منڈی بہاؤالدین کا صاحب بہادر
حدود و قیود کسی بھی زمرے میں آتی ہوں بہر صورت ہوے فائدے مند ہیں ۔یعنی جب کوئی اپنے دائرہ سے تجاوز نہیں کرتا اور نہ ہی کسی کے دائرہ میں خوامخوا ہ کی مداخلت کی کوشش سے گریز کرتا ہے تو معاملات اور معمولات ایک ہموار ندی کی مانند پرسکون بہاؤ میں رہتے ہیں لیکن جیسے ہی کوئی چیز اس روانی میں خلل پیدا کرتی ہے تو طغیانی اور اس کے نتیجہ میں تباہی و بربادی ایک حقیقی امر بن جاتا ہے۔ اس تھیوری کو لے کر ملک پاکستان میں تقریباََ تمام طبقات اور گروہ دوغلے پن اور منافقت کا شکار ہے ۔ یعنی ہر طبقہ اور اِدارہ یہ چاہتا تو ہے کہ کوئی بھی اپنی حدود کو کراس کرتے ہوئے اس کے دائرہ میں مت گھسے اور ان کی کار سرکار میں مداخلت کرنے کی ہمت نہ کرے لیکن جب اس نظریہ کو عملی طور پر اپنانے کی بات آتی ہے تو آپ کو ہر روز قومی سطح پر اُٹھنے والے نت نئے شوشے ظاہر کرتے ہیں کہ منافقت اپنے کمال عروج پر ہے ۔ انفرادیت اجتماعیت تک ہر کوئی دوسرے کے معاملات میں ٹانگ پھسانے سے باز نہ آنا اور اپنے معاملات میں کسی کو دخل یابی کی اجازت نہ دینا دوہرے معیار کی معاشرت کاآئینہ دار بن چکا ہے ۔ سیاسی معاملا ت ہوں یا پھر انتظامی امودہن ۔ دھونس کا یہ مجرب نسخہ اپنی برتری اور مقاصد کے حصول کے لئے شرط لازم بن چکا ہے ۔اس گھٹیا مسابقت کو دیکھ کر عام پاکستانی کا دل کڑھتا ہے کہ جہاں اداروں اور طبقوں میں تال میل نہ ہو اور حقوق و فرا ئض کی بجا آوری کی بجائے اڈے بازی شروع ہو جائے تو شہری حقوق اور ریاستی فرائض گئے تیل لینے ۔ گزشتہ ہفتہ صوبہ پنجاب کے شہر منڈی بہاوالدین میں ایک سائل کی درخواست پر کنزیومر کورٹ کے راؤ عبدالجبار جو کہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن حج ضلع منڈی بہاوالدین بھی ہیں نے ڈپٹی کمشنر منڈی بہاوالدین کی بار بار عدم حاضری اور توہین عدالت پر ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرکا حکم سنایا جس پر ایک بار پھر ہم وطنوں کو پروفیشنل ازم کا منہ چڑاتے ہوئے طوفان بدتمیزی کو نوٹنکی دیکھنے کا موقع ملا۔ جب ڈی سی آفس کے محض ایک لیٹیگیشن کلرک نے فاضل عدالت کی توہین کرتے ہوئے بی سی کی عدم حاضری کو چیلنج کیا جس پر مذکورہ کلرک کو حوالات کی سلاخوں کے پیچھے ڈالاگیا تو ڈپٹی کمشنر نے عدالت میں حاضری کی بجائے معاملہ نمٹانے کوکہا ۔ اس کے بعد قانون کے داعی اور علمبردار جن کو سیشن جج کے اس فیصلہ کا خیر مقدم کرنا چاہیے تھا وہی دشمن جا ں ٹھہرے۔ ہر کامیا ب ریاست اس وقت تنزلی کی جانب بڑھنا شروع ہو جاتی ہے جب ادارے اپنے دائرہ کار سے تجا وز کرتے ہوئے کسی دوسرے ریاستی ادارہ کی رٹ کو چیلنج کرتے ہیں اور اپنی سپر میسی یقینی طور پر کامل بننے کی غیر آئینی و غیر اخلاقی سرگرمیوں میں پڑ جاتے ہیں ۔ایک جمہوری ریاست کا انحصار اس کے چار پائیدار ستونوں پر ہوتا ہے جس میں سب سے پہلے مقننہ عین پر ہوتا ہے جس میں سب سے پہلے مقننہ آئین ساز ادارے/اسمبلیاں دوسرے نمبرپر ایگزیکٹو (انتظامیہ) تیسرے نمبرپر عدلیہ (منصفانہ عدالتی نظام ) اور چوتھے نمبرصحا فت میڈیا۔ اگر یہ تمام مذکورہ ادارے اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اور دیگر ریاستی اداروں کے تقدس کا خیال کرتے ہوئے قومی تعمیر میں اپنا فعال کردار ادا کرتے رہیںتو نہ صرف ملک سبک رفتاری سے ترقی کرتا ہے بلکہ اس ملک کے شہری اپنے آپ کو محفوظ اور خوشحال تصور کرتے ہیں ۔ ان سب اداروں میں کسی کو بھی مقدس گائے قرار نہیں دیا جا سکتاالبتہ عدلیہ ایک ایسا ادارہ ہے جو ایک کامیاب ریاست کا ضامن ہے اس میں کوئی بھی طرزِ حکومت ریاست اور اس کے شہریوں کے حقوق کی کسٹوڈین ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سربراہ مملکت یا پھر خلیفہ وقت کو بھی قاضی کے سامنے پیش ہو کر اپنی صفائی اور سچائی کو بیان کرنا ہوتا ہے لیکن پاکستان اور بھارت سمیت دنیا بھر کے ممالک جہاں کلونیل ازم کی سا مرا جیت نے اپنے پنجے گاڑے تھے ان کے جانے کے بعد بھی ان کے اثرات کسی نہ کسی صورت میں مو جود ہیں۔منڈی بہائوالدین کا واقعہ بھی اسی صاحب بہادر کلچر کا عکاس ہے جہاں محض ایک معمولی سا لیٹیگیشن کلرک اپنے صاحب بہادر کی ایما ء پر معزز جج کو آنکھیںدکھانے اور بد تمیزی کرنے پر اتر آیا۔بیوروکریٹ بالخصوص کمشنری نظام اور پولیس کی بات کی جائے تو ان شعبوں میں خدمت کی بجائے حاکمانہ طرزِ عمل کی نفسیا ت آفیسر کی گھٹیوں میں رچ بس چکی ہے ۔ اپنے ادارہ کی دھا ک اور حاکمیت کی ترجیح تقریباََ تمام مذکورہ بیوروکریٹک سکیٹر کا وطیرہ بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صاب بہادران معزز عدلیہ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے حیرت کی بات یہ کہ تاج برطانیہ کی پیداوار یہ انتظامی سٹرکچر آج خود برطانیہ میں بھی موجود نہیں ہے ۔آپ کو انگلستان میں ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنر کی بجائے اے او یعنی ایڈ منسٹریٹو آفیسر اور اے اے یعنی اسسٹنٹ ایڈ منسٹریٹر آفیسر دیکھنے میں ملیں گے جو اپنے شہریوں کی خدمت کے لئے خادموں جیسا ہی کردار ادا کرتے ہیں لیکن یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالاہے ۔