پاکستان کو مستحکم دیکھنے کا خواہش مند۔ اپنی خواہش کو خود سے ہی ڈرون حملہ میں بھسم کر کے رکھ دیا ’’امریکہ نے اپنے الفاظ کی نفی کر دی‘‘ امریکہ نے حملہ کیا۔ ہائی ٹارگٹ مارا گیا ا ور ہم بحث میں پھنسے ہوئے ہیں ’’قوم مزید مایوس اور کنفیوز ہو گئی ہے‘‘ اس نازک موقع پر بجائے اسکے ہم قومی امنگوں سے ہم آہنگ پالیسی اختیار کرنے کی طرف رائے عامہ ہموار کرتے ’’الٹا ’’میڈیا‘‘ شہید یا قاتل‘‘ کی فضول بحث میں الجھ گیا‘‘ سوال یہ نہیں کہ ٹارگٹ کون بنا؟ یہ محض ایک فرد یا لیڈر کی ہلاکت نہیں بلکہ ’’امن کی ہلاکت‘‘ ہے۔ اس سانحہ کے بعد پوری قوم اور ’’قیادت‘‘ ایک صفحہ پر نظر آرہی ہے ’’کیونکہ یہ پاکستان کے اقتدار اعلیٰ پر حملہ ہے‘‘ اس ظلم کے خلاف ایک ’’مضبوط آواز‘‘ کی ضرورت ہے۔ ’’دہشت گردی‘‘ ایک اس مسئلہ پر ہماری داخلی و خارجہی سلامتی اور استحکام وابستہ ہے‘‘ مذاکرات اور امن کوششوں کو پٹڑی سے نہ اترنے دینے کا حکومتی عزم قابل تحسین ہے ’’حکومت مذاکرات کیا یشو پر پرعزم ہے‘‘ مگر مفید نتائج کے لئے حکومت ’’طالبان‘‘ سے ضمانت لے کر وہ امن عمل کی تکمیل تک دہشت گردی کی سی بھی واردات میں ملوث نہیں ہونگے ’’ایسا کوئی بھی عمل نہیں کریں گے جو مذاکرات کی فضا کو نقصان پہنچانے کا موجب بنے‘‘ دوسری طرف ’’طالبان‘‘ نے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان تو کر دیا مگر امید ہے کہ پس پردہ کوششیں جلد ہی مثبت حقیقت بن کر سامنے آئیں گی‘‘۔ ’’عمران خان‘‘ نے ’’نیٹو سپلائی‘‘ 20 نومبر کے بعد بند کرنے کا اعلان تو کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ ایسے اعلانات جذباتیت ابھارنے کے لئے کئے جاتے ہیں مگر عمل بہت مشکل ہے‘‘۔ اس ایشو پر متفقہ مؤقف سامنے نہیں آسکا، اس بحران کو سنجیدگی اور بامقصد خطوط پر حل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ ’’لاجسٹک سپورٹ‘‘ کا پروانہ دیکر ہم نے پورے ملک میں آگ لگا دی اور اب بھی ’’کافر اتحادی‘‘ سے ’’مومنان انصاف‘‘ کی توقع لگا کر ’’گوادر‘‘ کے راستہ انخلاء کی تجویز دے رہے ہیں‘‘۔ ہماری تمام آہ و بکا، میڈیائی شور بیکار گیا۔ دو دن پہلے ’’چمن‘‘ میں ڈرون 5 گھنٹے پرواز کرتا رہا۔ امریکہ مسلسل ’’حکیم محسود‘‘ کی ہلاکت کو سپورٹ کر رہا ہے بلکہ پینٹاگون کے سابق دفاعی تجزیہ نگار اور تھنک ٹینک کے سربراہ جنرل ریٹائرڈ ’’جیک کین‘‘ نے کانگرس کو بریفنگ دیتے ہوئے ’’پاکستان‘‘ پر جہادی گروپس کی مدد کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ پاکستانی حکومت انتہائی کمزور اور فوج بالاتر ہے‘‘ ’’انہوں نے پاکستانی علاقوں کو اتحادی فورسز کے خلاف استعمال کرنے کا بھی الزام لگا کر کہا کہ ہم آنکھیں بند کر کے امداد نہیں دے سکتے‘‘ یہ دوغلی اور منافقانہ پالیسی ہے۔ ’’امریکہ‘‘ کو سمجھ لینا چاہئے کہ طاقت کا ناسمجھی سے استعمال کبھی بھی مددگار ثابت نہیں ہو سکتا۔ مسلسل ڈرون حملوں میں سے ’’امن‘‘ کا راستہ تلاش کرنا کیسے ممکن ہے؟؟ ’’امریکی و برطانوی میڈیا‘‘ ’’حکیم اللہ‘‘ کی ہلاکت کو ’’سی آئی اے‘‘ کی بڑی کامیابی قرار تو دے سکتے ہیں مگر اس کے نتیجہ میں ملنے والی مزید نفرت، بدنامی اور امریکہ مخالف جذبات کو سرد نہیں کر سکتے۔ نہتے شہریوں، معصوم بچوں کی جانیں لیتے ڈرون حملے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے ساتھ مطلوب نتائج کے اعتبار سے بھی غ یر مفید ثابت ہوئے ہیں۔ الٹا قبائلیوں میں اشتعال ان کو طالبان کے مراکز میں جانے کا باعث بن رہا ہے۔ ’’امریکہ‘‘ خود کی سلامتی، تحفظ کے لئے درست راہ اپنائے۔ قبائلی علاقوں میں ’’این جی اوز‘‘ کی بجائے حکومتی اور زیادہ بہتر ہے کہ فوج کی مدد، تعاون کے ذریعہ ’’تعلیمی ادارے‘‘ قائم کرے۔ انفراسٹرکچر بہتر بنائے ’’صحت کے مراکز بنائے اور ’’قبائلی بچوں‘‘ کو باہر کے ممالک میں جدید تعلیم کے مواقع فراہم کرے۔ اس کے علاوہ مسئلہ کا کوئی حل نہیں۔ ’’جہالت کا خاتمہ زیادہ ضروری ہے‘‘ اب ہم اندرونی حالات کی طرف پلٹتے ہیں تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ معاملہ قدرے ٹھنڈا پڑتا جا رہا ہے۔ بیانات کی حد تک سرگرمی دکھانے کے بعد مسئلہ روایتی تاخیر کی نذر ہو گیا ہے۔ فیصلہ سازی میں غیر معمولی تاخیر متفقہ رائے کو متاثر کر سکتی ہے ’’عوامی نمائندوں‘‘ دانشور حضرات کو اندرون حانہ اور باہر کی دنیا کے سامنے پالیسیوں، باتوں میں ’’دو رخی‘‘ کو اب کلی طور پر ترک کرنا ہو گا۔ ہماری بقا اس میں ہے کہ ہم ’’بطور قوم‘‘ خود کو ایک خود دار، غیور اور متحد قوم ثابت کر دیں۔ موجودہ پریشان کن اور صبر آزما صورتحال میں مذاکرات کے متعلق کوئی قابل یقین اور قابل بھروسہ حکومتی مؤقف سامنے آنا چاہئے کیونکہ ’’وزارت دفاع‘‘ نے ڈرون حملوں پر پارلیمنٹ میں دئیے گئے اعداد و شمار جعلی اور غلط ہونے کا اعتراف کر کے مفاہمت کی چادر میں سوراخ کر دیا ہے جبکہ سینٹ میں پہلے ہی اس حوالے سے کافی گرما گرمی ہو چکی ہے۔ ’’آئی ایم ایف ہو یا پاکستانی پارلیمان یا لاچار عوام، اعداد و شمار بہرحال درست، حقیقی ہونا چاہئیں‘‘۔
آخر میں ا یک سوال ’’حکومت نے ’’حکیم اللہ‘‘ کے سر کی قیمت ’’5کروڑ روپے‘‘ رکھی تھی، کیا اب حکومت یہ رقم امریکہ کو ادا کرے گی؟؟؟ بال قارئین کی کورٹ میں ہے…… ‘‘
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024