24 جنوری کی سرمئی شام اور کیلنڈر میں سال تھا 1976ء کا ۔ یہ مصر ہے‘ دنیا بھرکی تہذیبوں کی ماں ’’اُم دنیا‘‘ اور یہ قاہرہ ہے مصر کا دارالخلافہ۔ ایک نوجوان پاکستانی بغرض تعلیم طب آیا ہوا۔ دریائے نیل کے کنارے کھڑا نیل کی نیلگوں لوح آب پر کرنوں سے لہروں پر لکھی تمدن انسانی کی تاریخ پڑھنے میں گم تھا کہ ’’فکر اقبال‘‘ کے سفیر اور وہ ساحل کہاں ہے جو کلام اقبال میں ملت اسلامیہ کے اتحاد و یکجہتی کا بلیغ و روشن استعارہ ہے اور جسے ابھی کاشغر کے ساحلوں پر لنگرانداز ہوکر خاک سے ستارے جھکانا ہیں۔ لہروں نے سوال کو تحلیل کرتے ہوئے لرزتے ہوئے جواب دیا ’’کنارا تو وہی ہے جہاں تم کھڑے ہو‘ مگر اتحاد‘‘ کا ستارہ ابھی گردش میں اور کاشغر ابھی ’’کاش‘‘ کے گرداب میں ہے۔ نوجوان طالبعلم خیالوں کی بستی میں سفر کرتا ہوا شہر کے گلی کوچوں‘ بازروں اور چوراہوں سے گزر رہا ہے۔ تو فضائوں کو مہکاتی ہوئی ایک انتہائی سُریلی اور رسیلی آواز نے اس کی سماعتوں میں رس گھولتے اس کے دل کو سمندر اور اس کی روح کو غنائیت کی غذائیت سے تونگر بنا دیا۔ نوجوان ہر کسی سے پوچھتا ہے یہ آواز کس کی ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ آواز کوکب الشرق‘ مادام اُم کلثوم کی ہے۔ نوجوان کا تجسس بڑھا‘ وہ پوچھتا ہے کلام کس کا ہے۔ اسے بتایا گیا۔ کلام پاکستان کے معروف شاعر ’’محمد اقبال‘‘ کا ہے۔ اپنے عظیم قومی شاعر کا نام سن کر جو اس کے محبوب وطن کا تصور ہے‘ نوجوان کی آنکھیں فرط جذبات سے بھیگ جاتی ہیں۔ وہ خوش تھا کہ اس کا عظیم شاعر’’وادی یوسف‘ میں مشہور ہے جسے دریائے نیل کا پانی سیراب کرتا ہے۔ اسے پتا چلا کہ کلماتِ اقبال کا ترجمہ عربی زبان میں مصری نابینا شاعر شیخ انصاری علی الشعلان نے ’’دل بینا‘‘ سے کیا ہے۔ لفظوں کو دیکھ کر نہیں ایک جذبے کو روح سے محسوس کرکے نوجوان کی وطن سے وفاداری سرشاری میں بدل گئی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ضرور ان نابغہ روزگار شخصیات کی تاریخ مرتب کرے گا جنہوں نے صحراء عرب میں پیغام اقبال کی ترویج و اشاعت کی۔ وہ پہلا اقبال شناس کون تھا جس نے اس عظیم مشن کا آغاز کیا تھا۔ نام تھا ڈاکٹر عبدالوہاب عزام جو نہ صرف پہلے اقبال شناس تھے بلکہ پاکستان میں مصر کے پہلے سفیر بھی۔ وہ سکالر بھی تھے اور بہترین شاعر بھی۔ دلادے اقبال سے سرشار نوجوان نے دل میں عہد کر لیا کہ وہ ڈاکٹر عزام سے مل کر تعظیماً ان کے ہاتھ چومے گا۔ ابھی تلاش راستے میں ہی تھی کہ طالبعلم کی آس ٹوٹ گئی۔ یہ سن کر عزام اس دنیا سے ناطہ توڑ ملک عدم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں۔ اقبال کشتِ ویران سے ناامید نہیں ہوتا۔ ’’امید‘‘ کا غم حوصلہ بن کر پژمردہ دلوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اب عزام قبیلے کے افراد اس کی جستجو کا عنوان تھے۔ پھر ایک دن معجزے کی لکیر اس کی جستجو کی ’’ہتھیلی‘‘ کو روشن کر گئی۔ وہ اپنی طبی ٹریننگ کے دوران رات کے وقت اپنا ٹائم ٹیبل دیکھ رہا تھا کہ اپنے ایک نئے سینئر انچارج کا نام دیکھا۔ امید کا ستارہ اسے بشارت دینے لگا۔ نام تھا ڈاکٹر عبدالرحمن عزام۔ چند لمحے بعد نوجوان ڈاکٹر صاحب نام کے روبرو تھا۔ نوجوان نے بغیر کسی توقف کے پوچھا سر آپ ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کو جانتے ہیں۔ سینئر ڈاکٹر نے تفخر اور گرمجوشی سے کہا ’’وہ میرے نانا تھے‘‘ اور میری والدہ بارہ سال کی تھیں جب میرے نانا پاکستان میں مصر کے پہلے سفیر بنے۔ (1948-1952ئ) نوجوان اس معجزے پر حیرت و استعجاب کی تصویر بن گیا۔ آب تشکر اس کی پلکوں کو تبریک و تہنیت کی سند دے گئے۔
