الوداع ، سردار خالد ابراہیم خان
یقین نہیں آتا کہ سردار خالد ابراہیم ہم میں نہیں رہے ۔ تین نومبر کی رات دماغ کی شریان پھٹ جا نے سے اسلام آباد کے مقامی اسپتال لے جایا گیا لیکن اگلی صبح آٹھ بجے بیہوشی میں ہی ابدی نیند سو گئے۔ اسی دوپہر جسد خاکی کو آزاد کشمیر راولا کورٹ پہنچا دیا گیا ۔کاش میں بھی نمازجنازہ میں شامل ہوتا۔انتقال کی خبر سنتے ہی ہرآنکھ نم ہوئی ۔ سردار اختر حسین ایڈووکیٹ سے جب اس خبر کی تصدیق کیلئے فون کیا تو پوچھنے سے قبل ہی دوسری طرف سے سسکیوں بھری آواز میں کہا سردار صاحب چلے گئے ۔ سردار خالد ابراہیم تقریر کرتے ،لوگ سنتے ، نعرے زندہ باد کے لگاتے لیکن اس بار سردار خالد ابراہیم خان کی آمد پر راولا کورٹ کے صابر شہید گرائڈ کی جگہ کم پڑ گئی ۔ اس گرائڈ کی سیڑیو ں ،چھتوں ، گلیوں ، سڑکوں میں لوگ کھڑے رہے ۔کہا جاتا ہے آزاد کشمیر کی تاریخ کا یہ سب سے بڑا جنازہ تھا ۔ایسا کیوں نہ ہوتا ۔ یہ جنازہ کسی عام کا نہیں یہ جنازہ ایسی شخصیت کا تھا جو اصول پسند ، نڈر ، بے باک ، سچے کھرے سیاستدان، انسانوں سے والہانہ پیاد کر نے والے کا جنازہ تھا ۔ وہ پیپلز پا رٹی جموں کشمیر کے سربراہ ممبر قانون ساز اسمبلی اور با نی پاکستان بیرسٹر سردار ابراہیم خان کے فرزند تھے ۔ سوموار کے روز آہوں سسکیوں میں اپنے آبائی قبرستان متے خان میں اپنے والد بانی آزاد کشمیر سردار ابراہیم خان اور والدہ کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے ۔ سردار خالد ابراہیم عظیم باپ کے عظیم بیٹے تھے ۔ جنھوں نے اپنے والدکا نام روشن رکھا ۔آپ پر ہر کوئی فخر کرتا تھا کہ ا ﷲ ہر کسی کو ایسی ہی اولاد دے ۔ وہ ہر سال اپنے والد مرحوم کی برسی آزاد کشمیر اور اسلام آباد پریس کلب میں بڑے احترام جوش و جذبے سے مناتے تھے ۔ جب سے راقم کی آپ سے علیک سلیک ہوئی ۔ہر برسی کے موقع پر سردار ابراہیم خان شہید ملت کو خراج تحسین پیش کر نے کا موقع دیتے ۔ کبھی بھی میں نے برسی کے موقع پر ان کو اور انکے بھائیوں بیٹوں کو اسٹیج پر بیٹھتے اور بولتے نہیں دیکھا ۔ ہمیشہ شرکاء کے ساتھ بیٹھتے ہیں ۔ اس سال بانی ملت کی برسی کے موقع پر راقم نے فون کیا ، کہا اگر اجازت ہو تو اس بار نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے سابق صدر لفٹینٹ جنرل عمر فاروق صاحب کو بھی اس برسی میں شمولیت کی دعوت دیں ۔ جنرل صاحب کا تعلق بھی آزاد کشمیر سے ہے ۔ کہا تشریف لائیں تو خوشی ہو گی ۔ کہا مجھے جنرل صاحب کا فون نمبر دیں میں بھی دعوت دے دیتا ہوں ۔ جنرل صاضب سے جب راقم نے اس خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے خوشی خوشی اس دعوت کو قبول کیا ۔ ہم نے بتایا سردا ر خالد ابرہیم خان بھی آپ کو شرکت کی دعوت دیں گے ۔ برسی کے موقع پر جنرل صاحب جب تشریف لائے تو بتایا کہ ہماری کال کے بعد سردار صاحب کا بھی فون آیا تھا ۔ کہا مجھے خوشی ہے کہ اتنی بڑی قد آور شخصیت کے لئے مجھے بھی کچھ کہنے کا موقع ملے گا ۔ سردار خالد صاحب بانی ملت کی برسی پر ان ٹائم اپنے بیٹوں اور بھائیوں کے ساتھ پہنچ جایا کرتے تھے۔ برسی کے روز آپ جنرل صاحب سے گلے ملے ۔تشریف لانے پر آپ کا شکریہ ادا کیا ۔ جنرل صاحب نے کہا میرے لئے یہ اعزازکی بات ہے ۔برسی کے موقع پر ہر ایک سے ہاتھ ملاتے ،خوش آمدید کہتے ۔ اس برسی کے بعد جب سردار خالد ابراہیم خان سے ملاقات ہوئی توکہا طلعت برسی کو خوبصورت بنانے میں ذاتی دلچسپی لیتے ہیں ۔ میں ان کا دل سے مشکور ہوں ۔میں نے کہا سردار صاحب یہ میرے لئے یہ اعجاز کی بات ہے کہ اتنی بڑی نامور شخصیت کیلئے کچھ کہہ سکوں۔ سردار صاحب سے ہمارے فیملی مراسم تھے ۔ ایسے کبھی نہیں ہوا کہ فون کیا ہو تو سنا نہ ہو ۔ مصروفیت کے باعث اگر فون نہیں سنا تو کال بیگ ضرور کرتے ۔ کبھی کبھی آفس یا گھر بلا لیتے یا میرے گھر آ جاتے ۔ سادہ درویش طبیعت کے مالک تھے۔ دعائوں میں یاد رکھنے والی شخصیت تھے۔ حق و سچ کی خا طر جیلوں میں رہے۔ لاٹھی چارج سے زخمی ہوئے۔انہوں نے سیاسی زندگی میں کبھی ذاتی مفاد حا صل نہیں کیا۔ وہ ایک بااصول سیاست دان تھے۔ اس وقت بھی حق و سچ کی آواز بلند کرنے پر آزاد کشمیر کی سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا مقدمہ زیر سماعت ہے ۔ سردار صا حب سے اس پر بات ہوئی تو کہا گرفتار کر لیں ۔ بتایا کہ ایک ایس ایس پی آیا تھا لیکن اس نے کہا سردار صاحب آپ کو گرفتار کرنے کا میں سوچ نہیں سکتا اگر پریشر پڑا تو نوکری چھوڑ کر چلا جائو گا ۔ سردار صاحب نے بتایا تھا کہ مجھے سیاست میں سات سال کے لئے نا اہل قرار کئے رکھا ۔ میں ہمیشہ سیاست کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں ۔ کہا میری سیاست اداروں کے قیام و بحالی ، عوامی حقوق کی بحالی ، میرٹ کی بالا دستی ،جمہوریت کیلئے کام کرنا میری زندگی کا ہمیشہ مقصد رہا ہے۔ اگر کہا جائے کہ سردار خالد ابراہیم خان خوبیوں کا ایک مجموعہ تھے تو غلط نہ ہو گا ۔ پیار کرنے والے عزت دینے والے ، سچ بولنے والے ، کال بیک کرنے والے ،اصولوں کی سیاست کرنے والے ، بچوں سے شفقت سے پیش آنے والے ، بزرگوں کا احترام کرنے والے ، سادہ درویش صفت کے مالک تھے۔ یاسین آزاد سابق صدر سپریم کورٹ بار رولا کورٹ کی ایک مقامی تنظیم کی دعوت پر کراچی سے اسلام آباد پہنچے ۔ ائیر پورٹ پہنچ کر آپ کا فون آیا کہا تیار ہو جائو راولا کورٹ جانے کیلئے ، میں نے کہا اس کے لئے ایک شرط ہے کہا کیا کہ دوپہر کا کھانا میرے گھر میں کھا ئیں گے ۔ کہا منظور ہے ۔ اس فون کے بعد سردار خالد ابراہیم خان کو فون کیا ،پوچھا سردار صاحب آپ کہا ں ہیں ۔ بتایا اسلام آباد میں ہوں ۔ میں نے کہا اگر دوپہر کا کھانا میرے گھر میں کھانا پسند کریں تو خوشی ہو گی ۔ویسے کھانا مل بیٹھنے کا ایک بہانہ ہے ۔ کہا کیوں نہیں ۔ آپ سے جب بھی گھر جانے کا اتفاق ہوا ۔ آپ جو بھی کھلاتے وہ گھر کا بنا ہوتا ۔ وہ گھر میں گھر کا کھانا پسند کرتے۔ آنے کا وعدہ کیا ۔ اب نہ ہی اس کا ذکر یاسین آزاد صاحب سے کیا اور نہ ہی سردار خالد ابراہیم صاحب سے ۔ پہلے یاسین صاحب پہنچے ۔ اس کی تھوڑی دیر بعد سردار صاحب بھی پہنچ گئے ۔ گھر پہنچ کر ایک دوسرے کی آمد کا بتایا تو آپ دونوں بہت خوش ہوئے ۔ایک دوسرے سے بڑی گرم جوشی سے ملے ۔کہا یہ سرپرائز اچھا لگا ۔یہ ملاقات ایک یاد گار ملاقات تھی ۔ سردار صاحب ہمیشہ مجھے اپنی فیلی کا حصہ سمجھتے ۔ اس سال فیملی کے ساتھ عید ملنے گیا تو آپ کی فیملی کے ساتھ کھانا کھایا۔ گھر پر ہمیشہ گھر کی بنائی گئی چیزیں کھلاتے ۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا ۔ آپ اور بھاپی خود اٹھا اٹھاکر ڈشیں پیش کرتے ۔ ہمیشہ گھر پر خوش آمدید کہنے کیلئے گیٹ پر کھڑے ہوتے اور جاتے وقت الواع کہنے گیٹ تک آتے ۔ جب تک گاڑی چلی نہ جاتی فیملی کے ساتھ کھڑے رہتے ۔ جتنا پیار ،خلوص انکی کی مہمان نوازی میں پایا ایسا ہی خلوص پیار مجھے نسیم انور بیک مرحوم سے ملتا تھا اب نہ نسیم انور بیگ شہاب نامہ میں انکا ذکر ہے ) رہے ا ور نہ ہی سردار خالد ابراہیم خان رہے ۔میں نے سردار صاحب کو سیاست کو عبادت سمجھ کر کر تے دیکھا ۔ ایسی شخصیات کا خلا پر نہیں ہو سکتا ۔ سردار جیسی شخصیات صدیوں میں پیدا ہوتی ہیں ۔ دعا ہے اﷲ تعالی انہیں جنت و فردوس میں جگہ دے اور عزیز و اقارب کو صبر و جمیل عطا فرمائے آمین۔ مرحوم بشیر حسین ناظم کے ایک شعر کیساتھ اجازت
مجھ کو معلوم نہ تھا تیری قضاء سے پہلے
نیئر تاباں بھی زمیں بوس ہوا کرتے ہیں