ہمارے ملک کی طرح صوبہ پنجاب میں بھی یوم عاشورنہایت عقیدت و احترام سے منایا گیا۔ بڑی بڑی مجالس عزا اور جلوس علم و ذوالجناح پرامن طریقے سے برآمد ہو کر اختتام پذیر ہوئے۔ کہیں سے بھی کوئی ناخوشگوار واقع کی اطلاع نہیں ملی۔ پنجاب جیسے بڑے صوبے میں ساری صورتحال کو کنٹرول کرنا حکومت اور انتظامیہ کے لیے ایک بڑا امتحان ہوتا ہے۔ شکر ہے کہ اس برس بھی پنجاب حکومت اور پولیس نے نہایت ذمہ داری سے کام لیتے ہوئے اپنا فرض نہایت خیر و خوبی سے سرانجام دیا۔ ہزاروں پولیس اہلکار دن رات نہایت جانفشانی سے ڈیوٹی انجام دیتے رہے اور صوبائی انتظامیہ الرٹ رہی۔ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار اپنی کابینہ کے ساتھ لمحہ بہ لمحہ ساری صورتحال کو خود مانیٹر کرتے رہے۔ دہشت گردی کی وارننگ کی وجہ سے تمام صوبے کے تمام جلوسوں اور مجالس کی کڑی نگران کی گئی خفیہ کیمروں سے صورتحال پر نظر رکھی گئی۔ خود وزیر اعلیٰ پنجاب نے صورتحال کی نگرانی کے لیے شہر کا فضائی دورہ کیا اور انتظامیہ سے کڑا رابطے میں رہے۔ ان تمام حفاظتی امور کی وجہ سے یوم عاشور نہایت پرامن طریقے سے اختتام پذیر ہوا۔ اس پر وزیر اعلیٰ پنجاب اور مقامی انتظامیہ مبارکباد کی مستحق ہے۔ ان باتوں کے علاوہ اس بار تمام تر سخت اقدامات کے باوجود شہر میں بلاجواز ٹریفک کی بندش اور عوام کو تنگ کرنے سے اجتناب برتا گیا۔
9 محرم کو وزیر اعلیٰ نے حضرت داتا گنج بخش کے مزار کو غسل دینے کی تقریب میں بھی شرکت کی اس موقع پر بھی سخت سکیورٹی کے باوجود عوام کے آمدورفت میں زیادہ خلل نہیں ڈالا گا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر منظم اور احتیاط کے ساتھ کام کیا جائے تو کہیں بھی بدنظمی پیدا نہیں ہوتی۔ صرف ہٹوبچو کی صدائوں سے عوام میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔ طرح طرح رکاوٹوں سے ان کا پارہ بھی چڑھ جاتا ہے۔ اس پر سب کچھ معمول کے مطابق ہوا۔ قانون کے تحت ہوا جو ایک اچھی روایت ہے۔ اس پر آئندہ بھی عمل ہونا چاہئے۔ ویسے بھی اس وقت پولیس کے حوالے سے کافی لے دے ہو رہی ہے۔ پولیس تشدد یا پولیس گردی کی وجہ سے عوام کا بڑا حصہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ تھانہ کلچر اور وہاں کا کرپٹ ماحول یہ بات سچ ثابت کرتا نظر آتا ہے کہ 99 فیصد پولیس والوں کی وجہ سے باقی پولیس بھی بدنام ہے۔ اگر وزیر اعلیٰ اپنے دور اقتدار میں پولیس کلچر میں تھانہ کلچر میں واقعی کوئی مثبت تبدیلی لاتے ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ ورنہ ایک طرف خود لیڈی کانسٹیبل فائزہ جیسی کہانیاں جنم لیتی رہیں گی جس میں خود پولیس اپنے ملازم سے انصاف نہیں کر پاتی تو دوسری طرف پولیس کے ہاتھوں مارے جانے والے لوگوں کے لواحقین پولیس مظالم کیخلاف روتے اور احتجاج کرتے نظر آئیں گے۔
(پس تحریر) ایک طرف تو وطن عزیز میں یوم عاشور خیرخیریت سے گزر گیا تو دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں یوم عاشور پر جس طرح بھارتی قابض افواج نے کشمیر میں ظلم و بربریت کی نئی داستان رقم کی وہ تاریخ میں بھارت کے سیاہ کارناموں میں سے ا یک کارنامہ کہلائے گی۔ کرفیو کے نام پر عزاداری کی اجازت تک نہیں دی۔ چھوٹی چھوٹی ٹولیوں کی شکل میں عزا داروں کے جلوس جہاں کسی کونے سے برآمد ہوئے بھارتی سکیورٹی اہلکار بھوکے کتوں کی طرح ان پر پل پڑتے۔ لاٹھی چارج آنسو گیس اور پیلٹ گن سے چھرے برسا کر عزاداروں کو منتشر کر دیا جاتا جو سخت جان ہوتے ڈٹ جاتے انہیں بے دردی سے مار پیٹ کر گرفتار کر کے گاڑیوں میں ٹھونسا جاتا۔ اس دوران نہ تو علم کی پرواہ کی گئی نہ مقدس ناموں کی حرمت کا خیال رکھا گیا۔ اس کے باوجود درجنوں مقامات پر چھوٹے بڑے جلوس نکالنے کی کوشش ہوتی رہی۔ یہ آنکھ مچولی شام تک جاری رہی۔ اس بدترین تشدد اور پابندیوں کی وجہ سے عاشورہ کا مرکزی جلوس وادی کشمیر میں کہیں بھی اپنے مقررہ روٹ کے مطابق نہ نکالا جا سکا۔ سرینگر میں سخت ترین پابندیوں کی وجہ سے لال چوک ویران نظر آ رہا تھا۔ عزا داروں کو امام بارگاہوں تک جانے کی اجازت نہیں تھی۔ بڈگام حسن آباد ، زڈی بل میں بمشکل مقامی سطح پر مجالس عزا منعقد ہو سکیں۔ کسی کو مین روٹ پر آنے کی اجازت نہیں ملی۔ ان حالات میں ایران کی حکومت پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بھارت سے اس پر شدید احتجاج کرے۔ کیونکہ ایران اہل تشیع کا سب سے بڑا اور مضبوط حامی ہے۔ وادی کشمیر میں ا یرانی شیعہ مبلغین نے ہی فقہ جعفریہ کی بنیاد رکھی۔ بھارت ایران کی بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کیونکہ وہ کسی بھی صورت ایران کوناراض نہیں کر سکتا۔ اگر ایرانی حکومت مسئلہ کشمیر پر دبائو ڈالے تو بھارت کو گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024