانے کا ارادہ ترک کرکے پہلے بازار جانے کا فیصلہ کیا تاکہ دوسرا ٹائر خریدا جائے۔ میری خوش قسمتی کہ مسئلہ فوری حل ہوگیا۔
برگیڈئیر ویلر سے ملنے اسکے دفتر پہنچا تو اسے بہت مصروف پایا۔ اس کے پاس بات کرنے تک کی بھی فرصت نہیں تھی۔ بہرحال اس شام اس نے مجھے کھانے پر ملنے کی دعوت دی۔ وہاں سے واپس ڈاک بنگلہ پہنچا۔ اپنے کتوں کو ساتھ لیا اور باہر گھومنے پھرنے نکل گیا۔میں نے محسوس کیا کہ جالندھر بالکل پر سکون تھا۔ گھوم پھر کر دوست کے پاس کھانے کے لئے پہنچا۔ پر لطف کھانے اور برانڈی پینے کے بعد میرے دوست نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں؟۔
”لاہور اور پھر وہاں سے راولپنڈی“ میں نے جواب دیا۔ میرے دوست کے فوری رد عمل نے مجھے حیران کر دیا۔
”لاہور؟“ اس نے الفاظ دہراتے ہوئے کہا۔ ”تم پاگل ہوگئے ہو؟“
”کل تقسیم ہند کا دن ہے۔ جو بھی کوئی نئی سرحد عبور کرتے ہوئے پایا گیا یقینا بچ نہیں سکے گا۔ مجھے اپنے تحفظ کے لئے مسلح حفاظتی دستہ ساتھ لے جانا چاہیے۔“ ویلر نے کہا۔ میں نے اپنے دلائل دینے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی بات پر مصر رہا کیونکہ وہ زمینی حقائق مجھ سے بہتر جانتا تھا۔بطور دوست اس نے میرے لئے کچھ محافظوں کا بندوبست بھی کیا جو صبح 6بجے میرے ساتھ چلیں گے۔
اصولاً تو مجھے اپنی حفاظت کے لئے گارڈ ساتھ لے جانے چاہئیں تھے لیکن دوسرے دن میں جلدی اٹھا اور بغیر محافظوں کے پانچ بجے ہی روانہ ہوگیا۔ دونوں کتے میرے ساتھ تھے میرے خیال میں اکیلے میں زیادہ محفوظ رہونگا۔
مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ میرا سب سے زیادہ خطرناک سفر دریائے بیاس اور نئی سرحد کے درمیان ہوگا اور یہ نئی سرحدامرتسر سے تیس میل آگے تھی۔ یہ علاقہ سکھوں کا مرکزتھا۔ دریائے بیاس کی پل کے نزدیک تین سے چار سو سکھ دستے کو دیکھ کر مجھے رکنا پڑا لیکن میرے لیے یہ کوئی حیران کن بات قطعاً نہ تھی۔ یہ لوگ سڑک کے ساتھ ساتھ ایک نزدیکی گاﺅں کی طرف جا رہے تھے۔ یہ تمام لوگ سر سے پاﺅں تک مکمل طور پر مسلح تھے۔ بہت منظم سکھ جتھہ نظر آرہا تھا۔ انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا لیکن ایک سرسری نظر سے ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ میں اکیلا ہوں اور ان کے کام میں کسی قسم کی مداخلت کا اندیشہ نہ تھا۔ صرف یہ احتیاط میں نے ضرور کی کہ اپنا پستول ان کی نظروں سے چھپا دیا۔ انہوں نے میری پرواہ تک نہ کی۔ وہ میرے سامنے اپنے جنگی نعرے لگاتے ہوئے دوڑے جارہے تھے ”واہ گرو جی کا خالصہ۔ واہ گرو جی کی فتح“
میں نے اپنا سفر امرتسر کی طرف جاری رکھا۔ یہاں سے آگے سڑک مجبور و بے کس انسانوں کی ذاتی اشیا سے بھری تھی۔ ہرطرف جوتے۔ پرانے برتن۔ ٹوٹے ہوئے سائیکلوں کے ویل اور کپڑوں کے چیتھڑے بھاری تعداد میں بکھرے پڑے تھے۔ اس کے بعد انسانی لاشیں تھیں۔ انسانی تباہی و قتل و غارت کا ہر طرف نظارا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر مجھے وسیع پیمانے پر دھواں کے گہرے بادل اٹھتے ہوئے نظر آئے اور ساتھ ہی دلدوز انسانی چیخیں اور نعرے لگاتے ہوئے حملہ آوروں کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ سب کچھ ان مسلمان قافلوں کا انجام تھا جو اپنے نئے وطن پہنچنے کے لئے پیدل روانہ ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب دشمن نے علاقے خالی کئے تو میں نے یورپی شہروں کی تباہی و بربادی کا جو منظر وہاں دیکھا تھااب یہی کچھ بذات خود امرتسر پیش کر رہا تھا۔ جلتے ہوئے گھر۔ ٹوٹے ہوئے دروازے اور کھڑکیاں۔ ٹوٹے ہوئے تباہ شدہ ریڑھے۔ اکھڑی ہوئی اور گری ہوئی ٹیلیفون لائنیں اور خالی گلیاں۔ کوئی زندہ انسان نظر نہ آیا۔
