جس دن میں نے پہلی بار اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھایا تھا مجھے اپنا آپ کسی سکس پیک ہیرو سے کم نہیں لگا تھا۔ پھر مجھے جیسے ایک نشہ سا چڑھ گیا…جب جب اس کی بڑ بڑ ایک حد سے بڑھ جاتی میں ایک تھپڑ رسید کردیتا…اپنی بیٹی کی پیدائش پرمیں بہت خوش تھا۔ جب میں نے اسے اپنی گود میں یا تو بخدا میرے دل سے آواز آئی کہ اس کا دل بہت نازک ہے…نہ جانے کیوں میں بستر پر لیٹی اپنی بیوی سے نظریں نہ ملا سکا…اُس وقت میرا بڑا بیٹا پانچ سال کا تھا…اُس کے نانا کی اشکبار آنکھوں نے مجھ سے کہا ’’بیشک تمہارا بیٹا بہت سمجھدار اور فرماں بردار نکلے…لیکن دیکھنا تمہاری چھوٹی چھوٹی خوشیاں یا آنکھوں میں کہیں گم ہو جانے والے آنسو صرف تمہاری بیٹی کو ہی نظر آئیں گے‘‘
وہ اکثر اپنا کھلونا ہاتھ میں پکڑے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے میری توجہ کی منتظر ہوتی تھی۔ میں کتنی ہی دیر اس کے ساتھ بے وجہ ہنستا رہتا۔ میں کتنا بدل گیا تھا۔ پنجہ لڑاتے ہوئے میں ہر بارجان بوجھ کر ہار جاتا وہ کھلکھلا کر ہنس دیتی۔ ’’بابا آپ جان بوجھ کر ’’منی سے ہار رہے ہیں۔‘‘ میرا بیٹا بولتا رہتا۔ ’’بیٹا اصل بہادری تو یہی ہے کہ طاقت رکھتے ہوئے بھی اپنے سے کمزور کو تکلیف نہ دینا۔‘‘ اس وقت میرے دل سے یہ دعا نکلی کہ یا اللہ کبھی کوئی میری مُنی پر ہاتھ نہ اٹھائے۔ میں کتنی ہی دیر اپنے ہاتھوں کی سختی دیکھتا رہا۔ رفتہ رفتہ زندگی بہت بدل گئی۔ حالات کافی بہتر ہو گئے۔ بچے بڑے ہو گئے۔
لیکن میں آج بھی الجھا ہوا رہتا ہوں۔ میں اپنے مضبوط ہاتھوں کی کمزوری اب تک نہیں بھلا پایا۔ میں آج بھی اس سے نظریں چُراتا ہوں۔
علی امین گنڈا پور کی ’’سیاسی پہچان‘‘ اور اٹھتے سوالات
Apr 25, 2024