قومی اسمبلی : اپوزیشن کی بائیکاٹ کی دھمکی ‘ حکومت تحفظ پاکستان آرڈیننس پیش نہ کر سکی
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی + سٹاف رپورٹر + ایجنسیاں) وزیر داخلہ چودھری نثار نے کہا ہے کہ سینٹ میں ڈرون حملوں سے متعلق کوئی اعداد و شمار پیش نہیں کئے۔ خیبر پی کے میں دہشت گردی کے واقعات سے متعلق اعداد و شمار صوبائی حکومت کے فراہم کردہ تھے جو اب بھی ان پر قائم ہے۔ اپوزیشن ارکان کو کہا تھا کہ اعداد و شمار کی تصحیح کرائی جائیگی۔ کوئی غیر پارلیمانی طرز عمل اختیار نہیں کیا، ہرقسم کے احتساب کیلئے تیار ہوں، اپوزیشن کی کمیٹی بنا کر معاملے کی تحقیقات کرائی جائے اور ویڈیو جاری کی جائے، دیدہ دلیری سے غلط بیانی کر کے ایک شخص کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے، ہم نے کبھی اس قسم کا ڈرامہ نہیں لگایا جبکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم خود اس معاملے کو سینٹ میں جا کر حل کرائیں۔ دوسری جانب حکومت اپوزیشن کے بائیکاٹ کی وجہ سے تحفظ پاکستان آرڈیننس پیش نہ کر سکی۔ قومی اسمبلی میں سینٹ میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تنازع سے متعلق خورشید شاہ کے سوال کا جواب دیتے ہوئے چودھری نثارعلی خان نے کہاکہ اس روز سینٹ میں خوش اسلوبی سے سوال جواب ہو رہے تھے۔ اے این پی کے سینیٹر زاہد خان کا سوال پرانا تھا جس میں جون سے سوال جمع کرانے تک کے اعداد و شمار مانگے گئے تھے اور میں نے خیبر پی کے کی صوبائی حکومت کی جانب سے فراہم کئے گئے اعداد و شمار پیش کئے یہ سب ریکارڈ پر ہے، میں نے چیئرمین سینٹ کو خط لکھا ہے کہ سینٹ کی اس روز کی کارروائی کی ویڈیو جاری کی جائے اور یہ ویڈیو نہ صرف سینٹ بلکہ قومی اسمبلی میں پیش کی جائے۔ یہ معاملہ صوبائی اسمبلی میں اٹھانے کا تھا لیکن اسکے باوجود میں نے انکار نہیں کیا اور سوال کا جوابدیا جس پر کہا گیا ہے کہ یہ غلط ہے تو میں نے یہ بھی کہا کہ صوبائی حکومت سے دوبارہ چیک کرالیں گے لیکن اس معاملے پر طوفان کھڑا کیا گیا اور جواب واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ گذشتہ دور میں ہمیں کئی سوالوں کی تصحیح تو کیا جواب بھی نہیں ملے لیکن ہم نے طوفان کھڑا کیا نہ کوئی تماشا لگایا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ میں نے ڈرون حملوں سے متعلق بھی کوئی اعداد و شمار پیش کئے ہیں، یہ میرا نہیں وزارت دفاع کا سوال تھا جس کا جواب وزارت دفاع نے دیا ہے اور وزارت دفاع نے تصحیح بھی کر دی ہے۔ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے چودھری نثار اور سینٹ میں اپوزیشن کے درمیان تنازع کو پارلیمنٹ سے باہر طے کرانے کی ذمہ داری محمود اچکزئی کو سونپ دی۔ قومی اسمبلی میں معمول کی کارروائی معطل کرکے تیسرے روز بھی ڈرون حملوں پر بحث جاری رہی اور مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان نے بحث میں حصہ لیا۔ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی زاہد حامد نے تحریک پیش کی کہ ایجنڈے پر موجود ایجنڈا 4 کے سوا دیگر بزنس معطل کیا جائے جس کی منظوری دیدی گئی۔ مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی قیصر احمد شیخ نے کہا ہے کہ ہم نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے، امریکہ کو اس بات پر قائل کرنا چاہئے کہ وہ ہمارے مسائل سمجھے۔ ہمیں تمام حالات واقعات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ شیریں مزاری نے کہا کہ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے کا وقت درست نہیں تھا ہمیں امریکہ کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہئے، اس جنگ سے علیحدگی پاکستان میں امن کی ابتدا ہوگی۔ حملوں کیخلاف قرارداد آنی چاہئے، اگر مذاکرات اور احتجاج سے امریکہ ہماری بات نہیں مانتا تو ڈرون گرانے کے آپشن پر غور کیا جائے۔ رانا محمد افضل نے کہا کہ وقت آگیا ہے کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے ہمیں واضح مؤقف اختیار کرنا چاہئے۔ شاہدہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں دہشت گردوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے۔ حکومت مذاکرات کا ایجنڈا بتائے کہ کیا اس میں ملک کا آئین و قانون مدنظر رکھا جا رہا ہے۔ مولانا گوہر شاہ نے کہا کہ جب تک ہم نظام اسلام کے نفاذ اور سودی نظام سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرینگے۔ ہمارے حالات جوں کے توں رہیں گے، نیٹو سپلائی پر پابندی عائد کی جائے۔ جاوید ہاشمی نے کہا کہ امریکہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے خطے میں ایک جال پھیلا کر جا رہا ہے، اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ افغا نستان کا مسئلہ پاکستان کو نکال کر حل کیا جائیگا تو یہ درست نہیں ہے۔ اس موقع پر اگر ہم نے صحیح سمت اختیار کی تو یہ آنیوالی نسلوں پر احسان ہو گا، ہم امریکہ مخالف نہیں پاکستانیت پر یقین رکھتے ہیں۔ وزیر داخلہ خراج تحسین کے مستحق ہیں پالیسی ایک ہے عملدرآمد کا مسئلہ ہے مشکلات ضرور ہیں تاہم ہمیں پاکستان کے مفاد کو مدنظر رکھنا ہے۔ صاحبزادہ طارق اللہ نے مطالبہ کیا کہ پارلیمنٹ ڈرون حملے گرانے کیلئے قرارداد منظور کرے کیونکہ ہماری آزادی اور خودمختاری خطرے میں ہے، پرویز مشرف دور میں بننے والی خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ پاکستان اقوام متحدہ میں ڈرون حملوں کا مقدمہ ہار جائیگا، اگر آپ دوسروں کی خود مختاری کو تسلیم نہیں کریں گے تو دوسرے بھی آپکی خودمختاری کو تسلیم نہیں کریں گے، فاٹا کو صوبہ بنا کر وہاں کے لوگوں کے حوالے کریں اور وہاں سے غیر ملکیوں کو نکالا جائے، سرائیکی، سندھی، بلوچ اور پختونوں کے قومی حقوق تسلیم کئے جائیں، موجودہ دہشت گردی سوویت یونین کیخلاف شروع کی جانیوالی افغان جنگ کا تسلسل ہے، ’’نیپ‘‘ نے تو اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ سوویت یونین اور امریکہ کی جنگ میں پاکستان کو فریق نہیں بننا چاہئے، ہم صرف ان طالبان کو برا کہتے ہیں جو ہم سے لڑتے ہیں اگر ہم نے یہ تماشے جاری رکھے تو پھر پاکستان کے وجود کو قائم رکھنا مشکل ہو جائیگا، عمران خان کو ہر بال پر چھکا مارنے کی عادت ہے۔ افسوس کی بات ہے یہاں پر ہر آدمی مجاہد بنا بیٹھا ہے حالانکہ ہم ماضی میں ہونے والے جہاد کا خمیازہ ابھی تک بھگت رہے ہیں حالانکہ دوسری جانب ہم ہر قسم کی مالی بد عنوانی اور ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں سارے جاگیردار وڈیرے اور کارخانہ دار بیٹھے ہیں جو کہ سالانہ اربوں روپے کا ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ چور صرف وہ نہیں ہوتا جو کسی کے گھر میں گھس کر چوری کرے بلکہ مالی بدعنوانی کرنے اور ٹیکس چوری کرنے والا بھی چور اور ڈاکو ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی قائد اعظم کے فرمودات کو اہمیت نہیں دی حتی کہ ان کی 11 ستمبر کی تقریر کو غائب کر دیا گیا۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پاکستان بننے کے بعد پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو ماسکو کے دورہ کی دعوت دی گئی تھی مگر انہوں نے ماسکو کے دورے کی دعوت ٹھکرا دی امریکہ کا دور کرنا قبول کر لیا جب سے اب تک ہم امریکہ کی غلامی میں گرفتار ہیں۔ آج جو لوگ امریکہ دشمنی کی باتیں کر رہے ہیں اور ڈرون طیارے گرانے کا کہہ رہے ہیں کل یہ سب امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی تھے جبکہ اگر کوئی امریکہ مخالف تھا تو ہم جیسے لوگ تھے۔ انہوں نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید پہلے وزیر تھے جنہوں نے امریکہ سے کہا تھا کہ آپ بڈھ بیر ایئر بیس میں داخل نہیں ہو سکتے۔ امن مذاکرات میرے حوالے کر دیں، 23 مارچ تک کامیاب نہ ہوا تو سیاست چھوڑ دوں گا، ملک کے منفی حالات کی ذمہ دار پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) ہیں، بھٹو کے دور سے لے کر آج تک افغانستان میں مداخلت جاری ہے۔ افغانستان سے روس کے انخلا کے بعد پاکستان کو افغانوں کو آزاد اور تنہا چھوڑ دینا چاہئے تھا مگر (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی نے بلاوجہ وہاں مداخلت کی، یہی دو پارٹیاں آج کے منفی حالات کی ذمہ دار ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی بائیکاٹ کی دھمکی کے باعث حکومت تحفظ پاکستان آرڈیننس پیش نہ کر سکی‘ آج ایوان میں پیش کیا جائے گا‘ متحدہ اپوزیشن نے کہا ہے کہ ایجنڈا کے بغیر کسی بھی سرکاری بزنس کو ایوان میں پیش نہیں ہونے دیں گے رولز معطل کئے گئے تھے تو کس طرح سرکاری بزنس میں لیا جا سکتا ہے جبکہ حکومت نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ صرف وقفہ سوالات‘ نقطہ اعتراض‘ توجہ دلائو نوٹس معطل کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر زاہد حامد نے تحفظ پاکستان آرڈیننس کو ایوان میں پیش کرنے کی اجازت چاہی جس پر اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ ایک بزنس ایجنڈا پر نہیں لایا گیا تو کس طرح سرکاری بزنس لیا جا سکتا ہے۔ پہلے ڈرون حملوں پر بحث کو مکمل کیا جائے مگر دوسری جانب حکومتی سرکاری بزنس لے رہی ہے ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر فاروق ستار نے بھی اس کی مخالفت کی اور اس معاملے پر سید نوید قمر نے بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متفقہ قانون سازی کے حامی ہیں جبکہ حکومت اپوزیشن کے بغیر کارروائی کرنے جا رہی ہے تو پھر ٹھیک ہے واک آئوٹ کر جاتے ہیں۔ اس موقع پر وفاقی وزیر زاہد حامد نے کہا کہ سپلیمنٹری بزنس کیا جا سکتا ہے جس پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس طرح بزنس نہیں لینے دیں گے۔ نکتہ اعتراض پر خورشید احمد شاہ نے کہا کہ 9 دن ہو گئے ہیں ایوان بالا میں کارروائی بند ہے، اس وقت ملک نازک دور سے گزر رہا ہے اور عوام کی نظریں ہم پر لگی ہیں، صرف چھوٹی سی بات کو مسئلہ بنا دیا گیا ہے، وزیر داخلہ کو جواب واپس لینا چاہئے تھا۔ وزیراعظم خود سینٹ میں جا کر یہ مسئلہ حل کرائیں۔