ڈاکٹر خان کی وفات کی ’’گڈ نیوز‘‘
میرا دماغ شل اور عقل مائوف ہے۔ سمجھ نہیں آ رہی کسے دوشی ٹھہرائوں ، بزرگ کشمیری قائد سیدعلی گیلانی خطۂ کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑتے لڑتے دشمن بھارت کی قید میں ہی شہید ہو گئے۔ بزدل دشمن ان کی ز ندگی سے ہی نہیں ، ان کی موت سے بھی خوفزدہ رہا چنانچہ سفاکی کے ساتھ ان کی میّت کو ان کے اہل خانہ سے چھین کر کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا اور پھر رات کی تاریکی میں ہی پُراسرار انداز میں سُپرد خاک کر دیا۔ ان کی زندگی کا بڑا حصہ اس لئے بھارتی قید و بند میں گزرا کہ انہیں نقل و حمل کی آزادی حاصل ہو گی تو وہ کشمیریوں پر توڑے جانے والے بھارتی مظالم اور کشمیر کے کیس سے اقوام عالم کو پل پل آگاہ رکھیں گے اور کشمیریوں کے دلوں میں آزادی کی جوت جگائے رکھیں گے۔ اس نحیف و نزار آدمی نے 90 سال سے تجاوز کرتی عمر میں بھی اور اپنے جسم کی نقاہت کے ساتھ بھی اور پھر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی توسیع پسندانہ سوچ رکھنے والے مکار دشمن پر لرزہ طاری رکھا۔ ارے صاحب! یہ تو دشمن کی کم ظرفی تھی جس کے سوتیانہ مظاہرے پر وہ چار وانگِ عالم میں بدنام و رسوا ہوا۔ مگر میرا دماغ فی الواقع شل ہوا جاتا ہے۔ یہ سوچ کر ذہن پر ہتھوڑے برستے نظر آتے ہیں کہ ہم نے محسنِ پاکستان ، اپنے قومی ایٹمی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کو ان کے کس جرم کی سزا دی کہ انہیں اپنی زندگی کے آخری سانس تک آزاد فضائوں میں زندگی گزارنا نصیب نہ ہو سکا اور آخری ہچکی لینے تک وہ اپنے اس وطن میں ایک قیدی کی زندگی گزارتے رہے جسے انہوں نے ایٹمی قوت سے سرفراز کر کے دشمن کے لئے ناقابلِ تسخیر بنا دیا تھا اور جس کے باشندوں کو دشمن کی ایٹمی جنگی جنونیت کے آگے بند باندھ کر محفوظ بنا دیا تھا۔
آپ ذرا تصور کیجئے۔ 71ء کی جنگ میں دشمن کے ہاتھوں دولخت ہوئے ، کمزور، مایوس اور پژمردہ وطن عزیز کو دشمن کے 1974ء والے پہلے ایٹمی دھماکے کے بعد ہالینڈ میں اپنے اچھے مستقبل کے ساتھ بندھے نوجوان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کے دل میں دفاع وطن کی جوت نہ جاگتی اور وہ اپنے اچھے مستقبل کی ساری منصوبہ بندی ترک کر کے ارض وطن کو دشمن کے مقابلے ایٹمی قوت بنانے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو کی آواز پر لبیک نہ کہتے اور ملک واپس آ کر ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں جُت نہ جاتے تو ہماری باقیماندہ سلامتی پر چنگھاڑتے دشمن کے ہاتھوں ہمارا اب تک کیا حشر ہو چکا ہوتا۔ مگر ہم نے تو ارضِ وطن کی سلامتی محفوظ کرنے والے اپنے اس ہیرو کا ہی حشر نشر کر دیا۔ بھوپال میں پیدا ہونے اور جرمنی ، ہالینڈ میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے ہمارے اس سپوت نے اس ارضِ وطن میں آ کر حب الوطنی کی نادر مثالیں قائم کیں۔ جیسے تیسے حاصل کئے گئے یورینیم سے ملک کو ایٹم بم کا ہی تحفہ نہیں دیا ، مختلف اقسام کے میزائلوں کے انبار لگا کر اس ارضِ وطن کو عملاً ناقابلِ تسخیر بھی بنا دیا۔ وہ اپنی دسترس میں آنے والی ایٹمی ٹیکنالوجی کو توانائی کے بحران سے عہدہ براء ہونے اور اس بحران کے باعث طاری اندھیروں سے بھی ملک کو نکالنے کا عزم رکھتے تھے۔ ایٹمی بجلی گھروں کی تیاری ان کے ذہنِ رسا میں اٹکھیلیاں کرتی رہتی تھی۔ انہیں بھٹو اور ضیاء الحق جیسے حکمرانوں کی معاونت اور آشیرباد حاصل رہتی تو آج اس ارض وطن پر بجلی کی لوڈشیڈنگ کا کہیں تصور بھی موجود نہ ہوتا مگر یہ کیا ہوا کہ اقتدار کے ایوانوں میں ان سے ایٹمی ہیرو کا ٹائٹل چھیننے کی سازشوں کا بھی عمل دخل شروع ہو گیا۔ یہ سازشیں اس وقت طشت ازبام ہوئیں جب -28 مئی 1998ء کو ملک کے ایٹمی قوت ہونے کا باضابطہ اعلان کرنے کا شیڈول طے ہوا۔ اس وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف تو ایٹمی دھماکہ کرنے کے معاملہ میں ویسے ہی شش و پنج میں پڑے تھے جنہیں محترم مجید نظامی کی اس للکار نے ایٹمی دھماکے کے لئے بٹن دبانے پرمجبور کیا کہ آپ نے دھماکہ نہ کیا تو قوم آپ کا دھماکہ کر دے گی ، میں آپ کا دھماکہ کر دوں گا۔ وہ طوہاً و کرہاً دھماکے کا شیڈول دینے پر مجبور ہوئے مگر -28 مئی کو چاغی کے پہاڑ کے دامن میں دھماکے کی تقریب کے لئے مدعو افراد کی فہرست سامنے آئی تو اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کا نام ہی شامل نہیں تھا اور ان کی جگہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے خالق کے طور پر مدعو کیا گیا۔ اس پر بھی محترم مجید نظامی نے میاں نواز شریف کو آڑے ہاتھوں لیا چنانچہ وہ تقریب کے آخری لمحات میں ڈاکٹر قدیر خاں کو چاغی کی تقریب میں مدعو کرنے پر مجبور ہوئے مگر اس کے بعد بھی ملک کی ایٹمی ٹیکنالوجی میں ڈاکٹر خان کی حیثیت گھٹانے کی سازشیں جاری رہیں۔
اور پھر جرنیلی آمر مشرف نے تو امریکی خوشنودی کی خاطر ڈاکٹر خاں کی اقوام عالم میں رسوائی کے اہتمام کی انتہاء ہی کر دی۔ انہیں ایٹمی راز اور ٹیکنالوجی ایران کو منتقل کرنے کا موردالزام ٹھہرایا۔ ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈلوائیں ، انہیں سرکاری ٹی وی کی سکرین پر نمودار کیا اور ان کی زبان سے ان کے ’’جرم‘‘ کا اعتراف کرایا۔ پھر ان کی نظربندی اور قیدِ تنہائی کا سلسلۂ طولانی شروع ہو گیا۔ 2009ء میں ہائیکورٹ نے ان کی نظربندی کالعدم کرتے ہوئے انہیں آزاد کرنے کا حکم دیا مگر…ع اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ کن دستانے پہنے ہاتھوں نے ان کا آزاد زندگی گزارنا ممکن نہ ہونے دیا اور وہ اپنے آخری سانس تک عام شہریوں کی طرح اپنے وطن میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی حسرت و مایوسی کا اظہار کرتے رہے۔ بھئی ہماری تاریخ میں کہیں سید علی گیلانی اور ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی زندگی کی کٹھنائیوں میں مماثلت نظر آ گئی تو اس پر دوشی کون ٹھہرے گا۔ ڈاکٹر خان نے تو خود اپنے ایک شعر میں حقیقتِ حال بیان کر دی تھی کہ …؎
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
اپنوں کی مہربانیوں کے ڈسے انہی ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی ایک وصیت بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے کہ ’’جب میں فوت ہو جائوں تو میرے تمغوں کو میری قبر کے سرہانے رکھ دینا‘‘۔
اور میرے شل ہونے والے ذہن کے پردے پر ڈاکٹر قدیر خاں کے ہاتھ سے لکھے ہوئے ان کے چار اکتوبر 2021 ء کے خط نے تو دھماچوکڑی مچا کر ذہنی خلجان کے راستے کھول دئیے ہیں۔ یہ خط انہوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کو بھجوایا جس کا ایک ایک لفظ حکمرانوں کی بے اعتنائی کے حوالے سے ان کی مایوسیوں کو اجاگر کرتا نظر آ رہا ہے۔ یہ ان کی حیاتِ فانی میں ان کے ہاتھ سے لکھا ہوا آخری خط بن گیا ہے جسے پڑھ کر سوائے سر پیٹنے کے اور کچھ نہیں بن پاتا۔ اس خط کا ’’زہرخند‘‘ بنا آخری پیرا ملاحظہ فرمائیے۔
’’وزیراعظم اور پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے وزراء اعلیٰ میری وفات کی ’’گُڈ نیوز‘‘ سننے کے منتظر ہیں۔ ایسے میں میرے صوبے اور شہر کے وزیراعلیٰ نے میری مزاج پرسی کی۔ میں ان کا تہہ دل سے مشکور ہوں‘‘۔ اس مراسلے کے سات روز بعد وہ لحد میں اتر گئے۔ ان کی نمازِ جنازہ میں شرکت کی توفیق نہ وزیراعظم کو ہوئی نہ پنجاب ، بلوچستان ، خیبرپختونخواہ کے وزراء اعلیٰ کو۔ بھئی خوف کس سے ہے اور سوشل میڈیا پر یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ ہمارے اس قومی ہیرو کی دونوں بیٹیوں کی زبان بندی بھی کر دی گئی ہے۔ میں اس پر پھر سید علی گیلانی کی میّت کا حوالہ دوں تو ’’الزام کسی اور کے سر جائے تو اچھا‘‘۔
ڈاکٹر خان کے ساتھ اس سے بڑا مذاق بھلا کوئی اور ہو سکتا ہے کہ وزیر موصوف شیخ رشید صاحب ان کی قبر اور تدفین کے انتظامات میں پیش پیش نظر آ رہے تھے۔ اِناللہِ واِنا الیہِ راجعُون۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