نواز خان میرانی
جب سے ہمارے پاک وطن میں سیاست نے منافقت کا روپ دھارا ہے اور وطن کے سامنے کیے گئے عہد و پیمان اور وعدے و معاہدے بے توقیر اور زوال پذیر ہونے شروع ہوئے، تو وحدت ملی کو گھن لگ گیا اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے بظاہر محب وطن نظر آنے اور کہلا نے والے بھی نجانے کس مصلحت کے زیر اثر صوبے کے نام کی تبدیلی پہ متفق و متحد ہو گئے۔
پاکستان کو موجودہ حالات کے تناظر میمو اور مہمند کے سلگتے فتنے اور فساد میںسرائیکی اور ہزارہ صوبے کی تائید یہ کہہ کر، کر دینا کہ لسانی بنیاد پہ نہیں بلکہ انتظامی بنیاد پہ نئے صوبوں کے قیام میں کوئی حرج نہیں۔ صوبوں کی تقسیم، افہام و تفہیم کو نظر انداز کرتے ہوئے، جب عملی شکل میں سامنے آ جائے گی تو پھر یہ بحث فضول اور بے معنی ہو کر رہ جائے گی کہ نیا صوبہ کس بنیاد پہ معرض وجود میںآیا ہے، لسانی یا انتظامی؟ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھ دینے سے کیا صوبہ سرحد میں تیل نکل آیا ہے، اس کے نام کی تبدیلی ذہنی پستی اور سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ کیا صوبے کا نام انتظامی بنیادوں پہ تبدیل کیا گیا ہے؟
دراصل ووٹ بنک کو بڑھانے کی خاطر تمام سیاسی جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی ان مطالبات کی نفی کرنے کی جرات نہ کر سکیں، چاہے انصاف و قانون کا خون ہی کیوں نہ ہو جائے۔ پاکستان دو لخت کیوں ہوا تھا، اس وقت تو نہ لسانی مسئلہ تھا اور نہ ہی انتظامی۔ اس وقت کے حاکموں کے ذہن میں جب یہ بات ہو کہ ہمیں بنگالی نہیں بلکہ زمین بنگال چاہیے، تو پھر وہاں کے علماءاور مولانا کو بھی اسلام آباد کی سڑکوں میں پٹ سن کی بُو آتی دکھائی دیتی ہے۔
اصل بات جس سے انحراف 65 سالوں سے مسلسل اور متواتر ہر حاکم کرتا نظر آتا ہے، وہ ہے صوبوں کی حق تلفی اور ایک صوبے کا دوسرے صوبے کے وسائل اور حتیٰ کہ ایک دوسرے کے پانی پہ بھی قبضہ کر لیا، صوبہ بلوچستان سے سوئی گیس نکال کر ایک لمبے عرصے تک وہاں کے مکینوں کو ان کی اس دولت سے محروم کرتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو سوئی گیس کی سہولت سے محروم رکھنا اتنا بڑا مجرم ہے کہ ایسی حرکات وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب بن جاتی ہیں کہ پھر جس کی تلافی و تدارک ناممکن بن کر رہ جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی صوبے کا مطالبہ کرنے والے یہ کہیں کہ لاہور کی ملتان روڈ پہ ان کے پورے علاقے و اضلاع کی سڑکوں پہ مختص کی گئی رقم سے زیادہ خرچ کر دیا گیا ہے تو پھر یہ حق تلفی طفل تسلی سے دور نہیں ہو سکتی پھر یہ زیادتی بلکہ ڈاکہ، علیحدگی کا سبب بن جاتا ہے۔مگر سب سے بڑھ کر ظلم و زیادتی ہمارے سیاتدانوں یہ کرتے ہیں کہ حساس معاملات پہ بغیر علم و آگہی کے غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر جلتی پہ تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں اور پھر ذمہ داری صحافیوں پہ ڈال دیتے ہیں کہ ہمارا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، پاکستان کا میدان سیاست اس قدر وسیع و شاداب ہے کہ جس میں لنگوٹ کس کر اور خم ٹھونک کر کوئی بھی ناتجربہ کار بلکہ بیکار شخص بھی اتر سکتا ہے جس کو تربیت کی ضرورت ہے نہ تجربے کی۔ بس اس کا تعلق اور شجرہ مورثی سیاست سے جڑا ہونا لازمی ہے۔ خواہ ان کے بیان تلوار و تیر کے گھاﺅ سے زیادہ مہلک ہوں اور ملک دو لخت جائے۔
بدزبان، ناہنجار اور مکار اولاد کو تو باپ بھی عاق کر دیتا ہے، اگر دلوں میں کدورت، بغض اور منافقت نہ ہو تو مدتوں بعد دیوار برلن گرا دی جاتی ہے اور جرمنی دوبارہ ایک ہو جاتا ہے، نااہل قیادت اگر ملکی مفاد کی بجائے کسی اور بڑی طاقت کی ذہنی اور عملی غلام بن جائے تو پھر صوبے ہی نہیں، ریاستیں بھی روس جیسی بڑی طاقت کی متحد ہو ہونے کی بجائے منتشر ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا لسانی اور انتظامی شوشے اس وقت سامنے آتے ہیں جب کسی حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا!!!