مجھے محسوس ہوا کہ میرا جالندھر والا دوست ٹھیک تھا۔ شاید میں نے غلطی کی تھی۔ یہاں انفنٹری کمپنی کی موجودگی میرے لئے باعث اطمینان ہوتی لیکن باﺅنڈری فورس شاید ہی اتنے لوگ مہیا کر سکتی کیونکہ وہ تو پہلے ہی بری طرح سے نہ صرف مصروف تھے بلکہ طویل علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ یکے بعد دیگرے فسادات کی اطلاعات پر بری طرح الجھے تھے۔
جونہی میں امرتسر کراس کرکے اس کے مضافات میں پہنچا میں نے اپنی زندگی اور انسانی درندگی کا بد ترین منظر دیکھا ۔گو اس کی تفصیلات کا مجھے بعد میں پتہ چلا۔چار یا پانچ سو افغان پاوندے حسبِ معمول بڑے آرام سے جی ٹی روڈ پر امرتسر کی طرف آرہے تھے۔ سال کے 6ماہ یہ لوگ جنوبی افغانستان میں اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ مختلف قدرتی چراگاہوں میں پھرتے رہتے ہیں۔ سردیوں کے 6ماہ یہ لوگ پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں کہیں چراگاہیں اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کا موقعہ ملتا ہے وہیں ڈیرے جمالیتے ہیں۔ ہر سال کی طرح امسال بھی وہ اسی مقصد کے لئے امرتسر کی طرف آرہے تھے۔ اگر انکا کوئی مذہب تھا بھی تو وہ اسلام تھا لیکن بطور خانہ بدوش وہ تنہا ۔ غیر سیاسی اور بالکل پرامن قسم کے لوگ تھے۔ جیسے ہی یہ خانہ بدوش گروپ امرتسرکے نزدیک پہنچا تو وہاں کھیتوں میں ایک سکھ جتھہ چھپا تھا۔ یہ سب آٹومیٹک ہتھیاروں اور چھوٹی مارٹر گنوں سے مکمل طور پر مسلح تھے۔ یہ لوگ ان نہتے پاوندوں پر پل پڑے۔ مرد۔ خواتین اور بچوں میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ سب کو ذبح کر دیا حتیٰ کہ ان کی بکریاں۔ گدھے اور اونٹوں تک کو ختم کر دیا۔ یہ میرے آنے سے شاید تھوڑی دیر پہلے کا واقعہ تھا کیونکہ بچ جانیوالے زندہ لوگوں کا سکھ قاتل تا حال کھیتوں میں پیچھا کر رہے تھے۔ یہ بہت دہشتناک منظر تھا بالکل جرمن شاعر ”دانتے کا جہنم“ \\\"Dante\\\'s Inferno۔میں کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ میں نے لاشوں میں سے اپنا راستہ بنایا اور کچھ دیر بعد اس جہنم نما منظر سے باہرنکل آیا۔ قاتلوں میں سے کچھ نے یقینا مجھے دیکھ لیا تھا۔انہوں نے کارپر فائر کھول دیا۔ میں نے فوراً اپنی گاڑی سڑک کے کنارے کچے میں کرلی گرد و غبار کا ایک گولا اٹھاجس میں کار چند سیکنڈ کیلئے گم ہوگئی۔ کچھ دور جا کر میں نے اپنی گاڑی روکی۔ نیچے اتر کر گاڑی کے نقصان کا اندازہ لگایا۔ گاڑی کی باڈی میں دو گولیوں کے سوراخ تھے۔ میں نے اپنے دونوں گھبرائے ہوئے کتوں کو بتایا کہ ہم خوش قسمت تھے کہ بچ گئے۔
باقی سفر میں نے آرام سے طے کیا اور سرحد عبور کرکے لاہور پہنچ گیا۔ لاہور پنجاب کا دارالخلافہ ہے جس سے میں پوری طرح سے واقف تھا کیونکہ 1930کی دہائی میں یہاں سروس کی تھی۔ لاہور کے مضافات بالکل نارمل لگے۔ برطانوی افسران کے گڑھ پنجاب کلب اور اسکے سامنے جمخانہ کلب کو کراس کیا۔ جمخانہ کلب سے ویسے ہی میری بہت سی یاد داشتیں وابستہ تھیںجہاں کئی رقص پارٹیوں میں خوب انجوائے کیا تھا۔ میری یادداشت کے مطابق گورنمنٹ ہاﺅس مجھے تنہا اور سادہ سا لگتا تھا۔ پھر میں مال پر داخل ہوا جہاں یورپی دکانیں اور کیفے تھے اور یہاں مجھے منظر بدلتا نظرآیا۔ ملکہ وکٹوریہ کے بت کے ساتھ ایک شرمن ٹینک کھڑا تھا جسے یقینا ناگہانی صورت حال سے نبٹنے کے لئے کھڑا کیا گیا تھا۔ یہاں گھر جلتے نظر آئے ۔کچھ تباہ شدہ تھے۔ ٹیلیفون لائنز پر جھنڈیاں لگی تھیں اور بلوائیوں نے دوکانیں توڑ پھوڑ کرلوٹ لی تھیں۔میں نے اپنے آپ کو بیمار اور مایوس محسوس کیا۔ کہاں تھی وہ ”شاندار آزادی“ جو ہمارے لوگوں نے انہیں جلد بازی میں بخش دی تھی۔ہر آدمی خنجر کی نوک پر یا ڈنڈے کے زور پر آزادی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں ڈرائیوکرکے فلیٹنز ہوٹل پہنچا اور جاتے ہی ڈرنک کا آرڈر دیا۔ وہاں سب ملازم پرانے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان میں سے ایک دو نے مجھے پہچان بھی لیا۔ سب کے سب گھبرائے ہوئے اور آنے والے حالات کے پیش نظر متفکر تھے حالانکہ وہ اپنے نئے گھر (ملک) کی سرحدوں کے اندر محفوظ تھے۔ میرے ذہن میں انکے ان مذہبی بھائیوں کا خیال آیا جو بھارت سے اس نئے وطن تک پہنچنے کے لئے مشکلات کاشکار تھے۔
یہاں سکے کا دوسرا رخ بھی دیکھنے کو ملا۔ سکھ اور ہندو سراسیمگی اور گھبراہٹ کے عالم میں مخالف سمت میں سرحد عبور کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ لارڈ ویول (سابق کمانڈر انچیف اور وائسرائے) درست تھا۔ اٹیلی (برطانوی وزیراعظم) اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن(آخری وائسرائے)غلط تھے۔ (ویول کا خیال تھا انڈیا کو اس طرح تقسیم کرکے آزادی دینے سے یہ لوگ آپس میں لڑ لڑ کر مر جائیں گے) جہاں تک سر سائرل ریڈ کلف Sir Cyril Radcliff کا تعلق تھا جس کی پنسل کی لکیر نے دو ممالک کو تقسیم کیا نہ تو ہندوستان کے متعلق کچھ جانتا تھا نہ ہی ہندوستانیوں کی فطرت کوسمجھتا تھا۔ اس لئے اس سے کچھ بہت بڑی غلطیاں ہوئیں۔ اسکی سب سے بڑی غلطی مسلمان اکثریت کا علاقہ گورداسپور بھارت کو دینا تھا جس کمے نتائج نہ صرف کئی دہائیاں بلکہ شاید ہمیشہ بھگتنے پڑیں گے۔
میں نے لاہور نہ ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنا ڈرنک ختم کیا اور سفر کے آخری مرحلہ کے لئے روانہ ہوگیا۔ ذاتی طور پر مجھے یہ سوچ کر تحفظ محسوس ہوا کہ میں حکومت پاکستان کی خدمت کے لئے آرہا ہوں۔ لیکن پاگل انسانوں کی کمی نہ تھی۔ وہ ہرجگہ موجود تھے جو کچھ بھی کر سکتے تھے اس لئے پر سکون محسوس کرنا ممکن نہ تھا۔ وزیر آباد کے نزدیک ظلم کا ایک نیا منظر تھا۔ ہندوﺅں اور سکھوں سے بھری ٹرین سٹیشن پر کھڑی تھی کہ مسلمان ہجوم نے حملہ کر دیا اور سب کچھ لوٹ کر لے گئے ۔ ٹرین کے اندرہندو مسافروں کو مار دیا۔ بھارت کی تقسیم کے پس منظر کا یہ پہلا دن تھا۔
یہاں ایک اور حوالہ ایک دوسرے انگریز مصنف کی کتاب سے بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب ہے۔فلپ وارنر Philip Warnerکی
Auchinleck: The Lonely Soldier۔ مصنف صفحہ220-221 پر رقمطراز ہے۔
”پنجاب پولیس لاہور سے بھاگ گئی۔ امن و امان ختم ہو گیا۔ حالات پر قابو پانے کے لئے فوج بھی میسر نہ تھی۔ لہٰذا اگست اور ستمبر کے مہینوں میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ تقریباً پانچ لاکھ لوگ صرف پنجاب میں مارے گئے اور ایک کروڑ لوگ بے گھر ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ہندو اور سکھ بھارت کی طرف اور مسلمان پاکستان کی طرف۔ جہاں جہاں یہ لوگ پہنچے قتل و غارت اور انسانی تباہی نا قابل یقین حد تک بڑھ گئی۔ نسلی اور مذہبی منافرت انتہا کو پہنچ گئی۔ سکھ خاص طور پر بہت متحرک تھے۔ یوم آزادی کی خوشی میں امرتسر میں انہوں نے بہت سی مسلمان خواتین کو پکڑا۔ انہیں بے لباس کرکے بازاروں اور گلیوں میں گھمایا۔ عصمت دری کی۔ وہ خواتین خوش قسمت ثابت ہوئیں جنہیں ان لوگوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کے ٹکڑوں کو جلادیا۔ کیونکہ وہ بے حرمتی اور انسانی تذلیل سے بچ گئیںلیکن شام سے پہلے مسلمانوں نے لاہور میں اس بے حرمتی اور قتل و غارت کا بدلہ لیے لیا“ (مصنف نے لاہور میں لیے جانے والے بدلے کی تفصیل نہیںدی لیکن یقیناکسی مسلمان گروہ نے بھی کسی سکھ عورت کو بے لباس کرکے گلیوں یا بازاروں میں نہیں پھرایا۔
