یہ اوائل 80ء کا زمانہ تھا میں سٹودنٹ یونین کی سیاست میں سرگرم تھا کہ آمر وقت کی جانب سے قائم کیے گئے بے شمار مقدمات کے نتیجے میں مجھے جلاوطن ہو کر سوئٹزرلینڈ میں اقامت اختیار کرنی پڑی وہاں پر بے نظیر بھٹو اور محترمہ نصرت بھٹو مرحومہ سے رابطے ہوئے اور ان کی ہی ہدایت پر یورپ بھر میں پھیلے پیپلزپارٹی و دیگر جمہوری کارکنوں کو منظم کرنے کاٹارگٹ ملا۔ ہم اپنی سرگرمیوں کی باقاعدہ پریس ریلیز تیار کرکے بذریعہ فیکس اور ڈاک پاکستان میں روزنامہ مساوات کو بھیجتے تھے۔ اس طرح اخبار کا سٹاف ہم سے غائبانہ متعارف تھا۔ 17اگست1988ء کو آمر وقت کی وفات کے بعدمیں بھی جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آیا تو اعجاز رضوی صاحب سے ملاقات کا ٹائم طے ہوا میں مقررہ وقت پر منٹگمری روڈ پر مساوات کے آفس پہنچا جہاں اعجاز رضوی صاحب نے مجھے مساوات کے دیگر سٹاف سے بھی ملوایا اور اسی دوران میری ملاقات مشہور ڈرامہ رائٹر منیر راج اور خاتون صحافی مس پروین خان سے بھی ہوئی۔ شاہ جی سرتاپا پیپلزپارٹی اور بھٹو اور بھٹو ویژن کے دیوانے تھے وہ بھٹو کے فلسفۂ عوام کے شیدائی تھے۔ وہ رنجیدہ تھے کہ اب پارٹی کا اخبار صحیح لوگوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ وہ کہتے تھے کہ ایک ردی کا کاروبار کرنے والے کو مساوات کا چیف ایڈیٹر بنا دیا گیا ہے جس نے اخبار اور اخبار کے ورکرز سے پہلوتہی برت کے اپنے کاروبار پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ محترمہ تک پارٹی اخبار کے ورکرز کی استدعا پہنچائی جائے۔ اس دوران محترمہ اقتدار میں آئیں مگر پارٹی ورکرز کی طرح پارٹی اخبار کے ملازمین بھی پیپلزپارٹی کے اقتدار سے ثمر آور نہ ہو سکے بعد میں شدید اختلافات کی بنیاد پر شاہ جی نے مساوات چھوڑ دیا اور شاید وہ ایک دوسرے ادارے میں چلے گئے۔
میں جب بھی پاکستان آتا ان سے ملتا اور ڈھیروں باتیں ہوتیں پھر ایک دفعہ وہ کہنے لگے مطلوب تم بھی سرمایہ دار ہو گئے اور کوئی سرمایہ دار ،جاگیردار، کارخانے دارغریب کا ساتھی نہیں ہو سکتا۔ میں نے سمجھایا شاہ جی روٹی روزی کمانا سرمایہ دارانہ نہیں ہے بلکہ یہ انسان کی ضرورت ہے مگر استحصالی طبقے سے نفرت رضوی صاحب کی رگ رگ بھی بھری ہوئی تھی مگر صدافسوس کہ نظریات ازم اور ویژن کی سیاست کا دور گزرتا جا رہا تھا اور شاہ جی جیسے لوگ اس نئے نظام میں خود کو ایڈجسٹ نہیں کر پا رہے تھے۔ میں بھی دنیا کے کاموں میں مصروف ہوتا چلا گیا اور شاہ جی سے ملاقاتیں کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوتی چلی گئی حالانکہ اس دوران میں لاہور شفٹ ہو کر رہائش پذیر ہو چکا تھا۔ ہمارا ایک اور دوست زاہد عکاسی مرحوم کے توسط سے شاہ جی کی خبر ملتی رہتی تھی۔ میرے پاس آج بھی ان کے خطوط جو خطوط کم زندگی کا فلسفہ زیادہ تھے موجود ہیں۔
