گذشتہ مضمون میں ہم نے قارئین کو امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات میں حیران کن پیشرفت کی تفصیلات سے آگاہ کیا تھا۔ اس سلسلے میں ایک اور مقام جہاں بحالی امن کیلئے مذاکرات ہورہے ہیں وہ روس کا دارلخلافہ ماسکو ہے۔ روس خطے کا اہم ترین ملک ہے اور اس کی افغانستان سے وابستگی دیرینہ ہے ،لیکن ان کے تعلقات کی تاریخ بہت تلخ ہے۔ 1979-89 کے عرصے میں روسی فوجیں افغانستان پر قابض ہوگئیں۔ جواباً مقامی آبادی نے آزاد دنیا کیساتھ مل کر سخت مزاحمت کی اور بالآخر اسے اپنی فوجوں کا جنیوا معاہدے کے تحت افغانستان سے انخلاء کرنا پڑا۔ درحقیقت روس کے اندرونی حالات دگرگوں ہوگئے تھے اور اسے خود ایک بڑے اصلاحی عمل سے گزرنا پڑا جس دوران اس کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی بدحالی کا سامنا رہا۔ لیکن روس اب ان تمام مشکلات سے نکل آیا ہے اور وہ پراعتماد انداز میں نہ صرف خطے میں اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کررہا ہے بلکہ عالمی سیاست میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ ابھی حال میں اس نے شام میں جو کارکردگی دکھائی ہے، وہ ہوشیاری، معاملہ فہمی ، مہارت اور مواقع سے فائدہ اٹھانے کی بہترین صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ شام میں روس نے اپنے کارڈ ز کچھ یوں کھیلے کہ وہ اپنے اتحادی کو ساری دنیا کی مخالفت کے باوجود اقتدار میں رکھنے پر کامیاب ہوگیا جبکہ ایران اور ترکی سے بھی متوازن تعلقات کا حامل رہا۔
روس نے اس اعتماد کا ایک بڑا مظاہرہ اس وقت کیا جب اس نے افغانستان میں امن کی بحالی کیلئے دو سال قبل ماسکو ڈائیلاگ کا آغاز کیا۔ روسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ اس دلچسپی کیوجہ اہم اسٹریٹیجک مقاصد ہیں۔ روس سمجھتا ہے کہ اس خطے میں جہاں کل تک اس کا اثر و نفوذ تھا ، امریکہ نے اپنی موجودگی کو پچھلی دو دہائیوں میں اپنی استطاعت سے کہیں زیادہ پھیلا دیا تھا اور وہ مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں کرسکا ، لہذا بدلتے حالات میں اس کا یہاں سے انخلاء اب صاف نظر آرہا ہے۔ یہ ایسے سازگار حالات ہیں جو روس کا اپنا کھویا ہوا مقام پانے کا نادر موقع فراہم کرتے ہیں۔ دوسری اہم وجہ اس بات کا ادراک ہے کہ افغانستان میں داعش کی آمد نے خطرات کی نوعیت کو بڑی حد تک بدل دیا ہے اور یہ انتہائی ضروری ہے کہ اس خطرے سے نمٹنے کیلئے ان ایسی تمام قوتوں کی مدد کیجائے جو اس بربریت سے لڑنے کیلئے تیا ر ہیں۔ طالبان نہ صرف ان کے خلاف ہیں اور افغان سرزمین پر ان کا موثر مقابلہ کررہے ہیں بلکہ وہ افغانستان میں قابض امریکی فوجوں کیخلاف تاریخی مزاحمت بھی کررہے ہیں۔ ان کی عوامی مقبولیت میں بھی اضافہ ہورہا ہے کیونکہ ملک کا برا علاقہ ان کے زیر اثر ہے۔ اس پس منظر میں روس نے افغانستان اور اس کے پڑوسی اور علاقائی ممالک کو مستقبل قریب میں پیدا ہونے والے امن کے مواقع کو موثر طور پر کامیاب بنانے کیلئے ایک پلیٹ فارم فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔
