ایک دوست نے مجیب الرحمن شامی کے ٹی وی پروگرام کی کلپ بھیجی جس میں وہ صدر کلنٹن کے دورے کی بات کر رہے تھے۔شامی صاحب کے بقول ’’امریکی صدر انڈیا کے دورے پر جا رہے تھے کہ چند گھنٹے کے لیے پاکستان رُکے ۔ پرویز مشرف صدر تھے۔ کلنٹن نے شرط لگا دی کہ مشرف کے ساتھ ان کی تصویر نہیں بنے گی۔ وہ استقبال نہیں کریں گے اور پھر یہ بھی ہوا کہ کھانے کی میز پر صدر کلنٹن کے ساتھ ایک طرف پرویز مشرف اور دوسری طرف جسٹس ارشاد حسن خان بیٹھے تھے۔کلنٹن نے مشرف سے کوئی بات نہیں کی اور جسٹس ارشاد حسن سے گفتگو کرتے رہے‘‘۔
یادش بخیر! یہ مارچ2000کا واقعہ ہے ۔ اس وقت پرویز مشرف صدر نہیں چیف ایگزیکٹوتھے۔ صدر وہ جون2001میں بنے تھے۔ڈنر ایوانِ صدر میں ہی تھا۔ رفیق تارڑ صدر تھے مگر ان کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔اُس وقت امریکہ کو پاکستان کی اتنی ضرورت نہیں تھی، شامی صاحب کے بقول اسی لیے پرویز مشرف کے ساتھ کلنٹن کا رویہ سرد مہری پر مبنی تھا۔ اس کا مجھے بھی احساس ہو رہا تھا۔ ڈنر پر دس پندرہ لوگ ہوں گے۔ماحول میں تناؤ تھا، سناٹا سا چھایا ہوا تھا۔ پرویز مشرف نے کلنٹن سے میرا تعارف کروایا تھا۔ایک دو منٹ خاموشی رہی۔ میں نے ماحول کو ذرا بہتر کرنے کے لیے ہلکی گفتگو کا آغاز کیا۔ اُن سے پوچھا کہ آپ بڑے مصروف رہتے ہیں کتنا کام اور آرام کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف چار پانچ گھنٹے سوتے ہیں اور ضروری نہیں بیڈ پر ہی نیند پوری کروں۔جہاں بھی موقع ملتا ہے سو لیتا ہوں۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا میں گاڑی میں بھی سو جاتا ہو۔ آپ میرے ساتھ چلیں گاڑی میں آپ کو سو کر دکھاتا ہوں۔ میں یہیں بیٹھے بیٹھے بھی سو سکتا ہوں۔ میں نے ان سے بچوں کے بارے میں پوچھا، ان کا جواب حیران کن تھا۔ کہا کہ ان کی بیٹی سکول ٹیچر ہے۔اس گفتگو سے اب ماحول میں تلخی کم ہو چکی تھی،قدرے خوشگواریت تھی۔
یہ وہ دن تھے جب ظفر علی شاہ کیس فائل ہو چکا تھا۔ میں نے تھوڑا بلند آواز میں کہا ،مسٹر پریذیڈنٹ، جنرل پرویز مشرف نے جو پی سی او جاری کیا ہے اس کے مطابق جوڈیشری ان کے کسی حکم کو کالعدم قرار نہیں دے سکتی، کالعدم قرار دینا تو دور کی بات ہے اسی پی سی او کے تحت اس کے خلاف کوئی پٹیشن بھی انٹرٹین نہیں کر سکتے۔ ہم نے پی سی او پر حلف لیا ہے اس کے باوجوداس حکم پر پوری طرح عمل پیرا نہیں ہیں۔ ہم نے ایک پٹیشن انٹرٹین کی ہے جس میں پی سی او کوچیلنج کیا گیا ہے۔ اس پر ہم قانون اور ضمیر کے مطابق فیصلہ دیں گے۔ اس پر کلنٹن نے اپنے سر کو ہاں میں جنبش دی۔مشرف کی طرف دیکھا تو بڑے افسردہ اورخاموشی سے بیٹھے تھے۔ میں نے پھر صدر کلنٹن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ،مسٹر کلنٹن ایک بات ضرور ہے ،جنرل پرویز مشرف نے عدالتی امور میں بالواسطہ اور بلا واسطہ کبھی دخل نہیں دیا۔ اس پر پرویز مشرف نے اظہارِ تشکر کرتے ہوئے کہا کہ شکریہ چیف جسٹس ، بہت شکریہ۔ ہمارے سامنے شریف الدین پیرزادہ بیٹھے تھے۔میں نے ان سے تعارف کراتے ہوئے مسٹر پریذیڈنٹ اب آپ کو پیرزادہ صاحب ہمارے عدالتی اور قانونی پارلیمانی امور سے آگاہ کرتے ہیں۔پیرزادہ صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا اس میں تھوڑا توقف آیا تو کلنٹن نے واش روم جانے کی بات کی۔میں بھی واش جانا چاہتا تھا مگرسوچ رہا تھا کیسے اس اعلیٰ ترین سطح کی میٹنگ سے اُٹھ کر جاؤں۔ میری مشکل کلنٹن نے آسان کر دی۔انہوں نے بات کی تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور کہا میں بھی جانا چاہتا ہوں آئیے چلتے ہیں۔ یہ میٹنگ ایوانِ صدر کے فرسٹ فلور پر ہو رہی تھی۔واش روم کچھ فاصلے پر تھا۔ وہاں گئے تو اردگرد امریکی سکیورٹی کے حکام تھے۔ اس میں سے ایک نے یہ کہہ کر مجھے حیران کر دیا How are you Mr Chief Justice.
