مہنگائی ا ور مالیاتی خسارہ قابو میں درپیش چیلنجز پر قابو پا سکتے ہیں : سٹیٹ بنک
کراچی(آن لائن)سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں مہنگائی اور مالیاتی خسارہ دونوں قابو میں رہے۔ہفتہ کو سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے پہلی ششماہی کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صارفین کے اخراجات بڑھنے کے نتیجے میں گاڑیوں اور برقی مصنوعات جیسی پائیدار اشیاء میں مضبوط نمو ہوئی جبکہ انفرا اسٹرکچر اور تعمیرات کی جاری سرگرمیوں نے سیمنٹ اور فولاد کے منسلک شعبوں کو تحریک دی ہے،یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ مختلف شعبوں کے بہت سے صنعتی ادارے اپنی پیداواری گنجائش بڑھانے اور مصنوعات کو متنوع بنانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔نجی شعبے نے بھی طویل مدتی منصوبوں کے لیے شیڈولڈ بینکوں سے قرض لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ زراعت کے شعبے میں اگرچہ خریف کی تمام فصلوں نے اچھی کارکردگی دکھائی،تاہم زیرکاشت رقبے میں کمی کے باعث گندم کی پیداوار دباؤ میں آ گئی۔گندم، چینی اور دالوں جیسے اہم غذائی اجزا کے معقول ذخائر کے باعث ان اجناس کی قیمتیں کم رہیں، جس کیوجہ سے غذائی مہنگائی قابو میں رہی۔سگریٹ پر عائد ڈیوٹی کے ڈھانچے میں سازگار ردوبدل سے اس کی قیمتیں کم ہو گئیں۔مالی سال 18کی پہلی ششماہی میں قوری (core)مہنگائی اوسطاً بلند رہی جس کیوجہ تعلیم اور صحت عامہ کی لاگت میں مسلسل اضافہ ہے۔تاہم حالیہ چند مہینوں میں اس کی رفتار مستحکم ہوئی ہے۔رپورٹ کے مطابق مالی سال 2018 کی پہلی ششماہی میں محاصل کی وصولی میں نمو اخراجات میں ہونیوالے اضافے کو پیچھے چھوڑ گئی۔مجموعی مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 2.2 فیصد تک محدود رکھا گیا، جو گزشتہ برس کے 2.5 فیصد سے کم ہے۔ سٹیٹ بنک کے بلند منافع،جائیدادوں اور انٹرپرائزز،سول انتظامیہ اور دیگر متفرق وصولیوں کے بڑھنے سے غیرٹیکس محاصل بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ رہے۔ برآمدات میں 8 مہینوں تک مسلسل اضافہ اور کارکنوں کی ترسیلات زر میں بحالی خوش آئند پیشرفت تھی لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات نے ان کے اثرات کو زائل کر دیا۔نتیجتاً مالی سال 2018 کی پہلی ششماہی میں جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ کر 7.4 ارب ڈالر ہوگیا جبکہ گزشتہ برس یہ 4.7 ارب ڈالر تھا۔ سٹیٹ بنک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتا یا گیا کہ پاکستانی معیشت اس جانے پہچانے موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں توازنِ ادائیگی کو درپیش چیلنجز مربوط اور بروقت اقدامات کے متقاضی ہیں تاکہ کلی معاشی استحکام اور نمو کی رفتار کو برقرار رکھا جاسکے،اگر بیرونی مسائل سے نمٹ لیا جائے تو دیگر مبادیات اتنی مضبوط ہیں کہ معیشت کو پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ دریں اثناء سٹیٹ بنک آف پاکستان نے عوام کی آگہی کیلئے اعلان کیا ہے کہ ورچوئل کرنسیوں کی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ اعلان میں بتایا گیا کہ ورچوئل کرنسیاں/ کوائن/ ٹوکن (جیسے بٹ کوائن، لائٹ کوائن، ون کوائن، ڈاس کوائن، پے ڈائمنڈ وغیرہ) کی بطور لیگل ٹینڈر کوئی حیثیت نہیں ہے اور نہ بنک دولت پاکستان نے پاکستان میں کسی شخص یا ادارے کو ایسی ورچوئل کرنسیوں/ کوائن/ ٹوکن کے اجرا، فروخت، خریداری، تبادلے یا سرمایہ کاری کا مجاز یا اجازت یافتہ قرار دیا ہے۔ بینکوں/ ترقیاتی مالی اداروں/ مائیکرو فنانس بینکوں اور پیمنٹ سسٹم آپریٹرز (پی ایس اوز)/ پیمنٹ سسٹم پرووائڈرز (پی ایس پیز) کو بی پی آر ڈی کے سرکلر نمبر 3 برائے 2018 کے تحت ہدایت کی جاتی ہے کہ اپنے صارفین/ اکاؤنٹ ہولڈرز کو ورچوئل کرنسیوں / ابتدائی کوائن آفرنگ (آئی سی اوز)/ ٹوکن کے لین دین کی سہولت نہ دیں، ورچوئل کرنسیوں/ کوائن/ ٹوکن کے لین دین میں اونچے درجے کا خفیہ عمل کارفرما ہوتا ہے اور اسے ممکنہ طور پر غیرقانونی سرگرمیوں کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ سٹیٹ بنک کے مطابق جو افراد کوئی مالیت پاکستان سے باہر منتقل کرنے کیلیے ورچوئل کرنسی/ کوائن/ ٹوکن استعمال کریں گے وہ رائج قوانین کے تحت مستوجب سزا ہوں گے،اس لیے عوام ورچوئل کرنسیوں کی منتقلی، فروغ اور سرمایہ کاری سے متعلق سرگرمیوں میں ملوث ہونے سے گریز کریں۔