امریکہ کے علاوہ تمام متعلقہ فریقین اس گفتگو میں شریک رہے ہیں خصوصاً طالبان، مجاہدین ، کمیونسٹ، تاجک، ازبک، ہزارہ اور دیگر پشتوں قبائل۔امریکہ نے اس ڈائیلاگ کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ شروع سے کیے رکھا۔ اس وسیع تر شراکت پر مبصرین حیرت کا اظہار کرتے رہے ہیں کیونکہ طالبان کی شرکت ایک بہت بڑی پیشرفت تصور کی جارہی تھی۔ ایک جانب اس پذیرائی سے طالبان کی عالمی بساط پر قانونی اور اخلاقی حیثیت مسلمہ ہوگئی،اس بات کے علی الرغم کہ وہ دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہیں، تو دوسری جانب امریکہ اور طالبان کی بات چیت نہ ہونے کے باوجود طالبان کی امن کی خواہش کا ساری دنیا میں پرچار ہونے لگا۔ طالبان نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ وہ کابل حکومت سے بات چیت نہیں کریگا کیونکہ ان کی نظر میں وہ امریکہ کی پروردہ ہے لہذا اگر امن کی بات چیت ہوگی تو صرف براہ راست امریکہ کیساتھ۔
امریکہ نے جس سرعت کے ساتھ بالآخر طالبان سے بات چیت کا آغاز کیا اورمختصر مدت میں جو حیرت انگیز پیشرفت حاصل ہوئی اس سے یقیناً اس سارے عمل سے طالبان کے اعتماد اور اعتبار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے کیونکہ وہ ان مذاکرات میں اپنی اولین شرط کی قبولیت کے بعد شریک ہوئے یعنی بغیر افغان حکومت کی شرکت کے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے طالبان کی بڑی منت سماجت کی لیکن اْن کی پوزیشن اتنی غیر متغیر تھی کہ انھوں نے ان سے ہاتھ ملانے اور ان کیساتھ تصویر کھنچوانے کی درخواست بھی قبول نہیں کی۔
کچھ تجزیہ نگار سوچ رہے تھے کہ امریکہ سے براہ راست مذاکرات کے آغاز کے بعد ماسکو میں جاری عمل کی چمک دھمک کم ہوجائیگی۔ لیکن ساری دنیا نے یہ ناقابل یقین مناظر دیکھے کہ ماسوائے افغان حکومت ، افغانستان کے سارے سیاسی عناصر ماسکو میں 4-5فروری کو جمع ہوگئے۔ تیس سال کے بعد فلک نے یہ عجیب منظر دیکھا کہ وہ طاقت جو افغانستان سے نامراد نکلی تھی آج وہ بحالی امن کیلئے باہم متصادم فریقوں کے درمیان پل کا کردار ادا کررہی ہے۔ اور کریملین کی ملکیت، ماسکو پریزیڈنٹ ہوٹل کی گول میز پر جو موجود نہیں تھے وہ اشرف غنی، صدر افغانستان یا ان کا نمائندہ ،جنہوں نے اس کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا تھا اور اس پر خفگی کا اظہار کیا تھا۔ مزید براں آج اس پس منظر میں ایک دوسری عالمی طاقت افغانستان سے رخت سفر باندھ رہی ہے، امریکہ۔
ماسکو میں طالبان کے وفد کی قیادت سیاسی امور کے انچارج شیر محمد عباس اسٹانکزئی کررہے تھے جبکہ افغان حزب اختلاف میں سب سے بڑی شخصیت سابق صدر حامد کرزئی کی تھی۔ علاوہ ازیں چوٹی کے سیاستدان جن میںسابق انٹیلی جنس چیف محمد حنیف اتمار، تاجک رہنما اور کرزئی کے سابق وزیر داخلہ ، یونس قانونی،ہرات کے گورنر اسمعیل خان،نامور سیاسی رہنما زلمے رسول، زلمے اکمل ،سابق گورنر بلغ عطا محمد نور ، جن کو حال میں اشرف غنی نے برطرف کردیا تھا، سابق وزیر خزانہ اور افغان سفیر برائے پاکستان عمر زخیوال ، ہزارہ کمیونٹی کے رہنما استاد محکب اور دو خواتین ممبران پارلیمنٹ سمیت 100شرکاء اس کانفرنس میں شریک تھے۔
