حلقہ بندیوں کو حتمی فہرستوں میں بھی ابہام
راوشمیم اصغر
بلدیاتی انتخابات اگرچہ ابھی تک ابہام کا شکار ہیں لیکن اس کے لئے تیاریاں بھی جاری ہیں۔ صوبائی حکومتوں کی کوشش ہے کہ یہ انتخابات کسی طرح ملتوی ہو جائیں۔ الیکشن کمشن بھی ان کا ہمنوا ہے اور اس کا اصرار ہے کہ وہ اتنے کم وقت میں اپنے انتظامات مکمل نہیں کر سکتا۔ عدلیہ اپنے م¶قف پر قائم ہے کہ انتخابات ہوں اور پنجاب میں 7 دسمبر کو ہی ہوں۔ اس صورتحال میں صوبائی حکومتیں نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے حصے کا کام مثلاً حلقہ بندیاں جیسے معاملات کو تیزی سے نمٹا رہی ہیں اب جبکہ 7 دسمبر میں صرف ایک ماہ باقی ہے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا تکنیکی طور پر ایک ماہ میں یہ انعقاد ممکن ہے۔ ماہرین کے مطابق عملی طور پر ناممکن نہ بھی کہا جائے تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ دوسری طرف صوبائی حکومتوں کے سروں پر تلوار بھی لٹک رہی ہے کہ پرانے بلدیاتی ادارے بحال نہ کر دئیے جائیں۔ بحالی کی خبریں پڑھ کر پرانے بلدیاتی اداروں کے ارکان خوشی سے پھولے نہیں سما رہے اور وہ یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ ان کا اقتدار لوٹ آئے گا۔
بلدیاتی انتخابات کے لئے ترمیم شدہ نظام کی منظوری کے بعد کیا پرانے بلدیاتی ادارے کام کر سکتے ہیں یہ ایک طویل قانونی بحث ہے لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ نئی حلقہ بندیاں ہو چکی ہیں۔ پنجاب میں کمشنروں نے حلقہ بندیوں کے بارے میں اعتراضات کی سماعت بھی مکمل کر کے حتمی فہرستیں آویزاں کر دی ہیں۔ قبل ازیں ضلع ملتان میں 129 یونین کونسلیں ہوا کرتی تھیں اب جو فہرستیں آویزاں کی گئی ہیں ان کے مطابق ضلع ملتان 184 یونین کونسلوں پر مشتمل ہو گا جس میں سے میونسپل کارپوریشن ملتان 81 اور ضلع کونسل کی 103 یونین کونسلیں ہوں گی۔ ڈی سی او ملتان نے ضلع ملتان میں جن یونین کونسلوں کا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا اس کے مطابق یہ تعداد 204 تھی۔ جن میں سے میونسپل کارپوریشن ملتان کی 97 اور ضلع کونسل کی 107 یونین کونسلیں تھیں۔ اعتراضات کی سماعت کے بعد ضلع بھر میں یونین کونسلوں کی تعداد میں 20 کی کمی واقع ہو گئی ہے۔ ان 20 میں سے بھی 16 وہ کم ہوئی ہیں جو میونسپل کارپوریشن ملتان کی حدود میں تھیں اور اراکین اسمبلی نے من مانی کرتے ہوئے اضافہ کرایا تھا۔ ان میں سے کئی ایک بڑی مضحکہ خیز تھیں اور ان پر اعتراضات بھی درست ثابت ہوئے۔ اگرچہ اب بھی عوام کی جانب سے اعتراضات باقی ہیں۔ نئی حلقہ بندیوں کے مطابق تحصیل جلالپور پیروالا اور تحصیل شجاع آباد کی میونسپل کمیٹیاں بارہ بارہ وارڈوں پر مشتمل ہوں گی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ میونسپل کارپوریشن ملتان کیلئے جو حلقہ بندیاں کی گئی ہیں ان میں ابھی تک ابہام موجود ہے۔ اسسٹنٹ کمشنروں کے دفاتر کے باہر آویزاں کی گئی حلقہ بندیوں کی فہرستوں کے مطابق بعض یونین کونسلوں میں سرکل اور بلاک کا ذکر تو کیا گیا ہے لیکن اس میں کون سے علاقے شامل ہوں گے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے جو لوگ بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کے خواہشمند ہیں وہ شدید پریشان ہیں۔ وہ ان یونین کونسلوں کے نقشوں کے حصول کیلئے متعلقہ دفاتر میں ڈیرے ڈالے بیٹھے ہیں لیکن ابھی تک وہ نقشوں کے حصول میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
ایک اور بڑی دلچسپ بات یہ ہے کہ حلقہ بندیاں ابھی دو روز قبل سامنے آئی ہیں جبکہ امیدوار ایک ماہ قبل سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔ مختلف چوراہوں‘ سڑکوں پر امیدواروں کے بینرز آویزاں ہیں۔ رکشوں کو بھی پبلسٹی کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی جانب سے یہ بیانات سامنے آتے رہتے ہیں کہ وہ ہر حلقے میں امیدوار کھڑے کریں گے۔ غیر جماعتی انتخابات پر بھی کڑی تنقید کا سلسلہ جاری ہے لیکن حکمران جماعت کے عہدیداروں کی جانب سے اس عزم کا اظہار کہ وہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے نامزد امیدوار کی حمایت نہیں کریں گے۔ حکمران جماعت کیلئے بڑا الارمنگ ہے۔ یہ عہدیدار حلقہ بندیوں سے ناخوش ہیں۔ انہیں شکوہ ہے کہ اراکین اسمبلی نے اپنی مرضی سے اور اپنے حامیوں کو مدنظر رکھ کر حلقہ بندیاں کرائی ہیں جبکہ پارٹی عہدیداروں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ ان کی جانب سے دھمکیاں اس طرح اور بھی خطرناک بن جاتی ہیں کہ انہوں نے اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عملی طور پر بھی اقدامات کئے ہیں۔ بیشتر عہدیداروں نے جمع ہو کر حکمت عملی طے کر لی ہے اور ہر یونین کونسل میں امیدواروں کی نامزدگی کیلئے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وقت کی صورتحال کے مطابق مسلم لیگ (ن) شہر ملتان دو حصوں میں تقسیم نظر آتی ہے۔ ایک گروپ ان اراکین اسمبلی کا ہے جنہوں نے اپنی مرضی کے مطابق حلقہ بندیاں کرائی ہیں۔ دوسرا گروپ مسلم لیگ (ن) ضلع و ملتان شہر کے عہدیداروں کا ہے۔ اس گروپ میں وہ چند اراکین اسمبلی بھی شمار کئے جا سکتے ہیں جنہیں مرضی کی حلقہ بندیاں کرانے کا موقع نہ مل سکا یا جن کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت اگرچہ اس معاملے میں مداخلت کرے گی اور افہام و تفہیم کیلئے کسی سطح پر کوششوں کا بھی آغاز ہو گا لیکن اس وقت تک کافی دیر ہو چکی ہو گی۔ بلدیاتی انتخابات اگر عدلیہ کے طے کردہ پروگرام کے مطابق ہوئے تو شاید حکمران جماعت کو افہام و تفہیم کا موقع بھی نہ مل سکے۔