چند دن بعد جو محافظوں کی تحویل میں ٹرینیں بھیجی گئیں تباہی سے دو چار ہوئیں۔ پاکستان سے بھارت آنیوالی ٹرینیں ہندوﺅں سے بھری تھیں اور بھارت سے پاکستان جانیوالی ٹرینیں مسلمانوںسے ۔ دونوں طرف ان لوگوں کو مخالف دھڑوں کے حملوں سے بچانا ممکن نہ تھا۔ ان ٹرینوں پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں مخالفین حملہ آور ہوئے اور محافظوں کی درجن بھر تعداد ان لوگوں سے نبٹنے کےلئے بالکل ہی ناکافی تھی۔ ایسے حملوں کی شدت اور ان حملوں کی مکمل منصوبہ بندی کا کسی کو بھی اندازہ نہ تھا۔ مخالفین نے ریلوے سٹیشنوں اور کھلے علاقوں میں گھاتیں لگا رکھی تھیں جہاں ریلوے لائنوں کو یا تو اکھاڑ دیا گیا تھا یا پھر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھیں۔ حملہ آور مارٹر اور مشین گنوں سے مکمل طور پر لیس ہوتے تھے اور یہ ہتھیار انہوں نے آسام اور برما کی سرحدوں سے حاصل کر رکھے تھے۔ دراصل دوسری جنگ عظیم میں یہ پورا علاقہ جنگی تھیٹر تھا۔ سب سے بڑی لڑائیاں یہاں لڑی گئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پر بہت سا اسلحہ اور گولہ بارود بچ گیا۔ اسے اسلحہ ڈپو تک واپس لانے پر بہت اخراجات اٹھتے تھے۔ اخراجات بچانے کی غرض سے ان ہتھیاروں اور گولہ بارود کو وہاں سے ٹرانسپورٹ کرنے کی بجائے بڑے بڑے گڑھے کھود کر وہیں دبا دیا گیا ۔ہندو لیڈروں نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا۔ خفیہ طریقے سے تمام اسلحہ و گولہ بارود نکال کر اپنے لوگوں میں تقسیم کر دیااور اب ہندو اور سکھ بلوائیوں کے یہ حملہ آورجتھے مکمل طور پر مسلح تھے۔ یہ لوگ بڑے منظم طریقے سے ہزاروں کی تعداد میں حملہ آور ہوتے جنہیں روکنا حفاظتی دستوں کے بس میں ہی نہ تھا۔
اکثر اوقات محافظ دستے حملہ آوروں کی تعداد سے ہی مرعوب ہو کر بک جاتے یا دبوچ لئے جاتے۔ بعض اوقات تو یہ دستے مایوس کن حالت تک بیکار تھے خاص کر جب حملہ آور ان کے اپنے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوتے تو یہ آرام سے ایک طرف کھڑے ہوجاتے اور قتل و غارت کا نظارہ کرتے رہتے۔ انگریز آفیسرز تعداد میں بہت کم تھے لہٰذا ڈیوٹی کے لئے میسر نہ تھے لیکن جہاں کہیں بھی انگریز آفیسرز موقع پر موجود ہوتے تو شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے۔ ایک ایسی ہی ٹرین پر ایک محافظ دستے کی کمان ایک انگریز آفیسر کر رہا تھا۔ ٹرین جب تیز رفتاری سے جارہی تھی تو اسے پتہ چلا کہ ٹرین ڈرائیور کو رشوت دیکر ساتھ ملا لیا گیا ہے تاکہ پہلے سے ایک منتخب مقام پر ٹرین روک لے جہاں بلوائی گھات میں تھے اور یقینا پوری ٹرین کو ختم کرنا مقصود تھا۔ یہ آفیسر ٹرین کے آخری ڈبے میں سوار تھا۔ ان دنوں ٹرین کے اندر رابطہ گیلری نہیں ہوتی تھی۔ یہ آفیسر کمال دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چلتی ٹرین کی چھت پر چڑھ گیا۔ تیزی سے ڈبوں کو پھلانگتا ہوا انجن کی طرف دوڑا۔ تیز رفتاری کی وجہ سے گاڑی کی چھت پر دوڑتے ہوئے بیلنس برقرار رکھنا بہت مشکل تھا۔ (جاری ہے)
