’’قرآن پاک، اسوۃ حسنہ لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کی سفارش‘‘
اسلام آباد(نا مہ نگار) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت نے قرآن پاک اور اسوہ حسنہ کو لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کی سفارش کر دی ہے، کمیٹی ارکان نے کہا کہ نصاب میںشامل قرآن پاک کی ایسی تشریح کرنی ہوگی جس پرتمام مکتبہ فکر کے علمامتفق ہوں،پاکستان کے اندر عدم برداشت کا کلچر تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جس کو روکنا ہوگا،ایچ ای سی کی جانب سے پی ایچ ڈی کے سکالرز کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے ان کے کام میں رکاوٹیں ڈالی جاتی ہیں، ایک سکالر اپنا تحقیقاتی کام وقت پر جمع نہیں کرا سکا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو 6سال تک ذلیل کیا جائے،ایچ ای سی اپنی آئینی ذمہ داری ادا کرنے میں مکمل طور پا ناکام رہا ہے۔جمعرات کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی تعلیم کا اجلاس سینیٹر رانا مقبول احمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر نجمہ حمید، سینیٹر مولوی فیض محمد، سینیٹر مہر تاج روغانی، سینیٹر ہلال الرحمٰن، سینیٹر گل بشرہ ، سینیٹر شفیق ترین، سیکرٹری وفاقی تعلیم، ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن، چیئرمین این سی ایچ اے اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ وقار زاہدنامی پی ایچ ڈی سکالر کو نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز(نمل) کی جانب سے پی ایچ ڈی کی ڈگری نہ دیے جانے کے معاملے پر ایگزیکٹو ڈائرکٹر ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ طالب علم نے اپنا ریسرچ ورک ٹائم پر جمع نہیں کروایا جس وجہ سے ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری نہیں کی گئی۔ اس پرسینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے پی ایچ ڈی کے سکالرز کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی الٹا قوانین کے نام پر ان کے کام میں رکاوٹین ڈالی جاتی ہیں جو کہ افسوسناک ہے۔اسی وجہ سے طالب علم اعلی ٰتعلیم حاصل کر کے امریکہ اور دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں جہاں ان کیلئے آسانیاں فراہم کی جاتی ہیں جس سے پاکستان کا بہت بڑا نقصان ہو رہا ہے۔اگر ایک سکالر اپنا تحقیقاتی کام وقت پر جمع نہیں کرا سکا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کو 6سال تک ذلیل کیا جائے۔ساری دنیاکے تعلیمی اداروں کے اندر طلبا کو سہولیات فراہم کی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں ایسا تصور بھی نہیں کیا جاتا ۔اسی وجہ سے پاکستان دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔درخواست گزار نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ اس نے سال 2010کے اندر اپنا تحقیقاتی مقالہ مکمل کر کے جامعہ اور ایچ ای سی کو آگاہ کر دیا تھا لیکن 6سال تک کسی نے ان سے کوئی رابطہ نہیں کیا وائیوا کیلئے انہیں 6سال انتظار کرنا پڑا۔ اس دوران ایچ ای سی اور جامعہ کو متعدد بار ایل میل اور خطوط لکھے گئے لیکن کسی نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ میں نے اپنا ماسٹرزلندن کی یونیورسٹی سے آنرز کے ساتھ مکمل کیا تھا اور پاکستان واپس آیا تاکہ ملک کیلئے اپنی خدمات پیش کر سکوں لیکن کسی نے میری حوصلہ افزائی نہیں کی۔انہوں نے وفاقی محتسب کے پاس بھی درخواست دائر کی ہے جس کا فیصلہ ان کے حق میں آیا ہے اور کمیٹی کو پی ایچ ڈی کی ڈگری جاری کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔کمیٹی چیئرمین سینیٹررانا مقبول احمد نے کہا کہ قرآن پاک اور اسوہ حسنہ کو بھی لازمی مضمون کے طور پر نصاب میں شامل کرنے کا مطالبہ درست ہے لیکن اس حوالے سے قرآن کی تشریح اور دیگر چیزوں کو بھی زیر غور لانا ہوگا کہ تمام مکتبہ فکر کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