وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے ملک میں امیر غریب کیلئے یکساں انصاف کا نظام رائج کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔وہ ملک قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جو امیر کیلئے علیحدہ قانون اور غریب کیلئے علیحدہ قانون لیکر چلتی ہیں آپ سرکار حضرت محمدؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ کسی گورے کو کالے پر اور کسی عربی کو عجمی پر کوئی فوقیت حاصل نہیں تمام انسان برابر ہیں ہمارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حصول کے وقت اسلامی مملکت کی بنیاد رکھنے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ ملک میں اسلامی قوانین کے مطابق جزا سزا کا عمل رائج کیا جائے کسی کو کوئی قانون سے بالاتر نہ سمجھا جائے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کا قانون مکڑی کے جالے کی طرح کمزور سے کمزور تر ہوتا رہا اور زورآور اس جالے سے باآسانی نکل جاتے ہیں جبکہ کمزور اس میں پھنس جاتا ہے۔ اس وقت ملک میں انگریز کی جانب سے رائج قوانین کی بالادستی ہے ۔گورے نے برصغیر کے رہنے والوں پر طرز حکمرانی کو آسان بنانے اور انکی غلامی کیخلاف آواز اٹھانے والوں کیلئے بیوروکریسی ایجاد کی جس میں مقابلے کا امتحان متعارف کروایا گیا اور اسے برصغیر کی عوام کیلئے جوئے شیر لانے کے مترادف بنا دیا گیا جبکہ گوروں کو اس میں کامیاب کروایا جاتا جو اپنے عالیشان دفاتراور ایکٹروں پر مشتمل گھروں میں بیٹھ کر برصغیر میں اجارہ داری کی پالیسیز مقامی افسران سے نافذالعمل کرواتے ۔عوام مخالف پالیسیز پر ردعمل آنے کی صورت میںصاحب بہادر عوام کے غم و غصے سے دور متنازعہ ہوئے بغیر اپنے عالیشان دفاتر میں ٹھنڈے مشروب اور کافی سے دل بہلاتے اور فیلڈ افسران عوام کے غضب کا سامنا کرتے انگریز نے اس وقت طے کیا تھا کہ عوامی مسائل کے حل کیلئے رینکرز کو استعمال کیا جائے تاکہ بدنامی انکے حصے میں آئے۔ اس وقت سے یہی قانون اور ضابطہ رائج العمل ہے۔ یہ تمہید مجھے صرف اس لئے باندھنی پڑی کہ چند روز قبل پی ایس پی گروپ جس کے عام الفاظ میں سپیریئر سروس کہا جاتا ہے سے تعلق رکھنے والے آئی جی پنجاب جناب انعام غنی نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں ارشاد فرمایا کہ پنجاب بھر میں تمام وہ ایس ایچ اوز کو فوری طور پر معطل کردیا جائے جن کیخلاف کوئی بھی کریمنل کیس موجود ہے۔ پہلے مرحلے میں پنجاب بھر سے 104 ایس ایچ اوز کو معطل کردیا گیا۔ میرا اعتراض ایس ایچ اوز کو معطلی پر ہرگز نہیں یہ وہ مخلوق ہے جو افسران کے غضب و غصہ کا اکثر و بیشتر شکار رہتی ہے اور اپنی پوری نوکری ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں ہی گزار دیتے ہیں۔ افسران کے کہنے پر انکے مفادات کا نہ صرف حفاظت کرتے ہیں بلکہ بات کھل جانے کی صورت میں افسر کا نام لئے بغیر اپنے آپ کو بلی کا بکرا بنا کر پیش کردیتے ہیں۔ کاش وہ تھوڑی سے محنت کرکے مقابلے کا امتحان پاس کرلیتے تو انکی کرپشن بھی کرپشن تصور نہ ہوتی اگر کروڑوں اربوں کے فنڈز غبن کرنے کے علاوہ فیلڈ کرپشن کی قلعی کھل بھی جاتی تو ساتھی افسران اور کولیگ اجتماعی طور پر مسئلہ کو دبانے کیلئے کوشاں ہوجاتے۔ آئی جی پنجاب کا انتہائی معتبرانہ فیصلہ ہے کرپشن کیخلاف مگر سی پی او انکے اپنے آفس میں بیٹھے سینئر افسران جو نہ صرف مختلف کیسز اور کرپشن کے سمندر سے نہا دھو کر پاک صاف اور اجلے ہوچکے ہیں اور پاک دامن کہلاتے ہیں سابق سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے بھی تمام رینکرز کو ہتھکڑیاں لگوانے اور معطل کرنے کی ریت ڈالی تھی شاید انہی مظلوموں کی آہ ہی ان کو لے بیٹھی آئی جی پنجاب انعام غنی اس وقت تو عمر شیخ کے اس فارمولے کے مخالف تھے اور ان کو پالیسیز کو نجی محفلوں میں تنقید کا نشانہ بناتے تھے حالانکہ اس وقت بھی یہی آئی جی پنجاب تھے مگر شاید شیخ عمر کے غضب و غصے کا اظہار سابق آئی جی شعیب دستگیر پر نکلتے دیکھ چکے تھے۔ اس لئے انکے کام میں مداخلت کرنے سے گریز کرتے تھے۔ اب خود انہی کی پالیسیز کو مہذب انداز میں لے کر آگے چل پڑے ہیں۔ سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر ایک پڑھے لکھ اپ رائٹ افسران میں شمار ہوتے ہیں اور یقیناً ان کو یہ پالیسی نہیں ہوسکتی کیونکہ محکمے میں اپنے سینئر و جونیئر افسران کو ساتھ لے کر چلنے پر یقین رکھتے ہیں کسی کے ایسے کام کی تعریف کرنا اور اس کو اسکے کام کا کریڈٹ دینا ہی انکی پالیسیز کا حصہ ہے وہ پولیس اور عوام میں فاصلے ختم کرنے کی پالیسیز پر کام کررہے ہیں۔ انہوں نے تفتیشی نظام کو بہترین اور عوام کو دہلیز پر انصاف دینے انہی وسائل میں نئی فورسز کے قیام اور عوام دوست رویہ اپنانے جیسے اقدامات اپنے مختصر عرصہ میں عملی طور پر کرکے دکھائے ہیں۔ اگر آئی جی پنجاب اور پاکستان میں تعینات کوئی بھی پی ایس پی افسران چاہیں کہ رینکرز کے علاوہ سپیریئر سروس کے افسران کے متعلق کرپشن اور کریمنل سرگرمیوں میں ملوث افسران کی فہرست شائع کرنے کی استدعا کریں تو یقیناً میں اپنے اگلے کالم میں پیش کروں گا۔ آئی جی کو چاہئے اگر وہ کریمنل ریکارڈ کے حامل افسران اور کرپشن میں ملوث افسران کے متعلق وزیراعظم کی پالیسی کو لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو بلاتفریق احتساب کے عمل کو پی سی پی افسران کے متعلق بھی دائرہ کار بڑھائیں کیونکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک و قوم دو قوانین کے اطلاق سے تباہ ہوجاتے ہیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024