دوسرے دن شام ڈاکٹر عبدالوہاب کی بیٹی عقیدت اقبال کا ورثہ لئے میری منتظر تھیں وہ رو رہی تھیں۔ میرا ان سے اقبال کے حوالے سے ملنا انہیں اپنے والد کی یاد دلا گیا۔ کہنے لگیں میرے والد نے تمام عمر محبت اقبال میں گزاری۔ اقبال ان کی روح کے ہر گوشے سے جڑے ہوئے تھے۔ ماں نے فرط جذبات میں شراکت محبت اقبال میں نوجوان مہمان بیٹے کا ماتھا چوم لیا اور کہا کہ تم آئے ہو تو میرا گھر اقبال کی محبت کے گلابوں سے معطر ہو گیا ہے۔ آج میرے گھر میں محمد اقبال کے چراغوں کا اُجالا ہے۔ ڈاکٹر عبدالوہاب عزام کی بیٹی نے اپنے والد کی علامہ اقبال پر لکھی کتاب مجھے تحفے میں دی اور نوجوان کو اقبال پسندی کی سعادت مندی پر اقبال مندی کی دعائیں دیں۔
اب جستجو کا جادہ الشیخ الصاوی علی الشعلان تھے‘ شکوہ و جواب شکوہ کے مترجم ڈاکٹر غلام محی الدین جو سعادت خانہ پاکستان میں ترجمے کے امور دیکھا کرتے تھے۔ مجھے نوجوان کو ’’مصر قدیمیہ‘‘ کے علاقے میں لے گئے۔ تجسس بڑھ رہا تھا۔ نوجوان کا تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتے ڈاکٹر محی الدین ایک گھر کے سامنے تھے۔ پرانا سا گھر جس کا ’’در‘‘ نہ جانے کب بنا تھا۔ خستہ در کی بوڑھی لکڑی پر اُداسی کی شکنیں اور گزرے موسموں کی بے رحم و بے حس تریڑیں اور اس پر ٹاٹ کا حجاب جو اُجڑے دیار کے وفادار موتیوں کی پردہ داری کر رہا تھا‘ نوجوان کو غالب کا دلی والا مکان یاد آگیا جس پر حالات کی ستم ظریفی کا ایسا ہی ٹاٹ کا حجاب زمانے کے ٹھاٹ باٹ کا منہ چڑا رہا تھا۔ دقن الباب کیا تو ادھیڑ عمر بیگم ہمیں شیخ کے کمرے میں لے گئیںجہاں ایک نابینا محبت اقبال زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔ تیمار دار بیگم نے جب اقبال کے دلدار شاعر کو بتایا کہ کوئی اقبال کے دیس سے آپ کو ملنے آیا ہے تو فالج زدہ حساس شاعر عشق اقبال کی ایک ہی جست سے کمزور عضلات کو ’’دل بینا‘‘ سے توانا کرکے اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ شیخ کی بیگم حیران تھیں۔ رعشہ زدہ ہاتھ کی سختی سے نوجوان کا ہاتھ تھام کر شیخ کہتے ہیں ’’اقبال میرے خون اور میرے ضمیر میں ہے۔‘‘
پیاس لگی تو شاعرانہ پیرائے میں بیگم سے کہنے لگے، مجھے اقبال کی صراحی سے بے خودی کے جام پلادو پھر تاکیدکے لہجے میں فرمایا۔ ’’میں آخری سانسیں پاکستان میں لینا چاہتا ہوں۔ میں اقبال کی سرزمین میں دفن ہونا چاہتا ہوں، محبت کی یہ انتہا نوجوان کو متاثر کرگئی۔ وہ شیخ کے دل بینا کی روشنی کا عطیہ لئے بے خودی کے راستوں پر روانہ ہوتا ہے۔ محبان اقبال کی نامکمل تلاش میں اب جس شخصیت کا ذکر نوجوان کر رہا ہے وہ شخص راستہ نہیں، نوجوان ڈاکٹر کا رہنما ہے نام ہے مصر کے معروف، شاعر اور ادیب محمد فاروق شوشہ کا جنہوں نے مصر کے ادبی ماحول کو تقریباً آدھی صدی تک اپنی نادر و نایاب آواز اور مشہور پروگرام لغشا جمیلہ (ہماری خوبصورت زبان) سے فیض یاب کیا۔ مرحوم فاروق شوشہ اقبال کے زبردست مداح تھے۔ (جاری)
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024