کئی دفعہ گرتے گرتے مشکل سے بچا اور منتخب شدہ مقام سے تھوڑی دیر پہلے چھلانگ لگا کر انجن کے اندر آگرا۔ ڈرائیور اور فائرمین نے زور سے بریکیں کھینچیں لیکن اس آفیسر نے دونوں اشخاص کے سروں میں زور سے اپنے پسٹل کا دستہ مارا اور دھکا دیکر گاڑی سے نیچے پھینک دیا۔ پیشتر اس کے کہ بلوائی حملہ کرتے یہ ساٹھ میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹرین وہاں سے دوڑا کر دشمن علاقے سے نکال لایا۔ تمام مسافرین بخیروعافیت پاکستان پہنچے ۔
افسوس کہ ایسے فرائض ادا کرتے ہوئے بہت سے انگریز آفیسرز اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسی طرح کا ایک واقعہ Queen Victoria\\\'s Own Corps of Guidesکے ایک دستے کے ساتھ پیش آیا۔ یہ دستہ جنوبی ہند سے شمال کی طرف اپنے زمانہ امن کے سٹیشن مردان جا رہا تھا جو اب پاکستان میں تھا۔ تمام سولجرز مسلمان تھے لیکن انہیں کمان کرنے والا آفیسر انگریز تھا۔ راستے میں ہند و بلوائیوں نے حملہ کیا۔ اس آفیسر نے اپنے جوانوں کے ساتھ ملکر مقابلہ کیا ۔ جب اسلحہ ختم ہوگیا تو یہ لوگ رائفل کی سنگینوں کے ساتھ لڑے۔ پھر ہاتھوں سے لڑے لیکن ہند و بلوائی تعداد میں اتنے زیادہ تھے کہ بالآخر یہ سب لوگ زیر آگئے۔ ہند و بلوائیوںنے ان سب کو مار دیا۔حتیٰ کہ ان کی لاشیں تک وہاں سے اٹھا کر لے گئے جو باوجود تلاش کے نہ مل سکیں۔ بلوائی صرف انسانوں کو مارنے پر اکتفا نہ کرتے۔ انہیں مارنے کے بعد پوری ٹرینیں لوٹتے۔ مقتولوں کی جیبوں کی تلاشی لیتے۔ انکے بکسوں کو رائفلوں سے توڑتے اور جو بھی کوئی کام کی چیز نظر آتی لوٹ لیتے۔ ان حالات میں بھی میں پر امید تھا کہ عدالت خان محفوظ ہوگا۔
”14اگست صبح سویرے میں اپنی کالے رنگ کی اوپر سے کھلنے والی Vauxhall کارمیں روانہ ہوا۔ میرے دو آسٹریلین ٹیریر نسل کے کتے پچھلی سیٹ پر براجمان ہو گئے۔ میں نے اوپر سے گاڑی کا ہیڈ کور کھولا اور اس سے اپنا بستر اور ہینڈ بیگ لٹکا دئیے لیکن سامنے ساتھ والی سیٹ پر اپنا.45 کولٹ آٹومیٹک پسٹل رکھ دیا۔ میں فوجی وردی میں ملبوس تھا اور سر پر اپنی کیولری یونٹ کی کالی ٹوپی پہن رکھی تھی۔
بذریعہ سڑک دہلی سے راولپنڈی تک تقریباً پانچ سو میل سفر ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں یہ سفر دومراحل میں طے کرونگا۔ پہلے مرحلے کے طور پر دو سو تیس میل کا سفر جالندھر تک ڈرائیو کرونگا۔ وہاں ایک رات آرام کرونگا۔ وہاں شاید مجھے اپنے پرانے دوست کیولری آفیسر برگیڈئیر تھا ئرٹ ویلر(Thyrett Wheeler) سے ملاقات کا بھی موقع مل جائیگا۔ وہ وہاں پر پنجاب باﺅنڈری فورس کے ایک برگیڈ کی کمان کر رہا تھا اور ان کا ہیڈ کوارٹر جالندھر میں تھا۔ اگلے مرحلے میں دریائے بیاس پر سے گزر کر براستہ امرتسر نئی سرحد عبور کرکے لاہور پہنچونگا۔ پاکستان داخل ہونے کے بعد لاہور پہلا بڑا شہر ہے جہاں میرا پروگرام تھا کہ پنڈی روزانہ ہونے سے پہلے ایک رات ٹھہرونگا۔
پہلا مرحلہ تو بغیر کسی مشکل کے گزر گیا۔ صرف ریفرشمنٹ کے لئے رکنے کی ضرورت پڑی۔ اس مقصد کے لئے میں نے ساتھ سینڈوچ اور بیر رکھا تھا۔ جب بیر کی بوتل کھولی تو بیربہت گرم تھا جو چار و ناچار پینا پڑا۔ میرا جالندھر کی طرف سفر خوش اسلوبی سے جاری رہا۔ جی ٹی روڈ پر معمول سے کہیں زیادہ ٹریفک تھی لیکن کہیں بھی ٹریفک کی وجہ سے رکنے کی ضرورت پیش نہ آئی۔ مسلسل سفر سے میں شام کے وقت جالندھر پہنچا۔ سیدھا ڈاک بنگلے گیا (ریسٹ ہاﺅس) جہاں میری رہائش کا بندوبست ہوگیا۔ میرا خیال تھا کہ سامان اتار کر اپنے دوست سے ملنے کے لئے برگیڈ ہیڈ کوارٹرز جاﺅنگا۔ اتنی دیر میں میری نظر گاڑی کے ٹائروں پر پڑی تو ایک ٹائر بڑی مخدوش حالت میں پایا۔ میں نے برگیڈ ہیڈ کوارٹرز جانے کا ارادہ ترک کرکے پہلے بازار جانے کا فیصلہ کیا تاکہ دوسرا ٹائر خریدا جائے۔ میری خوش قسمتی کہ مسئلہ فوری حل ہوگیا۔
