بھارت ایران و پاکستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کر رہا ہے
ڈائریکٹرجنرل افغان ٹرانزٹ ٹریڈ سرفراز احمد وڑائچ کا کہنا ہے کہ یکم فروری سے افغانستان کا بھارت کے لیے ایکسپورٹ کارگو بغیر کنٹینرز کی نقل وحمل کی اجازت نہیں ہوگی۔ صرف تازہ پھل و سبزیاں بغیر کنٹینر کی ترسیل کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ خشک میوہ جات اور خراب نہ ہونے والی خوردنی اشیاء میں شامل ڈرائی فروٹ، مصالحہ جات اور طبی جڑی بوٹیاں برآمد ہوں گی۔افغانستان کا پاکستان کے راستے جانے والا برآمدی مال بندرگاہ اور واہگہ بارڈر کے ذریعے جاتا ہے۔ افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت آٹو پارٹس اور سگریٹ کی تجارت کی اجازت نہیں ہے۔ افغانستان سے بھارت کے لیے برآمدی کنٹینرز پر ڈیوائس چسپاں ہوں گے اور بھارت جانے والے تمام برآمدی کنٹینرزکی سخت مانیٹرنگ کی جائے گی۔پاکستان کے ذریعے افغانستان کی 30 فیصد ٹرانزٹ ہوتی ہے جب کہ افغانستان کا 40 فیصد مال ایران کے راستے ترسیل ہوتا تھا تاہم ایران کی موجودہ صورتحال ہر پاکستان سے افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ میں اضافہ ہوا ہے۔ 19- 2018 میں پاکستان کے راستے افغانستان سے بھارت کو 38 ارب روپے کا برآمدی کارگو ترسیل ہوئی اور اس دوران پاکستان سے ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت افغانستان کو 2 اعشاریہ 3 ارب ڈالر کا مال گیا جب کہ افغانستان سے بھارت کو پاکستان کے راستے سالانہ 1 لاکھ 20 ہزار کنٹینرز کی ترسیل ہوتی ہے۔متبادل کے طورپر بھارت چا بہار بندرگاہ میں اسی لئے دلچسپی لے رہا ہے۔کیونکہ اس راستے سے وہ پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے براہ راست افغانستان پہنچ سکتا ہے۔ انڈیا افغانستان اور ایران نے گذشتہ برس اس سلسلے میں ایک سہ فریقی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ بھارت نے افغانستان کو گندم سپلائی کرنے کے لیے اس راستے کا استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔اقتصادی اور جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر چا بہار بندرگاہ نہ صرف ایران بلکہ بھارت اور افغانستان کے لیے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ بھارت کے لیے ایران، افغانستان اور مشرق وسطیٰ کی تجارتی منڈیوں تک رسائی میں جغرافیائی اعتبار سے ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ان علاقوں تک تمام زمینی راستے پاکستان ہی سے ہو کر گزرتے ہیں۔بھارت نے اسی وجہ سے اپنی ملکی سرحد سے نو سو کلومیٹر کی دوری پر واقع چا بہار میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، کیوں کہ یہ بندرگاہ بھارت کا ان منڈیوں تک رسائی کا یہ دیرینہ مسئلہ حل کر دیتی ہے۔
بھارت اور ایران کے مابین 2003ء میں چابہار کے مقام پر ایک بندرگاہ بنانے پر اتفاق ہوا تھا۔ بھارت نے ایران کو ناکارہ اور دور افتادہ بندرگاہ کو ڈیویلپ کرنے کی راہ پر لگایا۔ چا بہار بندرگاہ میں بھارت کی دلچسپی کی کئی وجوہات ہیں، وہ اس راستے سے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان پہنچ سکتا ہے۔ دوسرا وہ گوادر بندرگاہ کی اہمیت کم کرنا چاہتا ہے اس مقصد کے لئے وہ چا بہار سے زاہدان تک ریلوے لائن بچھانے کا بھی پروگرام رکھتا ہے۔ چاہ بہار کو سڑکوں اور ریل کے ذریعے افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں سے ملانا بھی بھارت کے پروگرام میں شامل ہے۔ اس بھاری سرمایہ کاری کا بڑا مقصد تو گوادر پورٹ اور سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو ایران اور افغانستان کے قدرتی اور معدنی وسائل کے استعمال کے مواقع بھی حاصل ہو جائیں گے۔