اس کانفرنس کی کاروائی، شرکاء کی تقاریراور اعلامیہ ایک حوصلہ افزاء مستقبل کی نوید دے رہے تھے۔ کانفرنس کا اولین اتفاق یہ تھا کہ افغانستان سے تمام بیرونی فوجوں کو فوری نکل جانا چاہیے۔ صرف یہ ایک مطالبہ، روس کیلئے اپنی کاوشوں کا ایک بڑا ثمر ہے کیونکہ سوائے امریکی حمایت یافتہ حکومت کے، روس کی دعوت پر سارا افغانستان کانفرنس میں شریک تھا اور امریکی انخلاء کا تقاضہ کررہا تھا۔ افغانستان سے واپسی کے بعد عالمی ڈپلومیسی میں روس کی یہ سب سے بڑی فتح ہے جو اس کی ماضی کی رسوائی کے داغوں کو بڑی حد تک دھو دیگی۔
اس اجتماع کا سب سے اہم واقعہ طالبان کی طرف سے وسعت قلبی کا اظہار اور کھل کر یہ اعلان ہے کہ وہ ماضی میں اپنے بہت سے رویوں پر نظر ثانی کررہے ہیں خصوصاً خواتین کے معاملے میں جن کا قومی زندگی میں کردار وہ تسلیم کرتے ہیں۔اپنی تیس منٹ طویل تقریر میں استاد اسٹانکزئی نے واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیا کہ طالبان افغانستان میں طاقت پر اجارہ داری کے خواہاں نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تمام افغان فریقوں کی مشاورت سے ایک اسلامی حکومت بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ افغانستان کے موجودہ آئین کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ وہ مغرب کی نقالی ہے۔ انہوں واضع طور پر یہ اعلان کیا کہ وہ خواتین کو اسلام میں دیے گئے تمام حقوق کی ضمانت دینگے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ اسلام نے خواتین کو تجارت، ملکیت، وراثت، تعلیم، روزگار، جیون ساتھی کا انتخاب، تحفظ اور اچھی زندگی گزارنے کے بنیادی حقوق دیے ہیں اور وہ ان کی پانبدی کرینگے۔
اس موقع پر نیویارک ٹائمز کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے فوزیہ کوفی، ممبر افغان پارلیمنٹ، کا کہنا تھا کہ انھیں طالبان کے اس بیان پر بہت خوشی ہے کہ وہ خواتین کے متذکرہ حقوق کا تحفظ کرینگے۔ جس میں یہ بھی ممکن ہوگا کہ ایک خاتون وزیر اعظم بھی بن سکے لیکن صدر نہیں بن سکے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ خواتین نے پچھلے اٹھارہ سال میں بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور وہ نہیں چاہتیں کہ طالبان کا پچھلا دور دوبارہ واپس آئے۔
ماسکو کانفرنس ایک زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔ طالبان کا قد اور اعتبار بلند ہوا ہے، ان کی پختگی اور بالغ نظری کسی آنکھ سے اوجھل نہیں رہ سکتی۔ ایک فاتح طاقت ہونے کے باوجود وہ تمام فریقوں کو ساتھ لیکر چلنے کے خواہشمندہیں۔ چین، ایران اور روس کو جس انداز میں انہوں نے اہمیت دی ہے اور ان کے ساتھ تعلقات کی استواری کی خواہش کا اظہار کیا ہے وہ ان طاقتوں کیلئے ان پر اعتماد کی راہیں کھولی گی۔ طالبان ساری دنیا کو پیغام دے رہے ہیں کہ وہ اکیسویں صدی میں دنیا کے ہمقدم چلیں گے نہ کے کسی قرون اولی کے دنیا میں رہنے کا تصّور ان کے ساتھ ہوگا۔ وہ افغان سرزمین کو کسی بھی امن دشمن طاقت کی آماجگاہ نہیں بننے دینگے۔ یہ تمام پیغامات دنیا کیلئے اطمینان کا باعث ہونے چاہییں اور امید کی جا سکتی ہے کہ چالیس سال بعد افغان سرزمیں بالآخر امن کا گہوارہ بن سکے گی۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024