سابق حکمرانوں کی تاحیات سیکورٹی‘ پرتعیش مراعات : چیف جسٹس کا ازخود نوٹس
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سابق وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزرائے داخلہ اور سپیکروں کو تاحیات سکیورٹی اور پرتعیش غیر معمولی مراعات کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ سرکاری خرچے پر سکیورٹی اور مراعات قانون کے منافی ہیں، عوام صاف پانی جیسی سہولتوں سے محروم ہیں، ملک سابق عوامی نمائندوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا، سماعت 16 اپریل سے تین رکنی بنچ کرے گا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس افتخار محمد افتخار محمد چودھری نے رجسٹرار سپریم کورٹ کی طرف سے ذرائع ابلاغ میں سابق وزرائے اعظم، سابق وزیر داخلہ، سابق وزیر اعلیٰ سندھ اور سپیکر کو تاحیات سکیورٹی اور غیر معمولی مراعات دینے کے نوٹ پر ازخود نوٹس لیا۔ چیف جسٹس نے نوٹ میں لکھا کہ سرکاری خرچے پر سکیورٹی اور یہ مراعات قانون کے منافی ہیں۔ چیف جسٹس نے سابق وزرائے اعظم، سابق وزیر داخلہ، سابق وزیر اعلیٰ سندھ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو نوٹس جاری کر دئیے ہیں۔ سیکرٹری داخلہ، سیکرٹری قانون چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری سندھ کو بھی نوٹس جاری کر دیا گیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے 16 اپریل کو شق وار جواب طلب کر لیا ہے۔ آڈیٹر جنرل اور اکا¶نٹنٹ جنرل کو ان سیاستدانوں کو دی گئی مراعات کا تخمینہ لگانے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل اور انسپکٹر جنرل سندھ سے پیراوائز نکات پر مبنی رپورٹ 16 اپریل تک طلب کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے ازخود نوٹس رجسٹرار کی جانب سے پیش کردہ مختلف اخبارات کی خبروں کی کٹنگ پر مبنی رپورٹ پر لیا۔ سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی آئینی مدت پوری ہونے سے صرف چند گھنٹے قبل وزارت داخلہ نے 14 مارچ کو سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا جبکہ سندھ کی صوبائی اسمبلی کے آخری اور اسمبلی نے پاکستان پیپلز پارٹی کے دو ارکان غلام مجدد اور ڈاکٹر سکندر مندھرو کی جانب سے پیش کردہ پرائیویٹ بلز منظور کئے جن کے مطابق وزیر اعلیٰ سندھ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے لئے ”تاحیات مراعات“ دینے کے لئے پریویلیجز (ترمیمی) قانون 2013ءکا بل منظور کیا۔ رجسٹرار کی جانب سے اخبارات کی کٹنگ سے متعلق نوٹ میں بتایا کہ سابق وزیراعظم، صوبائی وزرائے اعلیٰ، سپیکروں اور ڈپٹی سپیکروں اور ارکان صوبائی اسمبلی کو غیر معمولی سکیورٹی اور مراعات کا بل منظور کیا گیا جو آئین کے آرٹیکل 184، 4، 9، 24 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔ منظور کردہ بل کے تحت اسلام آباد پولیس سے 450 اہلکار لئے گئے ہیں۔ ان میں سے 150 راجہ پرویز اشرف، 150 کو یوسف رضا گیلانی کی سکیورٹی و پروٹوکول کے لئے مختص کئے گئے آمد و رفت کے دوران 15 رینجرز اہلکار، 15 فرنٹیئر کانسٹیبلری اہلکاروں کی خدمات فراہم کرنے کے لئے کہا گیا ہے۔ راجہ پرویز اشرف اور گیلانی کے علاوہ یہ سکیورٹی اور مراعات چودھری شجاعت حسین اور ظ فر اللہ جمالی کو بھی حاصل ہوں گی۔ ڈی آئی جی سلطان اعظم تیموری کی نگرانی میں پانچ رکنی ڈی ایس پیز کی ٹیم 450 پولیس اہلکاروں کی شفٹوں اور پروٹوکول فراہمی کے معاملات کو دیکھے گی۔ فوج کے ریٹائرڈ افراد کو تین سال کے کنٹریکٹ پر رکھتے ہوئے 450 افراد پر مبنی پولیس سکواڈ تیار کیا گیا ہے۔ ان حکام کو ان کی فیملی سمیت ایئرپورٹ پر وی آئی پی لا¶نج استعمال کرنے کی اجازت ہو گی جبکہ وہ ڈرائیور، خانسامہ، پرائیویٹ سیکرٹری بھی رکھ سکیں گے جن کو 10 ہزار روپے کے حساب سے تنخواہ دی جائے گی۔ سندھ اسمبلی کے پاس کئے گئے بل کے مطابق ایک سابق ممبر اسمبلی ہر جگہ سرکاری رہائش استعمال کر سکے گا۔ ایئرپورٹ پر وی آئی پی پروٹوکول، تاعمر پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی میں آنے جانے کا اجازت نامہ، سرکاری پاسپورٹ، 4 اسلحہ لائسنس سالانہ جاری کرنے کا مجازز ہو گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق نوٹس میں استفسار کیا گیا ہے کہ سابق وزرائے اعظم کو غیر معمولی حفاظتی پروٹوکول کیوں دیا گیا۔ راجہ پرویز اشرف، رحمن ملک اور قائم علی شاہ کو بھی نوٹس جاری کئے گئے ہیں۔ ازخود نوٹس میں مراعات کی تفصیل بھی درج ہے اور کہا گیا ہے کہ ان مراعات سے قومی خزانے پر بوجھ پڑے گا۔ ایسی مراعات سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی افرادی قوت بھی کم ہو گی۔ سیکرٹری داخلہ اور قانون وزیراعظم کے خود کو مراعات دینے کی آئینی حیثیت واضح کریں آڈیٹر جنرل اور اکا¶نٹنٹ جنرل مراعات کے اخراجات کی تفصیل پیش کریں۔ سپریم کورٹ کی جانب سے ملکی تاریخ میں یہ سب سے بڑا ازخود نوٹس ہے، اس سے قبل اتنی بڑی تعداد میں افرد کو نوٹسز جاری نہیں کئے گئے۔
چیف جسٹس / نوٹس