آج کشمیر میں لاک ڈاؤن کو چالیس دن مکمل ہو جائیں گے۔ دور جدید میں جب دنیا ایک بٹن دبانے کے فاصلے پر ہے، ایسے دور میں جب آپ پلک جھپکنے میں ویسٹ انڈیز، امریکہ، برازیل، کینیڈا،انگلینڈ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، فرانس، سپین، جرمنی، ترکی، شام، یمن، مصر، اسرائیل، نیپال، مالدیپ، آسٹریلیا اور بھارت سمیت تمام ملکوں سے پل پل کی خبر لے سکتے ہیں اس جدید دور میں بھی دنیا کشمیریوں کی حالت جاننے سے محروم ہے۔ ایسا دور جہاں صرف ایک موبائل فون ہی ریکارڈنگ کی بہت سی ضروریات پوری کر دیتا ہے اس دور میں بھی دنیا محصور کشمیریوں کی خیر خبر سے محروم نظر آتی ہے۔ یہ ایسا دور ہے کہ امریکہ میں بیٹھ کر دنیا میں کہیں ڈرون طیارے کی مدد سے دشمن کو نشانہ بنا کر ختم کیا جا سکتا اس دور میں بھی کشمیریوں کی حقیقی آواز اور ان کے حالات جاننا مشکل ترین کام ہو چکا ہے۔ ہم ایسے دور میں زندہ ہیں جسے معلومات کا دور کہا جاتا ہے، ٹیکنالوجی کا دور کہا جاتا ہے، تیز ترین اور آسان رسائی کا دور کہا جاتا ہے۔ اس آسان دور میں بھی کشمیریوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جا رہا اس بارے حقیقی طور پر جاننا مشکل تر ہو چکا ہے۔ وہ دنیا کو روبوٹ سے کام لے رہی ہے، ڈرون سے دشمنوں کو اڑا رہی ہے، چاند کی طرف سفر کر رہی ہے، نے نئے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور ایجادات کر رہی ہے۔ ایجادات کے اس دور میں بھی اگر کسی کو اپنے گھر میں قید کر دیا گیا ہے اور بیرونی دنیا اس بارے میں جاننے کی خواہشمند تو ہے لیکن اسے کوئی معلومات نہیں مل سکتیں کیونکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے نام نہاد دعویداروں نے تہذیب، اخلاق، آئین و قانون اور عالمی معاہدوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر ہندوتوا کے نام پر دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ نریندرا مودی اور اسکے انتہا پسند ساتھیوں نے لگ بھگ نوے لاکھ افراد کو گھروں میں قید کر کے ساری دنیا کو پتھر کے دور میں دھکیل دیا ہے۔ جہاں سے نہ کوئی خبر آتی ہے، نہ آواز آتی ہے، نہ رابطے کا کوئی ذریعہ ہے نہ کوئی آمدورفت ہے نہ کوئی روشنی ہے نہ ہی کوئی راستہ ہے۔ ہنستے کھیلتے انسانوں کے علاقے کو جنگل بنا دیا ہے۔ اور اس جنگل میں تربیت یافتہ آدم خوروں کو چھوڑ دیا ہے کہ وہ چن چن کر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے والوں کو قتل کرتے جائیں ان پر دائرہ حیات تنگ کرتے جائیں، ان کی عزت نفس کو مجروح کرتے جائیں، ان کی عزتوں کو پامال کرتے جائیں۔ یہ اس دور میں ہو رہا ہے جہاں جانوروں کے حقوق پورے نہ کرنے پر بھی مقدمات ہو جاتے ہیں لیکن جیتے جاگتے انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیلنے والے مودی کی طرف کوئی ہاتھ نہیں بڑھا رہا۔ چالیس روز ہو گئے۔ پاکستان دنیا کو مسلسل بتا رہا ہے کہ کشمیر میں کیا ظلم ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود ابھی تک نریندرا مودی کو شرم نہیں آئی۔ نریندرا مودی اور اس کے تربیت یافتہ آدم خور اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی کہتے ہیں کہ پچاس سال مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں زیر بحث آیا ہے یہ پاکستان کی سفارتی کامیابی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ غاصب بھارتی افواج تشدد، قتل و غارت گری، خواتین کی عصمت دری، اور پیلٹ گنوں سے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔ پوری قوم کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہم کشمیریوں کی نسل کشی قطعا برداشت نہیں کریں گے۔اگر دنیا نے کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم کا نوٹس نہ لیا تو بہت بڑا عالمی بحران جنم لے سکتا ہے۔