برگیڈئیر ویلر سے ملنے اسکے دفتر پہنچا تو اسے بہت مصروف پایا۔ اس کے پاس بات کرنے تک کی بھی فرصت نہیں تھی۔ بہرحال اس شام اس نے مجھے کھانے پر ملنے کی دعوت دی۔ وہاں سے واپس ڈاک بنگلہ پہنچا۔ اپنے کتوں کو ساتھ لیا اور باہر گھومنے پھرنے نکل گیا۔میں نے محسوس کیا کہ جالندھر بالکل پر سکون تھا۔ گھوم پھر کر دوست کے پاس کھانے کے لئے پہنچا۔ پر لطف کھانے اور برانڈی پینے کے بعد میرے دوست نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں؟۔
”لاہور اور پھر وہاں سے راولپنڈی“ میں نے جواب دیا۔ میرے دوست کے فوری رد عمل نے مجھے حیران کر دیا۔
”لاہور؟“ اس نے الفاظ دہراتے ہوئے کہا۔ ”تم پاگل ہوگئے ہو؟“
”کل تقسیم ہند کا دن ہے۔ جو بھی کوئی نئی سرحد عبور کرتے ہوئے پایا گیا یقینا بچ نہیں سکے گا۔ مجھے اپنے تحفظ کے لئے مسلح حفاظتی دستہ ساتھ لے جانا چاہیے۔“ ویلر نے کہا۔ میں نے اپنے دلائل دینے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی بات پر مصر رہا کیونکہ وہ زمینی حقائق مجھ سے بہتر جانتا تھا۔بطور دوست اس نے میرے لئے کچھ محافظوں کا بندوبست بھی کیا جو صبح 6بجے میرے ساتھ چلیں گے۔
اصولاً تو مجھے اپنی حفاظت کے لئے گارڈ ساتھ لے جانے چاہئیں تھے لیکن دوسرے دن میں جلدی اٹھا اور بغیر محافظوں کے پانچ بجے ہی روانہ ہوگیا۔ دونوں کتے میرے ساتھ تھے میرے خیال میں اکیلے میں زیادہ محفوظ رہونگا۔
مجھے پہلے ہی اندازہ تھا کہ میرا سب سے زیادہ خطرناک سفر دریائے بیاس اور نئی سرحد کے درمیان ہوگا اور یہ نئی سرحدامرتسر سے تیس میل آگے تھی۔ یہ علاقہ سکھوں کا مرکزتھا۔ دریائے بیاس کی پل کے نزدیک تین سے چار سو سکھ دستے کو دیکھ کر مجھے رکنا پڑا لیکن میرے لیے یہ کوئی حیران کن بات قطعاً نہ تھی۔ یہ لوگ سڑک کے ساتھ ساتھ ایک نزدیکی گاﺅں کی طرف جا رہے تھے۔ یہ تمام لوگ سر سے پاﺅں تک مکمل طور پر مسلح تھے۔ بہت منظم سکھ جتھہ نظر آرہا تھا۔ انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا لیکن ایک سرسری نظر سے ہی انہیں اندازہ ہوگیا کہ میں اکیلا ہوں اور ان کے کام میں کسی قسم کی مداخلت کا اندیشہ نہ تھا۔ صرف یہ احتیاط میں نے ضرور کی کہ اپنا پستول ان کی نظروں سے چھپا دیا۔ انہوں نے میری پرواہ تک نہ کی۔ وہ میرے سامنے اپنے جنگی نعرے لگاتے ہوئے دوڑے جارہے تھے ”واہ گرو جی کا خالصہ۔ واہ گرو جی کی فتح“
میں نے اپنا سفر امرتسر کی طرف جاری رکھا۔ یہاں سے آگے سڑک مجبور و بے کس انسانوں کی ذاتی اشیا سے بھری تھی۔ ہرطرف جوتے۔ پرانے برتن۔ ٹوٹے ہوئے سائیکلوں کے ویل اور کپڑوں کے چیتھڑے بھاری تعداد میں بکھرے پڑے تھے۔ اس کے بعد انسانی لاشیں تھیں۔ انسانی تباہی و قتل و غارت کا ہر طرف نظارا تھا۔ تھوڑے فاصلے پر مجھے وسیع پیمانے پر دھواں کے گہرے بادل اٹھتے ہوئے نظر آئے اور ساتھ ہی دلدوز انسانی چیخیں اور نعرے لگاتے ہوئے حملہ آوروں کی آوازیں سنائی دیں۔ یہ سب کچھ ان مسلمان قافلوں کا انجام تھا جو اپنے نئے وطن پہنچنے کے لئے پیدل روانہ ہوئے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب دشمن نے علاقے خالی کئے تو میں نے یورپی شہروں کی تباہی و بربادی کا جو منظر وہاں دیکھا تھااب یہی کچھ بذات خود امرتسر پیش کر رہا تھا۔ جلتے ہوئے گھر۔ ٹوٹے ہوئے دروازے اور کھڑکیاں۔ ٹوٹے ہوئے تباہ شدہ ریڑھے۔ اکھڑی ہوئی اور گری ہوئی ٹیلیفون لائنیں اور خالی گلیاں۔ کوئی زندہ انسان نظر نہ آیا۔