چابہار توسیعی منصوبے کی تکمیل کے بعد اب گوادر کو بین الاقوامی شپنگ معاملات میں سخت مسابقت کا سامنا ہو سکتا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ ایرانی سرحد سے محض نوے کلو میٹر کی دوری پر ہے۔ایرانی حکومت کا اگلا پلان یہ ہے کہ اس بندرگاہ کو ریل نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔ اس طرح وسطی ایشیائی ریاستیں بھی اس بندرگاہ سے استفادہ کر سکیں گی۔ بھارت بھی اسی بندرگاہ سے وسطی ایشیائی مار کیٹوں تک رسائی کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ یہ نیٹ ورک ایک طرف چین کی جانب جائے گا تو دوسری جانب روس کے راستے شمالی یورپ تک پہنچے گا۔بھارت پاکستان کے خلاف اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے ، بھارت کو پاکستان فوبیا ہوگیا ہے، بھارت کو چین فوبیا ہوگیا ہے، بھارت ہر مقابلے میں چین پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ بھارت کو ایرانی بندرگاہ دور پڑتی ہے جب کہ تھائی لینڈکی بندرگاہ سمیت کئی بندرگاہیں اسے نزدیک پڑتی ہے۔ لیکن پھر بھی بھارت یہاں اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ چین نے اپنی توانائی کی ضروریات کو یقینی بنانے کے لیے بنائی ہے۔ یوں بھارت چابہار اور چین گوادر کے ذریعے افریقہ، لاطینی امریکہ اور افغانستان تک سے اقتصادی معاہدے کرنا چاہتا ہے۔ بنیا ذہنیت کا مفاد اور غرض کے بغیر کسی مسلم ملک کو ترقی دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اْس نے برادر ہمسایہ ملک افغانستان کو پاکستان سے دور کرنے میں کافی کامیابی حاصل کر لی ہے۔ اب وہ دوسرے بھائی ایران اور پاکستان کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے میں بھی وہی ہتھکنڈے اور طور طریقے بروئے کار لا رہا ہے جو اْس نے پاک افغان تعلقات میں دراڑیں پیدا کرنے کے لئے استعمال کئے تھے۔ بھارت اپنے مفادات کے لئے دوست ملکوں کی نیک نامی کو دائو پر لگانے سے بھی نہیں ہچکچاتا۔ ایران سے دوستی کی آڑ میں چا بہار میں را کا نیٹ ورک قائم کر لیا جس کا ایران کو بھی پتہ نہ چل سکا۔ یہاں سے بھارتی جاسوس کل بھوشن، بلوچستان میں تخریبی سرگرمیوں کو کنٹرول کرتا رہا۔
پاکستان کا کہنا بالکل بجا ہے کہ بھارت افغانستان میں مداخلت کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان کی حکومت اس کے زیر اثر رہے تاکہ پاکستان کو دونوں سرحدوں پر گھیرا جا سکے۔ جبکہ بھارت کا موقف ہے کہ افغانستان سے اس کے تاریخی رشتے ہیں اور وہ صرف انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وہاں امدادی کاموں میں حصہ لے رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے درمیان کون سے تاریخی رشتے ہیں ۔ ان کے درمیان نہ تو مذہبی رشتہ ہے نہ برادری اور نہ ہی ہمسائیگی کا۔لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سے بین الاقوامی راہداری کا منصوبہ کچھ خطرے کا شکار ہوا۔ ایران کے جوہری معاہدے کو منسوخ کرنا ان کی اولین ترجیح تھا۔ ایسے میں ایران کے ساتھ کاروبار کرنے والی بین الاقوامی کمپنیاں پھر پابندیوں کی زد میں آ سکتی تھیں اور آئیں بھی لیکن امریکہ نے بھارت سے کمال مہربان سلوک کرتے ہوئے نہ صرف ایرانی تیل کی درآمد کی اجازت دی بلکہ چاہ بہار پر تعمیراتی کام کرنے کی بھی اجازت دے دی یوں بھارت کے اربوں ڈالر جو چاہ بہار پر صرف کئے تھے، ضائع ہونے سے بچ گئے مگر چاہ بہار بندرگاہ بھارتی سازو سامان اور بین الاقوامی تجارت مشرق وسطی اور یورپی ممالک تک آسان اور سستا راستہ ثابت نہ ہو سکی اور اس کو اتنی پذیرائی نہ مل سکی جتنی بھارت کے خیال میں ملنی چاہیے تھی صرف یہ فائدہ ہوا کہ افغانستان تک بھارت کو رسائی کیلئے زمینی راستہ مل گیا۔