شام پر امریکہ‘ برطانیہ اور فرانس کا حملہ
امریکہ‘برطانیہ اور فرانس نے گزشتہ رات گئے شام پرمشترکہ طور پر فضائی حملہ کردیا، حملوں میں امریکی بحریہ اور تینوں ملکوں کی فضائیہ کے جنگی طیاروں نے حصہ لیا۔ شام میں تین اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلا ہدف کیمیائی سائنسی لیب تھا حملہ آوروں نے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دمشق میں متعدد دھماکے سنے گئے کئی مقامات سے دھواں اٹھتے دیکھا گیا، شامی فضائیہ نے حملہ آوروں کے درجنوں میزائلوں کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے، شامی حکومت نے گزشتہ ہفتے دوما میں اپنے ہی شہریوں کےخلاف کیمیائی ہتھیار اس بے دردی سے استعمال کئے کہ سینکڑوں بے گناہ شہری جن میں معصوم بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں ، مارے گئے یا ہمیشہ کےلئے معذور ہوگئے، اس کارروائی پر عالمی برادری نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شام کو خبردار کیاکہ اُسے اس وحشیانہ کارروائی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
عرب لیگ کے ارکان کی تعداد 21ہے، ان میں سے ایک دو کو چھوڑ کر دیگر سب ملکوں میں آمریت ہے یا ملوکیت۔ 18 دسمبر 2010ءمیں تیونس کے دارالحکومت میں پولیس کی فائرنگ سے ایک محنت کش نوجوان ہلاک ہوگیا جس پر شہریوں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ علی بن زین العابدین کی حکومت کے تشدد نے عوام کو مزید بھڑکا دیا۔ کافی خونریزی کے بعد صدر علی ملک سے فرار ہوگئے ۔ یوں تیونس میں پہلی عوامی حکومت قائم ہوئی۔ تیونس کے عوام کی کامیاب تحریک کو ”عرب بہار“ کا نام دیا گیا۔ مصر کے عوام بھی تیونس میں عرب بہار کی راہ پر چلتے ہوئے صدر حسنی مبارک کی آمریت کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اسکے بعد عرب بہار یمن پہنچی، یہاں سے اُس نے شمال میں شام کا رُخ کیا۔ اوائل مارچ 2011ءمیں شام کے جنوبی شہر دیرا میں جمہوریت کے حق میں مظاہرہ ہوا۔ بشارالاسد کی حکومت نے، جو اپنے والد کے انتقال کے بعد 2000ءمیں اقتدار میں آئے تھے، بہیمانہ طاقت کا استعمال شروع کیا جس کے بعد پورے ملک میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔ صدر بشارالاسد علوی ہیں، شام میں علویوں کی آبادی صرف 15 فیصد ہے جبکہ 80 فیصد سنی اور پانچ فیصد عیسائی ہیں۔ بشارالاسد آمریت کےخلاف اٹھنے والے جمہوریت پسندوں کو باغیوں کا نام دیا گیا،ایک وقت ایسا آیا کہ دمشق کا سقوط ہونے والا ہی تھا کہ بشارحکومت کو بچانے کیلئے ایران اور لبنان سے شیعہ ملیشیا کی کمک پہنچ گئی۔ اس مداخلت نے داعش کیلئے شام میں داخلے کی راہ آسان کردی۔ شام میں روس اور چین کے صنعتی و تجارتی مفادات بھی ہیں جن میں بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے، بلکہ روس کے فوجی اڈے بھی ہیں۔ اتنے فریقوں کی لڑائی سے شامیوں پر اُنکی سرزمین تنگ ہوگئی۔ 95 لاکھ سے ایک کروڑ تک شامی شہری ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے، جن کی ایک بڑی تعداد ترکی کے پناہ گزین کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے، باقی یورپی ملکوں میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سات سالہ خانہ جنگی میں ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں۔ 15 لاکھ سے زائد شہری مستقل معذوری کا شکار ہوئے، کئی تاریخی شہر اور قصبے کھنڈر بن گئے۔ شامیوں کی جمہوریت کے خواب کی یہ بڑی بھیانک تعبیر ہے۔
اگر ابتدا میں ہی بشارالاسد، اپنا اقتدار بچانے کےلئے طاقت کا اندھا دھند استعمال نہ کرتے۔ تیونسی صدر علی زین العابدین اور مصر کے صدر حسنی مبارک کی راہ پر چلتے ہوئے جمہوریت پسندوں سے مذاکرات پر آمادہ ہوجاتے تو یقینا کوئی مثبت حل نکل آتا اور شام یوں تباہ نہ ہوتا۔ پھر شامی حکومت نے یہ مہلک غلطی کی کہ اپنے ہی شہریوں کےخلاف بے دریغ کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے شروع کردئیے، جن کے استعمال پر پہلی جنگ عظیم کے بعد پابندی لگا ئی جا چکی ہے۔ علاوہ ازیں جنیوا کنونشن کے فیصلوں کی رو سے ایسے ہتھیاروں کا استعمال انسانیت کےخلاف جنگ ہے، عالمی برادری کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسے ہتھیاروں کا استعمال بزور روک دیں، دوما میں شامی افواج کے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال نے ہی امریکہ، برطانیہ اور فرانس کی جارحیت کا جواز فراہم کردیا۔ کوئی بھی امن پسند، طاقت کے استعمال کی حمایت نہیں کرسکتا۔ اگر شامی فوج کی کارروائیاں مذموم ہیں تو اتحادیوں کے حملہ کی بھی حمایت نہیں کی جاسکتی۔ یہ جارحیت تیسری عالمی جنگ کی ابتدا بھی ثابت ہوسکتی ہے،جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ شام میں روس کے فوجی اڈے بھی ہیں ۔ شام کی خانہ جنگی کے نتیجے میں پیدا ہونیوالی صورتحال نے عالمی امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔امریکہ ایٹمی عدم پھیلاﺅ اور دہشت گردی کے خاتمہ کے حوالے سے دہری پالیسیاں اختیار کرکے درحقیقت عالمی امن و سلامتی کو داﺅ پر لگارہا ہے۔ شام پر فوجی چڑھائی بھی انہی امریکی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ بہرحال اقوام متحدہ ، عالمی قیادتوں اور شام کے بیرونی مداخلت کاروں کو مل بیٹھ کر اس انسانی المیے کے خاتمے کی تدابیر کرنی چاہئیں کیونکہ ایٹمی طاقتوں نے ایٹمی وار ہیڈز کی بہتات میں اس کرہ¿ ارض کو تباہ کرنے کی خود ہی بنیاد رکھی ہوئی ہے۔