پنجاب یونین آف جرنلسٹس (پی یو جے) (دستوری) نے 10 اکتوبر 2010ء کو لاہور پریس کلب میں دو بجے بعداز دوپہر سے چھ بجے شام تک ایک آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں کے تیسری اور چوتھی لائن کے لیڈرز نے شرکت کی مگر نہایت کامیابی کے ساتھ اپنی اپنی جماعت کے فکری ڈانڈوں کو نمایاں کرتے رہے پاکستان مسلم لیگ (نواز گروپ) کی طرف سے ظفر علی شاہ نے شرکت کی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے الطاف احمد قریشی نے نمائندگی کا فرض ادا کیا۔ جمعیت علمائے پاکستان کے قاری زوار بہادر، تحریکِ استقلال کے رحمت وردگ، استقلال پارٹی کے سربراہ سید منظور علی گیلانی، جماعتِ اسلامی کے محمد فاروق چوہان، تحریکِ انصاف کے چودھری اعجاز احمد، پاکستان مسلم لیگ (ہم خیال) کے میاں محمد آصف، تعمیر وطن پارٹی کے عزیز احمد زمان، پاکستان عوامی تحریک کے انوار اختر ایڈووکیٹ اور اے این پی کے نمائندے کے علاوہ بریگیڈئر محمد یوسف اور رئوف طاہر نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پی یو جے دستوری کی طرف سے ایم امجد نے نظامت کے فرائض ادا کئے جبکہ سید انور قدوائی بھی موجود رہے۔ زیادہ تر مقررین نے آئین کا تحفظ و احترام کرنے اور اس پر عمل درآمد کو قومی سیاست کی روح بنا دینا ہر موجودہ بحران کا حل تصور کیا چنانچہ رحمت وردگ نے کہا کہ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور وہ 1973ء کے آئین کا خیال کریں۔ قاری زوار بہادر نے قوم کو مجموعی طور پر کرپٹ ٹھہرا دیا جبکہ اعجاز احمد چودھری نے سرے سے اس حقیقت ہی سے انکار کر دیا کہ ہم اس وقت کوئی قوم ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قیامِ پاکستان کے بعد اب تک ہم نے کوئی فیصلہ اپنے مفاد میں نہیں کیا ہے۔ انوار اختر ایڈووکیٹ نے تقاریر کا رخ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی طرف منعطف کرتے ہوئے فیتھ، یونٹی اینڈ ڈسپلن کی اہمیت کو اجاگر کیا اور کہا کہ عدلیہ کو پارلیمنٹ کے تابع کرنے کی کوشش ختم کر دی جائے۔ انہوں نے اس مضبوط خیال کا اظہار بھی کیا کہ 18ویں آئینی ترمیم کو ختم کر دیا جائے اور بے لگام حکومتوں کو لگام دینے کا اہتمام کیا جائے جو پارلیمنٹ اور عدلیہ ہی کے اختیارات میں ہے۔ رئوف طاہر نے کہا کہ پاکستان میں جتنے بحران بھی سر اٹھاتے ہیں ان کا اصل سبب وہی ہے کہ ایوان ہائے اقتدار میں اقتضائے آئین کو نظرانداز کر دینے کا وطیرہ اختیار کر لیا جاتا ہے جبکہ الطاف احمد قریشی نے واضح کیا کہ آئین ہی نے پارلیمنٹ کو دیگر تمام اداروں سے سپریم ٹھہرایا ہے۔ اور آئین کی حدود میں واقعی دیگر تمام ادارے ذیلی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر عزیز احمد زمان کی ساری توجہ کالاباغ ڈیم کو فوری طور پر تعمیر کر دینے پر مرکوز رہی۔ انہوں نے کہا کہ جب ملت پاکستان کے بارے میں فیصلہ کرتے ہوئے کسی معاملے پر بھی اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی تو پھر کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہی کے معاملے کو تعطل کا شکار بنا دینے کے لئے اتفاق رائے کی مصنوعی نایابی کی آڑ کیوں جاری ہے مگر میاں محمد آصف نے فرمایا کہ پاکستان میں ایک سیاسی بحران ہی نہیں بلکہ کئی اور بحران بھی موجود ہیں کیونکہ ہم معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اے این پی کے نمائندے نے کہا کہ جنرل کیانی نے نیٹو کے بارے میں جو موقف اختیار کیا وہ دراصل حکومت کا موقف تھا البتہ محمد فاروق چوہان نے نیٹو کی سپلائی لائن منقطع کرنے کے فیصلے کو سراہا۔ آخر میں ظفر علی شاہ نے فرمایا کہ حکومت مکمل طور پر فیل ہو چکی ہے۔ یوں تو حکومتوں کا کسی معاملے میں ناکام ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہوتا مگر موجودہ حکومت جس طرح فیل ہوئی ہے وہ عبرت ناک ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024