سنگاپور سمٹ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے ایک مثال
سنگاپور میں دور جدید کے بد ترین حریف ممالک امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان ہونے والا تاریخی معاہدہ صرف معاہدہ ہی نہیں دنیا کے دیگر ممالک جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں کیلئے ایک مثال بھی ہے۔ جب دنیا کے یہ دونوں ممالک شدید ترین تنازعات کو بات چیت سے حل کر سکتے ہیں تو پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر بات چیت سے حل کیوں نہیں ہو سکتا۔امریکہ کوئی عام ملک نہیں دنیا کی واحد سپرپاور ہے۔ شمالی کوریا اس کے مقابلے میں گرچہ چھوٹا سا ملک ہے مگر وہ بھی ایٹمی پاور اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ اس کے باوجود اس نے امریکہ کی داد ا گیری کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے اپنے موقف پہ ڈٹا رہا ۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا ایک ہی خطہ کے دو منقسم ممالک ہیں ۔ دونوں کے درمیان جنگ کی کیفیت برقرار رہتی تھی۔ مگر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ نے اپنے پڑوسی برادر ملک کے ساتھ بھی ٹوٹے ہوئے رابطے بحال کیے اعتماد کی فضا قائم کی اور دوستی کی ایک نئی تاریخ تحریر کی جس نے شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان تعلقات کی بحالی اور بہتری کی نئی راہ نکالی ہے۔ دونوں ممالک کے کروڑوں عوام نے جنگ کی فضاﺅں سے نکل کر اب امن کی فضاﺅں میں سانس لینا شروع کر دیا ہے۔ اسی بنیاد پر شمالی اور جنوبی کوریا میں امن کی بحالی کی تحریک پر امریکہ نے بھی بالاخر شمالی کوریا کی طرف پر امن بقائے باہمی کے سنہرے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دوستی کا ہاتھ بڑھایا جس کے جواب میں شمالی کوریا نے بھی امن کا ہاتھ بڑھایا۔ یوں دونوں ممالک کے جو جنگ کے قریب پہنچ چکے تھے اس صلح نامہ پر امن کے معاہدے پر دستخط کرکے دنیا کی نئی تاریخ لکھ رہے ہیں۔ اس ساری کارروائی کے پیچھے اگر غور کریں تو چین اور روس کی تحریکات بھی سامنے آتی ہیں۔ جنہوں نے امریکہ کے مقابلے میں شمالی کوریا کے تحفظ اور بقا کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے امریکہ کو کسی بڑے اقدام سے باز رکھا۔بہر حال یہ دنیا کے لئے ایک پیغام ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک بھی جو باہمی تنازعات میں الجھے ہوئے ہیں ان کے لئے بھی حتمی نتیجہ صرف جنگ ہی نہیں ہونا چاہیے۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا آخری حل نہیں ہے جدید دور میں اس کی وجہ سے مزید مسائل سامنے آتے ہیں۔پاکستان اور بھارت بھی بدقسمتی سے اپنے قیام کے فوراً بعد ہی بعض ایسے تنازعات میں الجھ گئے جس کی وجہ سے 70برس گزرنے کے باوجود بھی ان ممالک کے درمیان صلح اور امن کی راہ ہموار نہیں ہو سکی۔برصغیر کی تقسیم کے ساتھ ہی دنیا کے نقشے پر وجود میں آنے والے یہ دونوں ممالک اپنے قیام کے ساتھ ہی کشمیر آبی وسائل ، اثاثوں کی تقسیم اور مہاجرین کی شکل میں مشکلات کے ایک ایسے گرداب میں پھنس گئے جس میں سے نکلنے کی جتنی بھی کوشش کی گئی اتنے ہی پھنستے چلے گئے ۔ اس عمل میں پھنسنے کی بڑی وجہ ابتدا ہی سے بھارت کا بڑے ملک ہونے کا زعم اور پاکستان کو اپنے زیر دام لانے کی خواہش تھی۔ اگر بھارت اور پاکستان کے قائدین کو کچھ وقت ملتا تو شاید یہ تنازعات اتنا طول نہیں پکڑتے مگر بانی پاکستان حضرت قائداعظم اور بھارت کے مہاتما گاندھی بہت جلد دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس کے بعد کسی قیادت میں اتنا دم خم نہیں تھا کہ وہ بڑے فیصلے کر سکے۔ بھارت نے پاکستان کو کمزور کرنے اور اسے اپنا دست نگر رکھنے کےلئے سب سے پہلے ریاست جموں کشمیر پر اپنا تسلط جمایا اس پر فوجی طاقت سے قبضہ کیا یہ وہ قدم تھا جو بعدازاں پاکستان او ر بھارت کے درمیان سب سے بڑا تنازع بن کر سامنے آیا ۔ آبی مسائل بھی اسی تنازع سے جڑے ہوئے ہیں۔ اسی مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تین جنگین ہو چکی ہیں۔ پاکستان اپنا آدھا حصہ گنوا چکا ہے۔ دونوں ممالک اس تنازعہ کی وجہ سے کم و بیش 70 سال سے کنٹرول لائن یعنی سیز فائرلائن پر حالت جنگ میں ہیں۔کشمیری1947ءسے لے کر آج 2018ءتک بھارت کے جبری تسلط کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں وقفے وقفے سے وہاں بھارت سے علیحدگی کی کئی تحریکیں اٹھیں۔یہ علاقہ پوری دنیا میں شورش زدہ علاقوں میں فلسطین کی طرح ٹاپ پر ہے۔بھارت اپنی فوج کا ایک بڑا حصہ کشمیر میں رکھنے پر مجبور ہے اس کی پوری کوشش رہی ہے کہ دھونس دباﺅ اور لالچ سے کشمیریوں کو خرید سکے۔ اپنے دام میں لا سکے مگر ایسا کرنے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ 1989کے بعد جب سے کشمیر میں کلاشنکوف نے قدم رکھا تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی زندگی مل گئی۔ گزشتہ 28برسوں سے 70ہزار سے زیادہ کشمیری مادر وطن کی آزادی پر قربان ہو چکے ہیں۔ہزاروں لاپتہ ہیں، ہزارں بھارت کے دور دراز جیلوں میں بدترین اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ مگر تحریک جاری ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیری بھارتی تسلط کے خلاف طویل جنگ سے بھی گھبرائے۔پاکستان بھی اس مسئلہ کا اہم فریق ہے۔ اقوام متحدہ میں یہ مسئلہ بھارت لے کر گیا ۔ جہاں اس مسئلہ کا حل رائے شماری قرار پایا۔دونوں متاثرین ممالک یعنی پاکستان اور بھارت اس بات کے پابند ہیں کہ ریاست جموں کشمیر میں رائے شماری کا اہتمام کرکے وہاں کے عوام کو ان کی مرضی کے مطابق اپنے قسمت کے فیصلے کا حق دیں گے۔مگر بھارت اپنا فوجی قبضہ کشمیر پر مستحکم کرنے کے بعد اس مسئلے کے حل سے انکاری ہے۔ جب کبھی اسے پاکستان کے ساتھ باامر مجبوری مذاکرات کے لئے بیٹھنا پڑا اس کے نہایت رعونت سے مذاکرات کی میز الٹ دی۔ اس وقت دونوں ممالک ایٹمی اسلحہ سے لیس ہیں۔ دونوں ممالک کے اہم شہر ایک دوسرے کے ایٹمی ہتھیاروں کے نشانے پر ہیں۔لائن آف کنٹرول یعنی سیز فائر لائن گزشتہ کئی برسوں سے گرم ہے۔دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے پر بمباری کر رہی ہیں۔ ذرا سی بے احتیاطی کسی بھی وقت جنگ کے شعلوں کو بھڑکا سکتی ہے۔ جس کانتیجہ ایک ہولناک ایٹمی جنگ کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔ پوری دنیا اس خطرناک جنگ کے نتائج سے آگاہ ہے۔ جوکروڑوں انسانوں کو نگل لے گی۔
اس خطرے کے پیش نظر عالمی برادری دونوں ممالک پر دباﺅ ڈال رہی ہے کہ وہ تباہی اور بربادی سے بچنے کے لئے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کریں۔ اب تک یہ عمل مشکل نظر آ رہا تھا مگر سنگاپور میں گزشتہ روز جس طرح امریکی صدر ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کم جونگ نے تاریخ عالم میں ایک نئی پیش رفت کی بنیاد رکھی ہے۔ اس سے امید ہو چلی ہے کہ اگر روس اور چین پاکستان اور بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے دباﺅ ڈالیں امریکہ برطانیہ فرانس جرمنی وغیرہ بھی سنگاپور سمٹ کو بنیاد بنا کر یہ مسئلہ حل کرانے میں دلچسپی لیں تو کوئی وجہ نہیں کہ دنیا کے اس اہم ترین تنازعہ کے حل کی راہ ہموار نہ ہو۔یہ تمام ممالک پہلے بھی اس تنازع کے حل کےلئے ثالثی کی پیش کش کرچکے ہیں۔ اب وقت ہے کہ پاکستان اور بھارت بھی سنگاپور سمٹ والے جذبے کو مثال بنا کر کھلے دل کےساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف پیش رفت کریں ۔ عالمی برادری اس عمل میں ان کی معاونت کر سکتی ہے مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ عمل دونوں ممالک کے پونے دو ارب سے زیادہ انسانوں کی زندگی کو تباہی اور بدامنی کے گرداب سے نکال کر خوشحالی اور امن کی طرف ترقی کی راہوں کی طرف گامزن کر سکتا ہے۔