جب سے ہمارے پاک وطن میں سیاست نے منافقت کا روپ دھارا ہے اور وطن کے سامنے کیے گئے عہد و پیمان اور وعدے و معاہدے بے توقیر اور زوال پذیر ہونے شروع ہوئے، تو وحدت ملی کو گھن لگ گیا اور ملکی مفاد کو پس پشت ڈالتے ہوئے بظاہر محب وطن نظر آنے اور کہلا نے والے بھی نجانے کس مصلحت کے زیر اثر صوبے کے نام کی تبدیلی پہ متفق و متحد ہو گئے۔
پاکستان کو موجودہ حالات کے تناظر میمو اور مہمند کے سلگتے فتنے اور فساد میںسرائیکی اور ہزارہ صوبے کی تائید یہ کہہ کر، کر دینا کہ لسانی بنیاد پہ نہیں بلکہ انتظامی بنیاد پہ نئے صوبوں کے قیام میں کوئی حرج نہیں۔ صوبوں کی تقسیم، افہام و تفہیم کو نظر انداز کرتے ہوئے، جب عملی شکل میں سامنے آ جائے گی تو پھر یہ بحث فضول اور بے معنی ہو کر رہ جائے گی کہ نیا صوبہ کس بنیاد پہ معرض وجود میںآیا ہے، لسانی یا انتظامی؟ صوبہ سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھ دینے سے کیا صوبہ سرحد میں تیل نکل آیا ہے، اس کے نام کی تبدیلی ذہنی پستی اور سوچ کی عکاسی کرتی ہے۔ کیا صوبے کا نام انتظامی بنیادوں پہ تبدیل کیا گیا ہے؟
دراصل ووٹ بنک کو بڑھانے کی خاطر تمام سیاسی جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی ان مطالبات کی نفی کرنے کی جرات نہ کر سکیں، چاہے انصاف و قانون کا خون ہی کیوں نہ ہو جائے۔ پاکستان دو لخت کیوں ہوا تھا، اس وقت تو نہ لسانی مسئلہ تھا اور نہ ہی انتظامی۔ اس وقت کے حاکموں کے ذہن میں جب یہ بات ہو کہ ہمیں بنگالی نہیں بلکہ زمین بنگال چاہیے، تو پھر وہاں کے علماءاور مولانا کو بھی اسلام آباد کی سڑکوں میں پٹ سن کی بُو آتی دکھائی دیتی ہے۔
اصل بات جس سے انحراف 65 سالوں سے مسلسل اور متواتر ہر حاکم کرتا نظر آتا ہے، وہ ہے صوبوں کی حق تلفی اور ایک صوبے کا دوسرے صوبے کے وسائل اور حتیٰ کہ ایک دوسرے کے پانی پہ بھی قبضہ کر لیا، صوبہ بلوچستان سے سوئی گیس نکال کر ایک لمبے عرصے تک وہاں کے مکینوں کو ان کی اس دولت سے محروم کرتے ہوئے وہاں کے لوگوں کو سوئی گیس کی سہولت سے محروم رکھنا اتنا بڑا مجرم ہے کہ ایسی حرکات وحدت کو پارہ پارہ کرنے کا سبب بن جاتی ہیں کہ پھر جس کی تلافی و تدارک ناممکن بن کر رہ جاتا ہے۔ لہٰذا اگر کسی صوبے کا مطالبہ کرنے والے یہ کہیں کہ لاہور کی ملتان روڈ پہ ان کے پورے علاقے و اضلاع کی سڑکوں پہ مختص کی گئی رقم سے زیادہ خرچ کر دیا گیا ہے تو پھر یہ حق تلفی طفل تسلی سے دور نہیں ہو سکتی پھر یہ زیادتی بلکہ ڈاکہ، علیحدگی کا سبب بن جاتا ہے۔مگر سب سے بڑھ کر ظلم و زیادتی ہمارے سیاتدانوں یہ کرتے ہیں کہ حساس معاملات پہ بغیر علم و آگہی کے غیر ذمہ دارانہ بیان دے کر جلتی پہ تیل ڈالنے کا کام کرتے ہیں اور پھر ذمہ داری صحافیوں پہ ڈال دیتے ہیں کہ ہمارا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر اور توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، پاکستان کا میدان سیاست اس قدر وسیع و شاداب ہے کہ جس میں لنگوٹ کس کر اور خم ٹھونک کر کوئی بھی ناتجربہ کار بلکہ بیکار شخص بھی اتر سکتا ہے جس کو تربیت کی ضرورت ہے نہ تجربے کی۔ بس اس کا تعلق اور شجرہ مورثی سیاست سے جڑا ہونا لازمی ہے۔ خواہ ان کے بیان تلوار و تیر کے گھاﺅ سے زیادہ مہلک ہوں اور ملک دو لخت جائے۔
بدزبان، ناہنجار اور مکار اولاد کو تو باپ بھی عاق کر دیتا ہے، اگر دلوں میں کدورت، بغض اور منافقت نہ ہو تو مدتوں بعد دیوار برلن گرا دی جاتی ہے اور جرمنی دوبارہ ایک ہو جاتا ہے، نااہل قیادت اگر ملکی مفاد کی بجائے کسی اور بڑی طاقت کی ذہنی اور عملی غلام بن جائے تو پھر صوبے ہی نہیں، ریاستیں بھی روس جیسی بڑی طاقت کی متحد ہو ہونے کی بجائے منتشر ہو جاتی ہیں۔ لہٰذا لسانی اور انتظامی شوشے اس وقت سامنے آتے ہیں جب کسی حقدار کو اس کا حق نہیں ملتا!!!