وہ صحافی بھائیوں کے حقوق کی خاطر لڑتے لڑتے اپنی ملازمت اور روزی روٹی کی پرواہ نہ کرتے تھے ۔ وہ انا کی صحافت کے علمبردار تھے اگر ایسا نہ ہوتا تو 26مارچ2014ء کو ان کی بیٹی محترمہ شازیہ اعجاز کی تحریر خاور نعیم ہاشمی صاحب کی وساطت ہم تک نہ پہنچتی۔ میں نے فیس بُک پر خاور نعیم ہاشمی کی اس تحریر کے ساتھ لکھی یہ خبر پڑھی کہ شاہ جی اب ہم میں موجود نہیں ہیں۔ میں ان دنوں بغرض علاج و دیگر ٹورنٹو کینیڈا میں ہوں اور شاہ جی جیسے عظیم انسان کے سفر آخرت کو کندھا نہ دینے کا مجھے ملال رہے گا۔ شاہ جی کی رحلت اپنے پیچھے کئی سوال چھوڑ گئی ہے ۔ کیا شاہ جی جنہوں نے تقریباً ہر قومی جریدے اخبار میں اپنی صلاحیتوں کو منوایا ہے ان کا بحیثیت نیوز ایڈیٹر ایک منفرد مزاج تھا۔ اپنی تحریروں اور دانشورانہ زندگی سٹائل سے وہ چاہتے تو لاکھوں کروڑوں کما سکتے تھے مگر انہوں نے کسمپرسی کی موت کو رشوت کرپشن کی ذلت آمیز شاہانہ زندگی پر ترجیح دی۔ میرا دل بہن شازیہ اعجاز کا اہل اقتدار کے نام تحریر پڑھ کر روتا ہے۔ میری بہن نے اپنے عظیم باپ کے لیے حکمرانوں سے علاج کی بھیک مانگی ہے مگر شازیہ بہن یہ طبقہ تو مُردوں کا کفن بیچنے والے لوگ ہیں، مرنے والے کی ہڈیوں سے ماس اتارنے والے لوگ ہیں، یہ پی ایف یو جے، یہ پریس کلب کی عہدے داران، یہ سستی شہرت کے بھوکے وہ لوگ ہیںجو اپنے ہی بھائی بندوں کے مفادات پر ڈاکے مارتے ہیں۔ غریب اخباری کارکنوں کے نام پر مختص گھر بنانے کے لیے پلاٹ اور کالونیوں میں ان ارب پتی نام نہاد صحافیوں کے نام پر الاٹ مٹ دیکھیں لاہور ،کراچی، اسلام آباد کے پوش علاقوں میں ان کے کروڑوں مالیت کے بنگلے ہیں، کل تک سائیکل گھسیٹنے والے یہ قلم فروش آج لگژری مرسڈیز ،بی ایم ڈبلیو، اور پراڈو سے کم گاری پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اکثر کے پاس تو پرائیویٹ ہوائی جہاز بھی ہیں۔
یہی المیہ ہے پاکستان کی سیاست اورصحافت دونوں میں جہاں غریب متوسط طبقے کا فرد وقت کے ساتھ اپنا مقصد اور نصب العین بھول کر چمک دھمک کا عادی ہو جاتاہے آپ نظر دوڑا کر دیکھیں کتنے ایسے کل کے غریب سیاسی کارکن آج ارپ پتی بن گئے ہیں جبکہ مساوات سمیت دیگر اخبار اداروں میں کام کرنے والے سینکڑوں ورکر کسمپرسی کی حالت میں دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ اعجاز رضوی مرحوم کا معاشی قتل بلاول بھٹو زرداری کے سر پر قرض ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے جنازے کے وقت بلاول نے جانشین ہونے کے ناطے کیوں نہیں پوچھاکہ ’’ہے کوئی جس نے میری ماں سے کچھ لینا ہو تو وہ مجھ سے رابطہ کرے‘‘ کیونکہ بھٹو شہید اور بیگم نصرت بھٹو مرحومہ مساوات کو اپنا تیسرا بیٹا مانتے تھے اور مساوات پرادھار ان کی قبروں پر ادھار کے مترادف ہے۔ آج صحافی تنظیمیں مجرمانہ خاموشی اختیار کیے بیٹھی ہیں۔ یاد رکھیے یہاں ہر روز ایک اعجاز رضوی کسمپرسی میں رخصت ہو گا اور ہو نہ ہو اگلی بار آپ کی ہو؟
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024