مکرمی! چند دن قبل مجھے سوشل میڈیا پر جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق کی ایک تقریر کا کچھ حصہ سننے کو ملا تو مجھے ایسا لگا کہ انہوں نے میری سوچ کو اور میرے ہی دل کی بات کو اچھے پیرائے میں اپنے تجربے کی سچائی کی بنیاد پر عوام سے شیئر کی ہے۔ انہوں نے فرمایا کہ سال 2003-04ء کے بجٹ میں جب وہ خیبرپختون خواہ کے وزیر خزانہ تھے تو ورلڈبنک کی طرف سے ہمیں پانچ ارب روپے ملنے تھے۔ جسے انہوں نے اپنے بجٹ کا حصہ بنا لیا لیکن جب وہ چھ ماہ تک نا ملے انہوں نے تو ورلڈبنک کے کنٹری ڈائریکٹر سے بات کی تو جواب میں اس نے کہا کہ آپ نے پشاور میںعورتوں کے بل بورڈ توڑے ہیں اس کی وجہ سے قرضہ رک گیا ہے سراج الحق کہتے ہیں کہ تب مجھے پتہ چلا کہ قرضے قوموں کی ترقی کے لئے نہیں ملتے بلکہ قوموں غلام بنانے کے لئے ملتے ہیں سراج الحق کی باتیں سن کر میری ذہنی کیفیت اضطراب کا شکار ہے مجھے ایسا لگا کہ ہم ورلڈبنک کے جال میں طری طرح پھنس چکے ہیں ترازو کا وہ پلڑا جس میں ورلڈبنک کا قرضہ ہے اتنا بھاری ہو چکا ہے مکہ ہم اپنی اساس اپنا سب کچھ داؤ پر لگا چکے ہیں۔ لوگوں کو اعتماد میں لیں ٹیکس سب سے لیں مگر مناسب حد تک لیں جس چیز پر ٹیکس زیادہ ہو گا اس سے گورنمنٹ کو اتنی آمدن حاصل نہیں ہوتی جتنی کرپشن میں چلی جاتی ہے میری رائے یہ بھی ہے کہ غربت کم کرنے کے لئے غربت مکاؤ فنڈ کی رقم کم کر کے لوگوں کو روزگار اور ہنر سکھائے جائیںتا کہ ہم بھکاری قوم کے سٹیٹس سے نکل کر محنتی اور ہنر مند قوم کے سٹیٹس میں آ جائیں۔(زاہد رؤف کمبوہ، غلہ منڈی گوجرہ فیصل آباد)
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024