بیجنگ میں پاک چین خارجہ‘ خزانہ اور دیگر شعبوں کے اعلیٰ حکام کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اجلاس میں سی پیک میں توسیع‘ گوادر پورٹ پر کام تیز اور مالیاتی پیکیج کیلئے مزید غور ہوا اور چین سے پیکیج حاصل کرنے کی بات اگلے مرحلے میں داخل ہو گئی۔ ذرائع کے مطابق پاکستان مدد‘ قرض اور بنک بیلنس رکھوانے کیلئے 6 ارب ڈالر کے پیکیج کاخواہشمند ہے۔ اجلاس میں سی پیک میں دوطرفہ منصوبوں اور سرمایہ کاری کے امور پر بھی اتفاق ہوگیا ہے۔ چین زراعت سمیت صنعت و پیداوار میں جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی میں مدد کرے گا۔
دراصل یہ اجلاس وزیراعظم عمران خان کے دورۂ چین کا فالواپ ہے۔ اس دورے میں جن جن جزئیات پر دونوں ملکوں کی قیادتوں کے درمیان اتفاق ہوا تھا‘ اب ان کی تفصیلات طے کی جا رہی ہیں۔ یہ امرخوش آئند ہے کہ چین پاکستان کی مالی ضروریات پوری کرنے پر آمادہ ہے‘ تاہم اس پر عملدرآمد میں شاید مزید چند دن لگ جائیں۔ وزیراعظم کے دورے کے اختتام پر جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں چین کے مالی پیکیج کی اعدادوشمار کی زبان میں تفصیلات بیان نہیں کی گئی تھیںجس کی وجہ سے اپوزیشن کو خالی ہاتھ لوٹنے کا طعنہ دینے کا موقع مل گیا چنانچہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو وضاحت کرنا پڑی کہ ہر بات کھول دینا ملکی مفاد میں نہیں ہوتا اور نہ ہی دوست ملک چین اسے پسند کرتا ہے۔وزیراعظم کا یہ دورہ امید سے بڑھ کر کامیاب ہوا تھا‘ وقت کیساتھ ساتھ اس کی تائید ہورہی ہے۔ چین کی اس پالیسی اور دوست نوازی کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے کہ وہ ہمیں دست نگر بنائے رکھنے کی بجائے خودکفیل اور دوسروں کو دینے والا بنانا چاہتا ہے۔ چین سمجھتا ہے کہ اس وقت امریکہ‘ بھارت اور افغانستان سی پیک کی وجہ سے ہی پاکستان کے دشمن بنے ہوئے ہیں‘ لیکن پاکستان نے بھی سی پیک کی قیمت پر ان ملکوں کی خوشنودی کو قربان کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں سی پیک کی جو صورت تھی‘ اب اس میں بہت کچھ اضافہ اور توسیع کی جارہی ہے۔ سی پیک اب اس مرحلے میں داخل ہو گیا ہے کہ اب ہمیں اضافے اور توسیع بلکہ اس ضمن میں ہر فیصلہ چین کی مشاورت اور رضامندی سے کرنا چاہئے۔ اس حوالے سے احتیاط اس لئے بھی ضروری ہے کہ ہمارے دشمن سی پیک کے درپے ہیں تو اس پر ہماری جانب سے کسی قسم کے تحفظات کا اظہار دشمن کی سازشیں پروان چڑھانے کے مترادف ہوگا۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024