جناب صدر بھارت نسل کشی کے لیے کسی سے اجازت نہیں لے گا آج لاک ڈاؤن کو چالیس روز ہو رہے ہیں۔کشمیریوں کی نسل کشی کا اس سے بڑا کوئی اور ثبوت ہو سکتا ہے۔ جب جیلیں بھر جائیں، نمازوں پر پابندی عائد کر دی جائے، عاشورے کے جلوسوں پر دھاوا بول دیا جائے تو کون سے قوانین باقی بچتے ہیں۔ ہمیں باتوں سے آگے بڑھ کر سوچنا ہو گا۔ ہمیں سفارتی کامیابی سے غرض نہیں ہے جو اقوام متحدہ پچاس سال تک اس اہم ترین مسئلے پر گفتگو نہ کر سکی اس سے ہم خیر کی توقع کیسے کر سکتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی حکمت عملی خود ترتیب دینی ہے۔ دنیا کو قائل، مائل اور مذمت کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں لیکن ساتھ ہی ساتھ ہندو برتری کے خواہشمندوں کی مرمت کا سامان بھی کریں۔
امریکی سینیٹرز نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھ کر جموں کشمیر سے کرفیو اور لاک ڈاؤن کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینیٹرز نے کشمیر میں مواصلاتی نظام کی بحالی کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھارتی وزیر اعظم نریندرا مودی سے ملاقات کا مشورہ دیا ہے۔ امریکہ صدر کو خط لکھنے والے سینیٹرز میں ٹاڈین، بینجمن ایل کارڈن، کرس سین ہولن اور لنزے گراہم شامل ہیں۔ امریکی سینیٹرز کا ڈونلڈ ٹرمپ کو خط خوش آئند ہے لیکن اس خط و کتابت میں جتنا نقصان ہو رہا ہے کیا اس کا ازالہ ممکن ہے، جو عزتیں لٹ رہی ہیں کیا وہ واپس آ جائیں گی، جو زندگیاں ختم ہو رہی ہیں کیا وہ واپس آ جائیں گی، جن بچوں کے ذہن تباہ ہو رہے ہیں کیا وہ نارمل ہو پائیں گے، جن بہنوں کے بھائی بچھڑ گئے کیا وہ واپس آئیں گے، جو بچے یتیم ہو گئے کیا انہیں دوبارہ والد کی شفقت میسر آئے گی، جو ماں کی محبت سے محروم کر دیے گئے ہیں کیا وہ کبھی دوبارہ اپنی والدہ کو دیکھ پائیں گے۔ ہم امریکی سینیٹرز کے مشکور ہیں کہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی توجہ حاصل کرنے اور دور حاضر کے سب سے اہم ترین مسئلے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ ثالثی کی پیشکش بھی کر چکے ہیں لیکن ان تمام پیشکشوں اور کاوشوں میں بھی لاک ڈاؤن کو چالیس روز گذر چکے ہیں۔کیا ثالثی کے لیے مسلمانوں کی اکثریت کے ختم ہونے کا انتظار کیا جا رہا ہے، کیا بھارتی فائدے کی ثالثی کے وقت کا انتظار ہو رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ثالثی نہیں ملی بھگت ہو گی، ایسا ہوتا ہے تو اسے سازش سمجھا جائے گا، ایسا ہوتا ہے تو یہ کشمیریوں کے خون سے غداری اور ناانصافی کے مترادف ہو گا۔ امریکی سینیٹرز صدر ٹرمپ سے یہ بھی مطالبہ کریں کہ مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے تاکہ دنیا کو بھارتی وزیراعظم کا اصل اور بھیانک چہرہ نظر آئے۔ امریکی سینیٹرز نے اپنا فرض نبھایا ہے اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ذمہ داری نبھائیں اور اگر کسی نے اپنی ذمہ داری اور فرض نہ نبھایا تو پھر پاکستانی قوم اور افواج پاکستان کشمیریوں سے اپنا وعدہ نبھائیں گے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024