پاکستان نے حریت کانفرنس سے تعلق ختم کرنے اور مشروط مذاکرات کے بھارتی مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے حریت والے علیحدگی پسند نہیں بلکہ فریڈم فائٹر ہیں۔ وہ ایسے حریت پسند ہیں جو اپنے مقبوضہ مادر وطن کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ بھارتی وزیردفاع ارون جیٹلی نے کہا تھا پاکستان بھارت یا حریت لیڈروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لے۔
تقسیم ہند کے ضوابط کے تحت کشمیر پاکستان کا حصہ ہے۔ بھارت نے اس پر جارحانہ قبضہ کر کے تقسیم ہند کے ایجنڈے کی تکمیل ادھوری کر دی۔ کشمیری چھ دہائیوں سے اپنے حق آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ لوگ چونکہ اصولی طور پر پاکستانی ہیں اس لئے پاکستان کا ان سے لا تعلق رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ارون جیٹلی نے پاکستان کیساتھ مذاکرات کیلئے حریت لیڈروں سے لاتعلقی کی شرط رکھی ہے۔ کشمیری مسئلہ کشمیر کے بنیادی فریق ہیں ان سے پاکستان تو کیا بھارت بھی لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ ارون جیٹلی کی طرف سے یہ بھی مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ بھارت کبھی سنجیدگی سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوا۔ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اٹوٹ انگ کہہ کر مذاکرات پر آمادگی کھلی منافقت ہے۔ اٹوٹ انگ کی حقیقت اسکی طرف سے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں لے جانے سے واضح ہو جاتی ہے اور پھر استصواب کی قرار داد بھی بھارت نے تسلیم کر رکھی ہے۔ پاکستان کی طرف سے بھارت کو مذاکرات کیلئے اسکی شرائط کو مسترد کر کے درست جواب دیا گیا ہے۔ او آئی سی کا موقف کشمیریوں کی جدوجہد کیلئے حوصلہ افزا ہے جس میں کشمیریوں کے حق خودارادیت کی غیر متزلزل حمایت کا عزم ظاہر کیا ہے۔ بھارت پر مذاکرات کے دبائو کیلئے پاکستان کو اپنی سفارتکاری فعال بنانا ہو گی۔ کشمیر کمیٹی کو بھی متحرک ہونا ہو گا جسکے سربراہ مولانا فضل الرحمن ہیں۔ مولانا خود کو دھکا سٹارٹ ثابت نہ کریں اپنے طور پر کشمیر ایشو پر سرگرم ہو جائیں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024