مجھے محسوس ہوا کہ میرا جالندھر والا دوست ٹھیک تھا۔ شاید میں نے غلطی کی تھی۔ یہاں انفنٹری کمپنی کی موجودگی میرے لئے باعث اطمینان ہوتی لیکن باﺅنڈری فورس شاید ہی اتنے لوگ مہیا کر سکتی کیونکہ وہ تو پہلے ہی بری طرح سے نہ صرف مصروف تھے بلکہ طویل علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ یکے بعد دیگرے فسادات کی اطلاعات پر بری طرح الجھے تھے۔
جونہی میں امرتسر کراس کرکے اس کے مضافات میں پہنچا میں نے اپنی زندگی اور انسانی درندگی کا بد ترین منظر دیکھا ۔گو اس کی تفصیلات کا مجھے بعد میں پتہ چلا۔چار یا پانچ سو افغان پاوندے حسبِ معمول بڑے آرام سے جی ٹی روڈ پر امرتسر کی طرف آرہے تھے۔ سال کے 6ماہ یہ لوگ جنوبی افغانستان میں اپنی بھیڑ بکریوں کے ساتھ مختلف قدرتی چراگاہوں میں پھرتے رہتے ہیں۔ سردیوں کے 6ماہ یہ لوگ پنجاب کا رخ کرتے ہیں۔ جہاں کہیں چراگاہیں اور چھوٹے چھوٹے کاروبار کا موقعہ ملتا ہے وہیں ڈیرے جمالیتے ہیں۔ ہر سال کی طرح امسال بھی وہ اسی مقصد کے لئے امرتسر کی طرف آرہے تھے۔ اگر انکا کوئی مذہب تھا بھی تو وہ اسلام تھا لیکن بطور خانہ بدوش وہ تنہا ۔ غیر سیاسی اور بالکل پرامن قسم کے لوگ تھے۔ جیسے ہی یہ خانہ بدوش گروپ امرتسرکے نزدیک پہنچا تو وہاں کھیتوں میں ایک سکھ جتھہ چھپا تھا۔ یہ سب آٹومیٹک ہتھیاروں اور چھوٹی مارٹر گنوں سے مکمل طور پر مسلح تھے۔ یہ لوگ ان نہتے پاوندوں پر پل پڑے۔ مرد۔ خواتین اور بچوں میں سے کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ سب کو ذبح کر دیا حتیٰ کہ ان کی بکریاں۔ گدھے اور اونٹوں تک کو ختم کر دیا۔ یہ میرے آنے سے شاید تھوڑی دیر پہلے کا واقعہ تھا کیونکہ بچ جانیوالے زندہ لوگوں کا سکھ قاتل تا حال کھیتوں میں پیچھا کر رہے تھے۔ یہ بہت دہشتناک منظر تھا بالکل جرمن شاعر ”دانتے کا جہنم“ \\\"Dante\\\'s Inferno۔میں کچھ بھی تو نہیں کر سکتا تھا۔ لہٰذا میں نے اپنا سفر جاری رکھا۔ میں نے لاشوں میں سے اپنا راستہ بنایا اور کچھ دیر بعد اس جہنم نما منظر سے باہرنکل آیا۔ قاتلوں میں سے کچھ نے یقینا مجھے دیکھ لیا تھا۔انہوں نے کارپر فائر کھول دیا۔ میں نے فوراً اپنی گاڑی سڑک کے کنارے کچے میں کرلی گرد و غبار کا ایک گولا اٹھاجس میں کار چند سیکنڈ کیلئے گم ہوگئی۔ کچھ دور جا کر میں نے اپنی گاڑی روکی۔ نیچے اتر کر گاڑی کے نقصان کا اندازہ لگایا۔ گاڑی کی باڈی میں دو گولیوں کے سوراخ تھے۔ میں نے اپنے دونوں گھبرائے ہوئے کتوں کو بتایا کہ ہم خوش قسمت تھے کہ بچ گئے۔
باقی سفر میں نے آرام سے طے کیا اور سرحد عبور کرکے لاہور پہنچ گیا۔ لاہور پنجاب کا دارالخلافہ ہے جس سے میں پوری طرح سے واقف تھا کیونکہ 1930کی دہائی میں یہاں سروس کی تھی۔ لاہور کے مضافات بالکل نارمل لگے۔ برطانوی افسران کے گڑھ پنجاب کلب اور اسکے سامنے جمخانہ کلب کو کراس کیا۔ جمخانہ کلب سے ویسے ہی میری بہت سی یاد داشتیں وابستہ تھیںجہاں کئی رقص پارٹیوں میں خوب انجوائے کیا تھا۔ میری یادداشت کے مطابق گورنمنٹ ہاﺅس مجھے تنہا اور سادہ سا لگتا تھا۔ پھر میں مال پر داخل ہوا جہاں یورپی دکانیں اور کیفے تھے اور یہاں مجھے منظر بدلتا نظرآیا۔ ملکہ وکٹوریہ کے بت کے ساتھ ایک شرمن ٹینک کھڑا تھا جسے یقینا ناگہانی صورت حال سے نبٹنے کے لئے کھڑا کیا گیا تھا۔ یہاں گھر جلتے نظر آئے ۔کچھ تباہ شدہ تھے۔ ٹیلیفون لائنز پر جھنڈیاں لگی تھیں اور بلوائیوں نے دوکانیں توڑ پھوڑ کرلوٹ لی تھیں۔میں نے اپنے آپ کو بیمار اور مایوس محسوس کیا۔ کہاں تھی وہ ”شاندار آزادی“ جو ہمارے لوگوں نے انہیں جلد بازی میں بخش دی تھی۔ہر آدمی خنجر کی نوک پر یا ڈنڈے کے زور پر آزادی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں ڈرائیوکرکے فلیٹنز ہوٹل پہنچا اور جاتے ہی ڈرنک کا آرڈر دیا۔ وہاں سب ملازم پرانے تھے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ان میں سے ایک دو نے مجھے پہچان بھی لیا۔ سب کے سب گھبرائے ہوئے اور آنے والے حالات کے پیش نظر متفکر تھے حالانکہ وہ اپنے نئے گھر (ملک) کی سرحدوں کے اندر محفوظ تھے۔ میرے ذہن میں انکے ان مذہبی بھائیوں کا خیال آیا جو بھارت سے اس نئے وطن تک پہنچنے کے لئے مشکلات کاشکار تھے۔
