بجٹ ، تقاریر ، اسمبلی میںمچھلی بازار کا منظر ، ماسوائے ایک دوسرے پر الزام تراشی ،حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کو انکی تقاریر یاد دلانے ، حکومت کی جانب سے گزشتہ عرصے سے ریکارڈڈ کرپشن کے الزام ، ملک کا پیسہ لوٹ کر کھا جانے کا الزام،ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت ، روپے کی گرتی ہوئی قیمت پر ایک دوسرے پر سچے جھوٹے الزامات ، بجٹ تجاویز کے منظور نہ ہونے پر حزب اختلا ف کا واویلا ۔ڈرامہ کا سین نمبر ۲:: رانا ثناء اللہ کی بھونڈے طریقے سے گرفتار ی، ہیروئن کی انہوں نے خود ہی نشاندہی کی انہیں گرفتار کرلیا ۔ نارکوٹیکس کے ذمہ دار وزیر کا فرمان ، ــ’’ گرفتاری کا مجھے علم نہیں ، معلوم کرونگا ‘‘ گرفتاری کی تمام رات واضح الزام کی تفاصیل نادارد ، 48 گھنٹے بعد انہی وزیر کا فرمان ، ’’ہم کئی ہفتوں سے تعاقب میں تھے ، گاڑی میںخواتین کی اہل خانہ کی موجودگی کی وجہ سے گرفتار نہیں کیا تھا ۔پکڑدھکڑی شروع ۔ ( جبکہ اسی ملک میں خواتین ، سمیت لوگوںکو شک کے نام پر مارا گیا ، بچے باہر کھڑے چیختے رہے ) ڈرامہ کا سین نمبر 3 : نہایت ہی سنگین ۔۔ معزز جج ارشد ملک جنہوںنے سابقہ وزیر اعظم نواز شریف کو سزا دی انکی ویڈیو کی رونمائی مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے معزز جج پر خطرناک الزاما ت جس میں وہ فیصلے نواز شریف کے خلاف دئے جانے اپنے فیصلے کو اپنے اوپر دبائو کا ذکر کررہے ہیں ،مریم نواز کی پریس کانفرنس میں مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف اور دیگر مسلم لیگ ن کے کرتا دھرتا ایسے بیٹھے ہیں جیسے گرفتار کرکے لائے گئے ہیں ، مسلم لیگ کے صدرکی موجودگی میں نائب صدر کی طویل اور نہائت اہم پریس کانفرنس سمجھ سے بالا تر ، body language کہہ رہی تھی کہ NRO نہیںتو کم از کم اسکا Nتو ہے ۔ حالیہ سین نمبر ۳ نہائت سنگین ہے ، اسے بہتر انداز میں دیکھنا ضروری ہے ، ججز کے اعتراف بعد از فیصلے پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ملک کا سب سے بڑا عدالتی قتل ذولفقار علی بھٹو کا ہوا تھا جسکے ذمہ دار جسسٹس نسیم حسن شاہ تھا اور ریٹائرمنٹ کے بعد انکا بیان معروف ہے کہ ’’ ہم ذولفقار علی بھٹو کو بچا سکتے تھے مگر ہم پر دبائو تھا ‘انکے بقول انکو جیل کی سزا ہی نہیں موت کی سزا بھی دے ڈالی اسوقت کا معروف جملہ کہ قبر ایک ہے بندے دو ، تو انہوں نے اپنے مفادات کو سامنے رکھ کر اور دبائو میں آکر عوامی نمائیدے کو پھانسی کی سز ا دے ڈالی‘ عدالتیں اور قانون کے رکھوالے منصف کی کرسی کے پر موجود ہوتے ہیںانکے آگے کوئی ادارہ نہیں جہاں داد رسی ہو وہ قانون کے دائرے میں رہ کر اور اپنے ایمان کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتے ہیں وہ اسکے مجاز ہوتے ہیں اسلئے انکا با کردار ہونا نہائت ضروری ہے اور با کردار انسان کبھی کسی دبائو میںنہیںآتا ، موجودہ حکومت کا یہ طریقہ بن گیا ہے کہ کوئی بھی مسئلہ ہو بغیر سوچ بچار کے تمام ’’زعما ء اپنے اپنے ذہنوں کے مطابق بیانات لیکر میدان میں کود پڑتے ہیں جس سے جھوٹ اور سچ کا امتیاز ختم ہوجاتا ہے ۔ ارشد ملک صاحب پرشائد دبائو ہوگا مگر اسکا ذکر کہیںپہلے نہیں ہوا ۔ اس سین نمبر ۳ پر بیانات ملاحظہ ہوں ۔۔جج ارشد ملک نیک اور ذمہ دار آدمی ہیں ۔۔ وفاقی وزیر فروغ نسیم ،ناصر بٹ جس نے اس فلم کا اہتما م کیا وہ پانچ قتل کرچکا ہے ، برطانیہ بھاگا ہوا تھا ، آپا فردوس عاشق اعوان کا بیان ۔ ۔۔ناصر بٹ نے جج کو شراب کے نشے میں دھت کرکے ویڈیو بنائی ، محترم فیاض چوہا ن کا بیان ۔۔ اس سین نمبر 3 میں ناصر بٹ کے ہاتھوں کئے جانے والے قتل کتنے ہوئے پر بات ہورہی ہے فیاض چوہان کے مطابق نشے کی دھت والی بات نہیں ہورہی ۔ کیا اسلامی مملکت نشے میںدھت کردینے والی اشیاء قانونی ہیں ؟، شکر ہے کسی حکومتی زعماء کا دھیان اس طرف نہ گیا ورنہ ویڈیو میں گلاس میں موجود شراب کو شربت کانام دیاجاتا یا جوس کہا جاتا ۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم کسی اہم واقعے سے صرف اپنا دامن صاف کرنے پر زور لگاتے ہیںاسکے لئے جھوٹ اور سچ میں امتیاز بھول جاتے ہیں ، تحریک انصاف نے اگر کوئی ان سے انکا نام بھی پوچھے تو جواب میں یہ ہی کہتے ہیں ملک لوٹ لیا سابق حکمرانوں نے۔ ہماری عادت بن چکی ہے کہ ہم شتر مرغ کی طرح اپنی گردن زمین میںچھپا کر اپنے آپکو محفوظ تصور کرتے ہیںوعدہ ہوتا ہے تحقیقات ہوگی ’’دودھ کا دودھ پانی ہوجائے گا ، مگر ستر سالوں سے معلوم نہ ہوسکا کہ پانی کتنا ہوتا ہے اور دودھ کتنا ؟۔ نیب کے چئیرمین کی مبینہ ویڈیو بھی آچکی ہے دو دن شور ہوا اور بات پرانی ہوگئی۔ ناصر بٹ نے 5 نہیں پندرہ قتل کئے ہوئے مسئلہ اسکا نہیں جبکہ جج صاحب کی بات اور اور ویڈیو کے ’’ ماحول ‘‘ پر کوئی بات نہیں بلکہ ناصر بٹ کتنا کرپٹ اور قاتل ہے اسکی بات ہورہی ہے ، جج صاحب سے دیرینہ تعلقات جسکا وہ خود بتارہے پر بات نہیں ہورہی ، آج وزیر اعظم عمران خان کا حوصلہ افزاء بیان اور اس سے قبل امیر جماعت اسلامی کا مطالبہ اس موضوع پر آیا کہ اعلی عدلیہ جج جناب ارشد ملک کے ویڈیو کے معاملے کو دیکھے پاکستا ن کے عوام بھی یہ چاہتے ہیں اوراللہ سے دعا گو ہیں کہ اعلی عدالت متعلقہ لوگوں کو کٹہرے میںلاکر اس معاملے کی تہہ تک پہنچے کسی کا صرف میڈیا ٹرائل نہ ہو۔ کیونکہ کچھ حکومت کے چہیتے صحافی ، اور اینکرز بھی اپنی روٹی حلال کرنے چل پڑے ہیں اور اصل موضوع سے ہٹ کر ناصر بٹ کی سوانح عمری بتانے پر زور دے رہے ہیں ۔ جو مجرم ہو اسے قرار واقعی سزا جب تک اس ملک میں نہیں ملے گی ہم ’’سر سے پائوں تک ‘‘دلدل میں پھنسے رہے گے۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024