کسانوں کیلئے اقتصادی رابطہ کمیٹی میں نمائندگی کا مطالبہ
چوہدری فرحان شوکت ہنجرا
ملک میں آئندہ سیزن کے لیے گندم کی بوائی صوبہ سندھ،جنوبی پنجاب میں تو مکمل ہو چکی ہے جبکہ وسطی شمالی پنجاب میں مکمل ہونے کے قریب ہے۔ لیکن اس مرتبہ عین کٹائی کے موقع پر بارشوں سے مونجی کی فصل گر جانے سے کاشتکاروں بالخصوص جن کسانوں نے ٹھیکہ پر زمین حاصل کر رکھی تھی ان کا تو کوئی پرسان حال ہی نہیں اور اس بار مونجی کی کم پیداوار سے اس کا ریٹ بڑھنے کا غالب امکان ہے۔ مونجی کے کاشتکاروں کا مطالبہ ہے کہ سپر مونجی کی امدادی قیمت 3000 روپے فی من ہو تب جا کر وہ انہیں کچھ ریلیف مل سکتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں اقرا با پروری کا یہ عالم ہے کہ فصلوں کے موجد کاشتکار بدحالی جبکہ دوسری جانب مڈل مین،سرمایہ دار،صنعتکار،کارخانہ دار اور کاروباری طبقہ انہی فصلوں سے اپنی آمدن میں دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہا ہے۔ کسان پیداواری لاگت بیج،زرعی ادویات،کیمیائی و نامیاتی کھادوں،ڈیزل،بجلی،کے خراجات پورے نہیں کر پارہا۔ اس زرعی ملک میں اس ناانصافی کو دیکھتے ہوئے کسان بد دل ہو کر زراعت پر اپنی توجہ کم کر رہا ہے۔
گنے کی صورتحال سب کے سامنے ہے ایک سال تک کسان گنا کی فصل پر اخراجات کرتا ہے گنا شوگر ملز کی دہلیز پر لے جا تا ہے جبکہ شوگر ملز والے اسی کسان کے ساتھ قیمت فروخت پر لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں۔ مقرر کردہ نرخوں سے بھی کم قیمت ادا کی جاتی ہے ،اس لیے کہ شوگر ملز مالکان کو کوئی اس لیے ہاتھ نہیں ڈال سکتا ۔ ملک کا بر سر اقتدار طبقہ حکمرانوں و اپوزیشن جماعتوں کے سیاست دانوں کا ہے۔ موجودہ صورتحال دیکھ لیں کہ اس وقت چینی کی فی کلو قیمت 55 روپے ہونی چاہیے لیکن یہ 75 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے ۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں پیپلز پارٹی،مسلم لیگ ن،مسلم لیگ ق،اے این پی والوں میں سے چینی کی بڑھتی قیمتوں اور گنے کے کاشتکاروں کے استحصال پر کوئی آواز نہیں اٹھاتا۔ کیو نکہ اپنے مشترکہ مفادات میں یہ سب متحد ہیں۔
دوسری جانب قومی اقتصادی رابطہ کونسل نے گندم کی امدادی قیمت میں 50 روپے اضافہ کی منظوری دی ہے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے گندم کی امدادی قیمت میں 100 روپے اضافہ کرے یعنی 1400 روپے فی من مقرر کرنے کی سفارش کی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری ہی نے گندم کی امدادی قیمت 1600 روپے فی من مقرر کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ جماعت اسلامی کسان پاکستان کے صدر چوہدری نثار احمد ایڈووکیٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گندم کی امدادی قیمت 1500 روپے فی من مقرر کی جائے۔ لاہور آٹا چکی ایسو سی ایشن نے حکومت پنجاب اور ضلعی انتظامیہ سے چکی کے کھلے آٹے کا ریٹ 60 روپے فی کلو یعنی 2400 روپے فی من بر قرار رکھنے کی مشق کو تسلیم کر وا لیا ہے اس وقت مارکیٹ میں 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 808 روپے یعنی 1616 روپے فی من کھلا آٹا چکی 60 روپے کلو یعنی 2400 روپے من ہے ۔ جب گندم کی سرکاری امدادی قیمت 1300 روپے تو حکومت پنجاب بتائے کہ فلور ملز اور آٹا چکی والوں کو کس سرکاری نرخ پر وہ گندم فراہم کرتی ہے۔ 80 فیصد کاشتکار تو آڑھتی اور فلور ملز ایجنٹس کو 1200 روپے فی من کے حساب سے گندم فروخت کر نے پر مجبور ہیں۔ خدارا کسانوں کا استحصال بند کیا جائے۔ ملک میں زرعی ایمر جنسی نافذ کرکے تبدیلی کے نعرے کے نام پر آنے والی پی ٹی آئی کی حکومت اور اپوزیشن کسانوں کے مسائل پر ایوان میں اس مسئلے کو اٹھائے۔ جے آئی کسان بورڈپاکستان کے صدر چوہدری نثار احمد ایڈووکیٹ نے قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں کسان تنظیموں کے نمائندوں کو بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ جب تک کاشتکاروں کی فصلوں اجناس کی قیمتوں کے تعین میں ان کے نمائندے موجود نہ ہوں گے یہ نا انصافی جاری رہے گی ۔بلا شبہ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق سینیٹ آف پاکستان اور اسی طرح قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں جماعت اسلامی کے نمائندے کاشتکاروں کے جائز حقوق کے لیے آواز بلند کریں گے اور اگر اس حوالے سے سینیٹ،قومی،صوبائی،اسمبلیوں میں کسانوں کی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں نمائندگی دینے کی قراردادیں پیش کر کے منظور کراوئی گئیں تو یہ ملک کی زراعت اور ان سے وابستہ کسانوں پر احسان عظیم ہو گا اور اس سے ملک میں کاشتکاروں کے ساتھ ہونے والے استحصال کا سد باب کرنے میں مدد ملے گی۔