یہاں سکے کا دوسرا رخ بھی دیکھنے کو ملا۔ سکھ اور ہندو سراسیمگی اور گھبراہٹ کے عالم میں مخالف سمت میں سرحد عبور کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ اب مجھے یقین ہو گیا کہ لارڈ ویول (سابق کمانڈر انچیف اور وائسرائے) درست تھا۔ اٹیلی (برطانوی وزیراعظم) اور لارڈ ماﺅنٹ بیٹن(آخری وائسرائے)غلط تھے۔ (ویول کا خیال تھا انڈیا کو اس طرح تقسیم کرکے آزادی دینے سے یہ لوگ آپس میں لڑ لڑ کر مر جائیں گے) جہاں تک سر سائرل ریڈ کلف Sir Cyril Radcliff کا تعلق تھا جس کی پنسل کی لکیر نے دو ممالک کو تقسیم کیا نہ تو ہندوستان کے متعلق کچھ جانتا تھا نہ ہی ہندوستانیوں کی فطرت کوسمجھتا تھا۔ اس لئے اس سے کچھ بہت بڑی غلطیاں ہوئیں۔ اسکی سب سے بڑی غلطی مسلمان اکثریت کا علاقہ گورداسپور بھارت کو دینا تھا جس کمے نتائج نہ صرف کئی دہائیاں بلکہ شاید ہمیشہ بھگتنے پڑیں گے۔
میں نے لاہور نہ ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنا ڈرنک ختم کیا اور سفر کے آخری مرحلہ کے لئے روانہ ہوگیا۔ ذاتی طور پر مجھے یہ سوچ کر تحفظ محسوس ہوا کہ میں حکومت پاکستان کی خدمت کے لئے آرہا ہوں۔ لیکن پاگل انسانوں کی کمی نہ تھی۔ وہ ہرجگہ موجود تھے جو کچھ بھی کر سکتے تھے اس لئے پر سکون محسوس کرنا ممکن نہ تھا۔ وزیر آباد کے نزدیک ظلم کا ایک نیا منظر تھا۔ ہندوﺅں اور سکھوں سے بھری ٹرین سٹیشن پر کھڑی تھی کہ مسلمان ہجوم نے حملہ کر دیا اور سب کچھ لوٹ کر لے گئے ۔ ٹرین کے اندرہندو مسافروں کو مار دیا۔ بھارت کی تقسیم کے پس منظر کا یہ پہلا دن تھا۔
یہاں ایک اور حوالہ ایک دوسرے انگریز مصنف کی کتاب سے بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ کتاب ہے۔فلپ وارنر Philip Warnerکی
Auchinleck: The Lonely Soldier۔ مصنف صفحہ220-221 پر رقمطراز ہے۔
”پنجاب پولیس لاہور سے بھاگ گئی۔ امن و امان ختم ہو گیا۔ حالات پر قابو پانے کے لئے فوج بھی میسر نہ تھی۔ لہٰذا اگست اور ستمبر کے مہینوں میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ تقریباً پانچ لاکھ لوگ صرف پنجاب میں مارے گئے اور ایک کروڑ لوگ بے گھر ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے ۔ہندو اور سکھ بھارت کی طرف اور مسلمان پاکستان کی طرف۔ جہاں جہاں یہ لوگ پہنچے قتل و غارت اور انسانی تباہی نا قابل یقین حد تک بڑھ گئی۔ نسلی اور مذہبی منافرت انتہا کو پہنچ گئی۔ سکھ خاص طور پر بہت متحرک تھے۔ یوم آزادی کی خوشی میں امرتسر میں انہوں نے بہت سی مسلمان خواتین کو پکڑا۔ انہیں بے لباس کرکے بازاروں اور گلیوں میں گھمایا۔ عصمت دری کی۔ وہ خواتین خوش قسمت ثابت ہوئیں جنہیں ان لوگوں نے گاجر مولی کی طرح کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کے ٹکڑوں کو جلادیا۔ کیونکہ وہ بے حرمتی اور انسانی تذلیل سے بچ گئیںلیکن شام سے پہلے مسلمانوں نے لاہور میں اس بے حرمتی اور قتل و غارت کا بدلہ لیے لیا“ (مصنف نے لاہور میں لیے جانے والے بدلے کی تفصیل نہیںدی لیکن یقیناکسی مسلمان گروہ نے بھی کسی سکھ عورت کو بے لباس کرکے گلیوں یا بازاروں میں نہیں پھرایا۔