’’انوکھی داستان ،،(2)
پاکستان کی چھٹی مردم شماری کے مطابق ملک کی مجموعی آبادی 20کروڑ 77 لاکھ 74ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب مردم شماری میں نظرانداز کی جانے والی خواجہ سرا برادری یا مخنث افراد کو علیحدہ سے شمار کیا گیا۔اس طرح یہ تعداد محض 10 ہزار 418 بتائی گئی ہے۔ پاکستان میں موجود مخنث آبادی کا سب سے زیادہ 64.4 فیصد حصہ پنجاب میں ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ بھی ہے۔پنجاب میں مخنث برادری کے 6 ہزار 709 افراد موجود ہیں جبکہ سندھ میں 2 ہزار 527 مخنث افراد موجود ہیں اسی طرح خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بالترتیب 913 اور 109 اور وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں (فاٹا) میں صرف 27 جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں یہ تعداد 133 بتائی گئی ہے۔ملک بھر میں موجود ان مخنث کی شناخت کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔کونسل کی تیار کردہ سفارشات کومنظوری مل گئی ہے ان سفارشات کے تحت مخنث کے والدین اپنی مخنث اولاد کی شناخت سے آگاہ کر سکتے ہیںاگر ایسا ممکن نہیں بھی ہوتا تو مخنث خود اپنی شناخت کا اعلان کر سکتا ہے۔ اگر وراثت کا معاملہ آتا ہے تو اس ضمن میں معزز عدالت طبی معائنہ کروانے کا حکم دے سکتی ہے۔ انسانی حقوق سے متعلقہ سینیٹ فنکشنل کمیٹی نے مخنث کی شناخت پر اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کی توثیق کر دی ہے ۔ اس طبقہ کے حقوق کے تحفظ کے مسودہ قانون کا مجوزہ بل منظور ی پا چکا ہے ہے۔واضح رہے کہ اس اہم ایشو پر خاتون سینیٹر نسرین جلیل کی زیر صدارت ہونے والے سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا تھا کہ اگر شناخت کے لئے ہم خواجہ سراؤں کو ہسپتال اور تھانوں کے حوالے کرتے ہیں تو مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ خواجہ سراوں کو سماجی مسائل درپیش ہیں،انکا کہنا تھا کہ جب علیشا نامی خواجہ سرا زخمی ہوا تو ہسپتال میں مرد و خواتین دونوں وارڈز میں اسے منتقل کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ یہ طے کرتے کرتے کہ اسے زنانہ وارڈ میں بھیجا جائے یا مردانہ وارڈ میں علیشا نے ہسپتال کے دروازے پر ہی جان دے دی تھی۔ یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پورا معاشرہ خواجہ سراؤں کی توہین کرتا ہے۔ خواجہ سراؤں کی جرات ہے کہ معاشرے کے توہین آمیز رویوں کے باوجود وہ خودکشی نہیں کرتے۔ ان کی آب بیتیاں سنیں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔ سینیٹ فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کا اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو منظور کرتے ہوئے خواجہ سراہوں کے تحفظ سے متعلق قانون کے مسودے کو حتمی شکل دینا سال نو کا وہ کارنامہ ہے جو دکھی دلوں کو راحت بخشے گا۔مغربی دنیا میں خواجہ سرا وں سے ایسا سلوک نہیں ہوتا جو ہمارے ہاں مسلط ہے۔گھر سے نکالے جانے کا دکھ لیئے دربدر پھرنے والے ان مخنث کو معاشرے پر بوجھ نہ سمجھا جائے۔یہ کہانی آپ پڑھ چکے ہیں خالق کائنات کی اس تخلیق کو مت دھتکاریں ، بھکاری بنانے کی بجائے معاشرے کا کار آمد شہری بنائیں۔یہ21 کروڑ کی آبادی میں 10ہزار ہی تو ہیں۔ کوئی اور ہے توجہ دینے والا؟
(ختم شد)