اُس وقت امریکہ کو پاکستان کی اتنی ضرورت نہیں تھی،صدر کلنٹن مشرف کے ٹیک اور پر بھی شاید خفا تھے ،اس لئے بھارت کے پانچ روزہ دورے کے مقابلے میں پاکستان میں صرف پانچ گھنٹے رُکے۔ بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بننے والے شوکت عزیز نے کچھ عرصہ قبل انٹرویو میں کہا کہ کلنٹن کا پاکستان آنے کا مقصد نواز شریف کو ریلیف دلانا تھا۔اس وقت امریکی صدر کا چیف ایگزیکٹو سے رویہ ترشی لئے ہوئے تھامگر نائن الیون کے بعد جب ضرورت پڑی تو پرویز مشرف کو امریکی صدر بھی تلاش کر رہے تھے۔کلنٹن جا چکے تھے بش ان کی جگہ صدر کے طور پر آ گئے تھے۔ بش اورمشرف کی گاڑھی چھننے لگی۔ دونوں میں دوستی ہو گئی۔ ایک بار مشرف نے کہا میں جب چاہتا ہوںصدر بش کو فون کر لیتا ہوں۔ایسی ہی قربتیں افغانستان میں روسی تسلط کے خلاف امریکہ روس سرد جنگ کے دوران بھی پاکستان اور امریکہ میں تھیں۔ جنرل ضیاء الحق امریکیوں کی آنکھ کا تار بن گئے تھے۔جنرل ضیاء الحق کے لیے امریکہ کے پاکستا ن پراپنے مقصد کی براری لیے ریشہ ختمی ہونے کا فائدہ ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے اُٹھایا۔ یہ نہیں کہ امریکہ کو علم نہیں تھا مگر اس نے صرف نظر کیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ 80کی دہائی میں امریکہ کو پاکستان کی بڑی شدت سے ضرورت تھی۔ایسی ہی ضرورت نائن الیون کے بعد بھی تھی۔ دونوں مواقع پر ہمارے حکمرانوں سے مسئلہ کشمیرکو نظر اندازکرنے کی بھول ہوئی۔ صدر جنرل ضیاء الحق اور صدر پرویز مشرف امریکہ کا ساتھ دینے مسئلہ کشمیرکے حل سے مشروط کر رکھ دیتے تو یقینا امریکہ کے دباؤ پرمسئلہ کشمیر حل یا بھارت امریکہ کی نظروں میں راندۂ درگاہ ہوجاتا۔ امریکہ اب کابل سے رختِ سفر باندھتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ عمران خان کی طرف سے افغان امن عمل میں بڑا کردار ہے۔ طالبان اور امریکہ کو مذاکرات کی میز پر لا بٹھایا۔ معاملات طے پاتے نظر آ رہے ہیں۔ امریکہ کو طالبان کے ساتھ معاہدے حتمی ہونے کے بعد بھی پاکستان کی آخری امریکی فوجی کی بحفاظت واپسی کی ضرورت رہے گی۔گو پاکستان کی آج ماضی کی طرح امریکہ کی نظر میںاُس شدت کی ناگزیریت نہیں ہے کہ پاکستان افغان امن عمل میں کردار کو مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط کر دے تاہم آج جس طرح مقبوضہ کشمیر کو بھارت نے سات ماہ سے لاک کیا ہوا ہے اس کے خاتمے کیلئے پاکستان بھارت پر امریکہ سے ضرور دباؤ ڈلوا سکتا ہے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024