اسلام آباد (بی بی سی ڈاٹ کام) بی بی سی نے کہا ہے کہ پاکستان میں سویلین قیادت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف ای میلز اور ایس ایم ایس پر سزا کا تقرر تشویشناک کی بجائے دلچسپ ہے‘ مثال کے طور پر بدنیتی‘ غیر شائستگی اور اشتعال انگیزی کی تعریف اب ایف آئی اے انسپکٹر کی صوابدید پر ہو گی۔ دوسرا ایسی ای میل یا ایس ایم ایس بھیجنے کی سزا (14 برس قید) تو قتل کے جرم کے برابر ہو گی تاہم سم بلاک نہیں ہو گی۔ ایسا مواد جاری کرنے والی ویب سائٹ اور ای میل ایڈریس کی انٹرپول کی مدد سے شناخت ہو بھی گئی تو متعلقہ ویب سائٹ غیر ملکی ہونے کی صورت میں اس کے خلاف کیسے کارروائی ہو گی؟ اس پر وزارت داخلہ خاموش ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں موبائل فونز کی تعداد 6 کروڑ‘ غیر قانونی سمز کی 10‘ روزانہ بھیجے جانے والے ایس ایم ایس کی تعداد 40 کروڑ‘ ای میل اکاؤنٹ ہولڈر کی تعداد ایک کروڑ اور ای میلز کی 10 کروڑ ہے‘ دوسری طرف ایف آئی اے کے عملے کی تعداد تقریباً 3 ہزار ہے اور سائبر کرائمز ونگ میں 500 اہلکار ہیں‘ ایسے میں اس ایف آئی اے کو خوکش بمباروں اور مبینہ دہشت گردوں کا ریکارڈ رکھنا ہے۔ وائٹ کلر کرائمز اور فراڈ پر نظر رکھنا ہے۔ امیگریشن کے امور بھی نمٹانا ہیں جبکہ اب سویلین قیادت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف روزانہ بھیجے اور وصول کئے جانے والے ایس ایم ایس اور ای میلز پر بھی نظر رکھنا ہو گی۔ پیغامات بھی وہ جو زیادہ تر لطائف کی شکل میں ہوتے ہیں‘ یعنی گنجی دھوئے گی کیا اور نچوڑے گی کیا کیونکہ ایسے لطیفوں کو سرکاری اہلکار بھی موصول ہوتے ہی کم از کم 10 دوستوں کو آگے ارسال کرنا ’’ثواب جاریہ‘‘ سمجھتے ہیں۔ اس حکمنامے سے اس فراغت کا بھی اندازہ ہو سکتا ہے جس سے وزارت داخلہ موجودہ حالات میں لطف اندوز ہو رہی ہے۔ جب بارودی جیکٹیں دندناتی پھرتی ہیں‘ وزیر داخلہ رحمن ملک کو خود کچھ معلوم نہیں کہ اگلا جیکٹ پوش ان کے دفتر میں پھٹے گا یا ایف آئی اے کے گیٹ پر یا کسی حساس ادارے کی بس پر۔ تاہم انہیں یہ یقین ہے کہ ایک طنزیہ الیکٹرانک پیغام خودکش ٹرک سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ آج تک کسی مبینہ خودکش بمبار کو 14 برس قید اور جائیداد ضبطی کی سزا نہیں ہوئی۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024